صحافیوں کے سودا گر

کہا جاتا ہے کہ مردوں کے معاشرے میں خواتین کا گھروں سے نکلنا مشکل ہوجاتاہے اگر انہیں کہیں جاب کرنی پڑے تو ایسے میں قدم قدم پر مرد حضرات رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں لیکن میرا تجربہ تھوڑا مختلف ہے کیونکہ شعبہ صحافت ہو یا کسی بھی ادارے یا محکمے میں ملازمت کا معاملہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خواتین بھی خواتین کی ٹرولنگ کر کے سفر مشکل بنا دیتی ہیں۔

ایسا کچھ میرے ساتھ ہوا جب صحافیوں کے حقوق کے لیے بنائی جانے والی تنظیموں نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں فیک نیوز کے حوالے سے بل کے لیے احتجاجی کیمپ لگایا۔ خواتین صحافیوں کے واٹس ایپ گروپ میں جب میں نے یہ نکتہ اٹھایا کہ ہماری صحافتی تنظیمیں احتجاج کی کال تو دیتی ہیں لیکن حکومت یا مالکان جن کے خلاف احتجاج کرتی ہیں ان کے ساتھ بارگین کر کے معاملہ ٹھپ کرادیتی ہیں۔

اس پر کچھ خواتین، جن کے بارے میں کہا جاتا یہ کہ وہ بھی میڈیا سے آوٹ ہونے کے باوجود ان صحافتی تنظیموں کی منظور نظر ہیں ان خواتین نے نازیبا الفاظ اور ترش جملوں سے نہ صرف نوازا بلکہ مجھے سرے سے صحافی ہی ماننے سے انکار کر دیا۔ ویسے عام طور پر ہم مرد حضرات کے رویے کی شکایت کرتی ہیں لیکن اکثرخواتین بھی اپنی فیلڈ سے منسلک خواتین کی بات کی تصدیق کیے بغیر ان کے خلاف محاذ کھڑا کردیتی ہیں۔

اس صورتحال میں گروپ کی ایڈمن اور گروپ میں موجود سرکاری ادارے سے وابستہ خاتون نے نوٹس لیتے ہوئے ان کے نازیبا الفاظ پر اعتراض کرتے ہوئے معاملہ ختم کرنے کی بات کی لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اگر کوئی غلط کام کرے تو اس کو روکنا انتہائی مشکل ہے خاص طور پر جب روکنے والے ایک خاتون صحافی ہو اور جو یہ کام کررہے ہوں وہ صحافتی راہنما ہوں۔

ہم میں سے کچھ لوگ جانتے ہیں کہ وہ خواتین ہوں یا مرد اپنے ذاتی مفاد کے لیے ان راہنماؤں کی چاپلوسی میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سینکڑوں چینلز اور اخبارات ہیں۔74 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ان اداروں میں کام کرنے والے صحافی چاہے مرد ہوں یا خواتین گو نا گوں مسائل سے دوچار رہتے ہیں جن میں کم تنخواہ، تنخواہوں کی بروقت ادائیگی، سہولیات، کام کرنے کے لیے سازگار ماحول اور خاص طورپر ملازمت کا تحفظ شامل ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے افراد کو کسی بھی وقت ادارے کی طرف سے نوکری سے برطرف کرنا ایک معمول ہے اس پر صحافتی تنظیمیں رسمی کارروائی تک بھی گوارا نہیں کرتی ہیں۔ اگر بات کی جائے حکومت کی تو بے حسی اور بے توجہی کی وجہ سے بہت سے صحافی مسائل کا شکار ہیں۔

اگر آپ نے کبھی کسی صحافی سے بات کی یا ان سے واسطہ پڑا ہو مشاہدہ کیا ہو گا کہ وہ دوسروں کے مسائل پر تو آواز اٹھاتے ہیں لیکن کے اپنے مسائل کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا، ان کی اپنی صحافتی تنظیمیں بھی خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔

سال 2008ء میں ڈیلی ٹائمز کا اردو اخبار ”روزنامہ آج کل“ کا آغاز ہوا تو اس میں کام کا موقع ملا ایک سال تک تو یہ اخبار باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا، اچانک 2009ء کے آغاز میں ہی خبریں گردش کرنے لگیں کہ اخبار کا اسلام آباد آفس بند کیا جارہاہے اور پھر یہی ہوا، جاب چلی جانے کے بعد نئی نوکری تلاش کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔

شہر اقتدار میں صحافیوں کی متعدد تنظیموں کی ممبر ہونے کے باوجود اس مسئلہ کو بھگتا ہے۔ خیر بہت سی تگ و دو کے بعد جاب مل گئی لیکن یہاں بھی یک جنبش قلم معاشی مسئلہ کو بہانہ بنا کر 72 صحافیوں کو بے روزگار کر دیا گیا۔ ہر ذی شعور انسان کے لیے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کتنے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوئے ہونگے۔

ان دنوں جاب نہ ہونے کی وجہ سے کم ہی اسلام آباد شہر میں آنا جانا ہوتا تھا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ میری ایک صحافی دوست کو میرے اسلام اباد آنے کا پتہ چلا تووہ مجھے اپنے ساتھ اپنے آفس لے گئیں اور وہیں سے خبر ملی کہ وقت نیوزکے جن ملازمین کو نکالا گیا ان کے لیے پریس کلب اسلام آباد اور آر آئی یو جے کی طرف سے نوا ئے وقت کے آفس کے باہر احتجاجی مظاہرے جارہے ہیں۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میں پریس کلب کے کیفے میں موجود تھی کہ پریس کلب اور آر آئی یو جے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ہم نے وقت نیوز اور آج کل کے فارغ کیے گیے ملازمین کے لیے احتجاج کیا تھا اور مالکان سے 40 لاکھ روپے لے کر ان ملازمین کو دیے تھے۔

یہ سن کر ہم ہکا بکا رہ گئے اور اس وقت ہمیں اندازہ ہوا کہ صحافتی تنظیمیں کس طرح ورکر کے نام پر پیسے بٹورتی ہیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں بھی انہیں متاثرین میں شامل ہوں تو بات کو بدل دیا گیا مجھے آج تک اس حوالے سے کسی ٹھوس جواب کی تلاش ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے