موسمیاتی تغیرات اور حالیہ بارشیں : پاکستانی ادارے اور بین الاقوامی دنیا کی ذمہ واریاں

[pullquote]مختصر خلاصہ [/pullquote]

یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں نہ تو اتنے کارخانے ہیں جس سے نکلنے والا دھواں موسمیاتی تغیرات کا موجب بنے اور نہ ہی اتنی زیادہ گاڑیاں. لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان ہر قسم کے ذمہ داری سے بری الذمہ ہے. کیوں کہ پاکستان میں موجودہ کارخانے اور گاڑیاں بے شک موسمیاتی تغیرات کا سبب نہ ہو لیکن ماحولیاتی آلودگی کا سبب ضرور ہے. اس بیان سے موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی آلودگی کا فرق بھی واضح ہو جاتا ہے. پاکستان موسمیاتی تغیرات کے صف اول کے دس ممالک میں آٹھویں پوزیشن پر ہے, لیکن حساسیت کی وجہ سے پانچویں نمبر پر ہے. اول و ذکر پوزیشن پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہے, جبکہ پانچویں پوزیشن پاکستان کی اندرونی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہے. اس لحاظ سے پاکستان کے اداروں اور عام لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ اپنی ذمہ داریاں نباتے ہوئے اپنی پوزیشن کو پانچ سے آٹھ پر لے آئے. جبکہ ٹاپ ٹین سے نکلنے کیلئے ذمہ داری باقی دنیا پر آجاتی ہے.

[pullquote]پس منظر [/pullquote]

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پچلے بارہ سال سے مسلسل نقصان اٹھا رہا ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ذمہ داری صرف پاکستان پر عائد ہے یا باقی ممالک کی بھی ذمہ داریاں بنتی ہیں. اس کا جواب بکل سیدھا ہے کہ ہاں کچھ کام آیسے ہیں جو پاکستان نے خود کرنے ہیں اور کچھ کام ایسے ہیں جو باقی دنیا کے ممالک نے کرنے ہیں. زیر نظر مضمون میں ان ذمہ داریوں کا ذکر کیا گیا ہے جو پاکستان نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر لینے ہیں.

بزنس سٹینڈرڈ اخبار کے مطابق پاکستان کو 18 بیلئن امریکی ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے. بی بی سی کے ایک رپورٹ میں نقصان کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ بتایا گیا ہے. این-ڈی ٹی وی کے مطابق پاکستان کی 37 فیصد آبادی متاثر ہوئی ہے. مجموعی طور پر 118 اضلاع میں 8.35 میلئن ایکڑ زرعی زمین خراب ہوئی. اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بے روزگاری 22 فیصد سے بڑھ کر 37 فیصد پر چلی جائے گی. اس طرح معیشت اور اقتصادی ترقی کو بحال کرنے میں دس سال تک لگ سکتے ہیں. ابتدائی پانچ سال کے دوران معاشی نشوونما کم سے کم رہے گی. جس کی وجہ سے پاکستان مالی بحران کا شکار رہے گا. اس کے علاوہ 1999 سے 2018 تک پاکستان کی جی ڈی پی کو فی یونٹ 0.53 فیصد نقصان دیتا آرہا ہے. جس کی مجموعی مالیت 3.8 بیلین امریکی ڈالر ہے. جبکہ 2022 میں یو این رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تغیرات پاکستان کو سالانہ 26 بیلین امریکی ڈالر تک نقصان دے گا. اