سیلاب اس چیز کو کہا جاتا ہے جہاں جہاں دریا ،ندی ،ڈیم، جھیل وغیرہ ہوتے ہیں، پانی کے اس تیز بہاؤ اور آبی طغیانی کو سیلاب کہا جاتا ہے ۔
کسی محدود یا مقررہ وقت کے لئے پانی کے کسی ایسی جگہ جہاں عام طور پر خشکی ہو اور وہ زیر آب آ جائے تو وہ جگہ سیلاب کی زد میں آتی ہے۔دراصل سیلاب دریاؤں اور جھیلوں میں پانی کے حدسے زیادہ اضافے کی وجہ سے آتا ہے ۔اس لئے کہ جب پانی کا لیول بڑھ جاتا ہے تو اسے چھوڑ دیا جاتا ہے یا پانی اپنا راستہ خود بناتا ہوا نکل جاتا ہے اور اس پانی کے نکلنے سے نشیبی علاقے زیرآب آ جاتے ہیں اور اس طرح سیلاب کی صورت اختیار کر جاتا ہے ۔ سیلاب سے دیہی علاقے ،شہر ، گاؤں ، قصبے زرعی املاک ، جنگلات سب کو بے تہاشا نقصان پہنچتا ہے ۔
اب جب انسانی آبادیوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور زندگی کو آسان بنانے کے لیئے انسان نے دریاؤں کے موڈ اور ان کے کنارے آباد کر لئے ہیں اپنے گھر، ہوٹل ،بازار سب کچھ ان جگہوں میں ایسے آباد کر چکے ہیں جیسے اب کبھی بھی یہ دریا بپھریں گے نہیں غضب ناک نہیں ہونگے اور ہم انسان پانی کا راستہ روک کر خود کو بہت عقلمند تصورکر چکے ہیں ۔لیکن آدمی یہ کیوں بھول چکا ہے کہ یہ قدرت کا نظام ہے کبھی اس میں خاموشی ہوتی ہے تو کبھی تلاطم برپا ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے سامنے کسی چیز یا رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتا اور سب کچھ فنا کرکے اپنا راستہ بنا کر نکل جاتا ہے جب اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ آ جائے تو بھپر جاتا ہے اور باقی تمام رکاوٹوں کے ساتھ انسانوں کو روندھتے ہوئے نکل جاتی ہے۔
جب جون 2022 کے آ خر میں مون سون کی بارشوں کی ابتدا ہوئی تو محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ خیال رکھا جائے کہ یہ طوفانی بارشیں ہیں لیکن انسان کہاں ڈرنے والا ہے وہ تو اپنی من مانی سے اس دنیا میں راج کر رہا ہے۔
پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی بات کریں تو مون سون یہاں سے شروع ہوا ،اور پورے پاکستان میں زیادہ تر سندھ ، بلوچستان ، کے پی کے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بہت سی آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ، اتنا نقصان پہنچایا کہ گاؤں کے گاؤں مٹ گئے خاندان کے خاندان ختم ہو گئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔مال مویشیاں سیلابی ریلوں میں بہہ کر ختم ہو گئیں۔
لاکھوں لوگ بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں اور تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔بخار ، ہیضہ ،جلد کی بیماری سر فہرست ہیں ۔یہ سب تکالیف اپنی جگہ ہیں ۔
اس سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر عورت کی ذات ہوئی ہے وہی عورت جو ایک نسل کو پیدا کرتی ہے یا یوں سمجھیں کہ عورت اس دنیا کو چلانے والی ایک زرخیز زمین ہے جو انسان پیدا کر کے اس کائنات میں ایک زندگی کو جنم دیتی ہے۔ جسے اللہ پاک نے اس کام کے لئے خاص بنایا ہے ۔
مون سون کی بارشوں سے جو سیلاب کا باعث بنیں اس نےخواتین کو بہت متاثر کیا ہے سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین بہت مشکلات کا شکار ہیں نازک مزاج رکھنے والی عورت اس دور میں سیلاب میں کس قدر تکلیف سے گزر رہی ہے یہ صرف ایک عورت ہی محسوس کر سکتی ہے۔
اس دوران امدادی کیمپ لگائے جا رہے ہیں عام عوام سے لے کر حکومت تک سب لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح سیلاب زدگان کی امداد کی جائے اور ایک حد تک سیلاب زدگان کو امداد مل بھی رہی ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ روز اول سے عیاں ہے کہ وہ ابھی تک کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں اپنی ان خواتین کے ساتھ جو حاملہ ہیں جو زچگی کے بلکل قریب ہیں یا جن کی زچگی دوران سیلاب ہو بھی چکی ہے کیچڑ میں پانی میں کھلے آسمان تلے بےبسی کی حالت میں اف اللہ وہ عورتیں کس قدر بے بس ہیں ۔
ایک عورت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیلاب کے دنوں سے لے کر آج تک ہم بے بس ہیں ہماری ماہواری کے لئے ہمیں کوئی کپڑا تک میسر نہیں ہے ہم تو خیر ہم لیکن ہماری جو بچیاں ابھی اسی دوران بلوغت کو پہنچی ہیں وہ بھی اس عذاب سے دوچار ہیں ۔اوپر سے ہم پر نجانے کون سا عذاب آیا ہے کہ مرد عورتیں سب ایک ہی جگہ ہیں کہ نا پردے کا انتظام ہے نا خود کو ماہواری کے دِنوں ڈھکنے کا کوئی آسرا ہے ۔
بےبسی کی انتہا تو دیکھو کہ ہم ہر مرد کی نظروں کا محور ہیں ہم بے بس ہیں بہت بے بس۔
ایک رپورٹ کے مطابق 6.4 ملین افراد جو کہ اس دوران متاثر ہوئے ہیں ان میں سے 1.6 ملین سے زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورتیں ہیں ۔
حکومت پاکستان کے ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں تقریباً 33 ملین لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے تقریباً 8.2 ملین عورتیں تولیدی دور میں ہیں ۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 650000 حاملہ عورتوں کے حمل کو محفوظ بنانے اور نو مولود کی پیدائش کو یقینی بنانے کےلئے محکمہ صحت کی خدمات کی ضرورت ہے ۔
ایک بچے کی پیدائش یا حمل کسی ہنگامی حالات یا قدرتی آفات کے ختم ہونے کا انتظار تو نہیں کر سکتی ۔حمل کا دورانیہ اور بچہ پیدا کرنے کا وقت بہت زیادہ تکلیف دہ عمل ہےجس سے صرف ایک عورت ہی گزر سکتی ہے ۔
لوگ اپنے گھر میں کسی کو تین دن تک جگہ نہیں دیتے لیکن ایک عورت ایک انسان کو نو مہینے اپنے آپ میں پالتی ہے اسے سنبھالتی ہے اور اسے ایک محفوظ مقام پر پیدا کرنے کے لیئے جد و جہد کرتی ہےکہ جس انسان کو اس نے اتنی تکلیف سے محنت سے اپنے اندر پال کر حفاظت کر کے وہ عورت عظیم بنی ہے تو اب وہ سلامت اور محفوظ رہے ۔ لیکن وائے رے قسمت کہ اس سیلاب کے دنوں میں عورت زات کتنی دشواری محسوس کر رہی ہے کہ سر چپھانے کو ایک سایہ اور چھت محفوظ مقام تک اسے میسرنہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو درد زہ کے تکلیف دہ مرحلہ سے گزر کر پیدا کر سکے۔جو 650000 عورتیں حاملہ ہیں ان میں سے 73000 اس ماہ میں زچگی کے عمل سے گزرنے کے لئے بالکل تیار ہیں بے یار و مددگار ہیں ۔
یو این ایف پی اے کا کہنا ہےکہ ان میں سے بہت سی خواتین کو صحت کے مراکز اور دیکھ بھال کے اداروں تک رسائی حاصل نہیں ہے جس کی انھیں ایک محفوظ اور بحفاظت پیدائش کے لئے ضرورت ہے ۔پورے پاکستان میں اگر ہم دیکھیں تو یہاں اس سے پہلے عورتوں کو تولیدی صحت میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا رہا ہے۔
جس کی وجہ بنیادی صحت کے مراکز کا نا ہونا ہے اگر کہیں بنیادی صحت کے مراکز موجود ہیں تو وہاں تجربے کار عملے کی غیر موجودگی سبب ہے ، ہسپتالوں کا گاؤں سے دور ہونا راستوں کی خرابی سڑک کا نا ہونا ان سب مسائل کی وجہ سے زچہ و بچہ راستے میں ہی ایکسپائر ہو جاتے ہیں ۔صرف بلوچستان نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہر گاؤں کا یہی حال ہے ۔لیکن شومئی قسمت کہ اس دفعہ سیلاب نے اس مسلئے کو دوبالا کر دیا۔
اس موسمی تبدیلی نے پاکستان میں سب سے زیادہ نئی بننے والی ماؤں اور حاملہ خواتین کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے ۔ہمارے ملک میں ایک بہت بڑا المیہ کم عمری کی شادیوں کا ہے 18 سال سے کم عمر میں بچیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں جس کے سبب سے وہ ماں بننے کے عمل میں بہت سی پیچیدگیوں سے دو چار ہو جاتی ہیں۔ماں اور بچے دونوں غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔اور اس سے شرح اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔
یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق اندازہ ہے کہ پاکستان میں 18.9 ملین لڑکیوں کی شادی 18 سال سے پہلے کی جاتی ہے اور 4.6 ملین کی شادی 15سال سے پہلے کی جاتی ہے ۔جس کی وجہ سے یہ عورتیں خطرناک ترین صورتحال سے گزرتی ہیں ،
ہمارے ملک پاکستان میں زیادہ تر زچگیاں گھروں میں کی جاتی ہیں اور اس وقت تقریباً دس لاکھ گھر تباہ ہو چکے ہیں تو اب جو عورتیں حمل کے دورانیئے سے گزر رہی ہیں وہ نہیں جانتیں کہ کھلے آسمان تلے وہ کیسے بچے کو جنم دینگی ۔
مسئلہ صرف حاملہ یا زچگی کا نہیں ہے بلکہ ایک خاندان جو کہ کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہا ہے کیا ان کی ضروریات نہیں ہوتیں ہیں ؟کیا وہ اب ایسے ہی زندگی گزاریں گے؟وہ بے پردہ ہیں وہ کھلے میں ہیں ان کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں وہ پریشان حال ہیں ۔
جہاں پردہ نا ہو مرد عورتیں ایک جگہ رہتے ہوں زندگی بسر کر رہے ہوں وہاں بے راہ روی عام ہوگی وہاں جنسی زیادتیاں بھی ہونگی ۔یہ ایک ا یسی حقیقت ہے کہ جس سے ہم نظر چرا رہے ہیں اور ہم صرف سیلاب زدگان کے کھانے پینے اوڑھنے کے لئے فکر مند ہیں جبکہ انکا سب سے بڑا مسئلہ ان کے رہنے کا ہے خواتین کے پردے اور محفوظ مقام کا ہے تا کہ وہ آرام سے اٹھ بیٹھ سکیں ۔
پا خانے اور ماھواری کے جو بہت بڑے مسائل ہیں ان کے لئے زندگی بسر کرنا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے وہ اس قدر مجبور ہیں کہ انہوں نے بصد مجبوری بس ایک خاموشی سی اختیار کر لی ہے اور شاید وہ مر جانا چاہتی ہیں لیکن اس مشکل کو پھر بھی برداشت کر رہی ہیں ۔
اور ہم وہ عورتیں ہیں کہ جو محفوظ ہو کر بھی ان مجبور خواتین کا حال تک نہیں پوچھتے ان کی مدد تو دور کی بات ہے حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ سیلاب زدہ علاقوں کی خواتین جو حاملہ ہیں اور لڑکیوں کی ضروریات اور جنسی اور تولیدی صحت تک رسائی کو جلد از جلد ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کرےتاکہ ہماری لڑکیوں اور خواتین پر جو ڈپریشن کا حملہ ہوا ہے وہ ایک حد تک کم سے کم ہو جائے ۔
ایک رپورٹ میں نے دیکھی تھی جس میں جعفر آباد کے ایک ڈاکٹر عمران بلوچ کا کہنا ہے کہ اس دوران خواتین نے سڑکوں پر گاڑیوں میں بچوں کو جنم دیا ہے اور اس سے زیادہ اذیت ناک بات یہ کہ ایسی خواتین جو ابھی زچگی کے وقت میں داخل نہیں ہوئے تھے لیکن راستوں کی خرابی سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے وقت سے پہلے ان کے بچے پیدا ہوئے ہیں ،ہزاروں خواتین کے ساتھ ساتھ ایک خاتون کی کہانی کہ جو اس سیلاب کے دور میں جنم لیتی ہے کا کہنا ہے کہ زچگی کے آخری مراحل میں ہونے کے باوجود میں نے اپنا سامان سر پر اٹھایا اور گھنٹوں پیدل سفر کیا ہے ،لیکن کچھ بھی نہیں بچا ہمارے لیے اور جب میں نے بچے کو جنم دیا تو اس کو پہنانے کے لئے ایک کپڑے کا ٹکڑا تک نہیں تھا نا ہے بس یہاں وہاں سے ایک ٹکڑا لے کر ہر روز بار بار دھو کر بچے کو پہناتی ہوں ،
کون جانے کب تک اس کھلے میں ایک معصوم بچہ کب تک سروائیو کر سکے گا اتنی بیماریوں اور مچھروں میں ۔۔۔
ایک اور عورت سے اس کے حالات پوچھے تو وہ بتانے لگی کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی 14 سال کی عمر میں کر دی کہ کم سے کم وہ روٹی کے لئے نا ترسے لیکن اب اس کی بیٹی ہوئی ہے وہ بہت کمزور ہے اور میں خود بیوہ ہوں اور لوگوں کے گھروں میں کام کر کے گزارہ کرتی ہوں لیکن اب میرا ایک کمرہ تھا جس میں دھوپ نہیں آتی تھی اب وہ بھی سیلاب کی زد میں آ گیاہے اور میں حیران ہوں کہ زندگی کیا اتنی تکلیف دہ بھی ہوگی کہ میں در در پھرتی رہوں ؟
ایسی ہزاروں خواتین ہیں جو ماہانہ حساب اور پاخانے کے مسائل کے شکار ہیں اور سب سے زیادہ ان خواتین کو اپنی عزت کا بھی خطرہ رہتا ہے کیونکہ گاؤں کے گاؤں ہیں جن کے لوگ ایک جگہ ایک ساتھ رہنے پر مجبور ہیں ۔
بھوک اگر صرف پیٹ کی ہوتی تو شاید برداشت بھی کر لی جاتی لیکن اس دور بے پردگی میں جسم کی بھوک نے بھی سر اٹھایا ہے اور ڈر اور خوف کا عالم یہ ہے کہ کوئی عورت کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔ایسے بہت سے جنجال ہیں جن کو حل کرنا حکومت کی اولین زمہ داری ہے ۔
آکسفیم کے ایک تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ 2004 میں بحر ہند کی سونامی کے دوران ہلاک ہونے والے 230000 افراد میں سے 70 فیصد خواتین تھیں ۔
اور پاکستان صنفی مساوات کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بد ترین ملک ہے یہ مایوس کن نتائج ان بدقسمت حالات کی وضاحت کرتے ہیں جن کا پاکستان میں خواتین اب بھی تجزیہ کر رہی ہیں ۔چاہے وہ معاشی با اختیار ہونے یا معاشرے میں قائدانہ کردار کے حوالے سے ہوں ۔
اس پس منظر میں سیلاب جیسی قدرتی آفات ان لاکھوں عورتوں کے لئے اور زیادہ پریشانی کا باعث بن گئی ہے جو کہ اس مردانہ معاشرے میں اپنے بنیادی حقوق کے لئے کوشاں تھیں جس کے لئے انھیں بہت سی ٹرینڈنگس اور تربیتی پروگرامز میں شامل کیا گیا تھا تا کہ وہ معاشرے میں با اختیار ہو سکیں ۔لیکن بد قسمتی سے ایک بارپھر پاکستان کی سیلاب زدہ علاقوں اور صوبوں کی خواتین قرنوں پیچھے چلی گئیں ،اب دوبارا سے ان کو بحال اور صحت مند ذہن سازی کے لئے سالوں کا وقت درکار ہوگا ۔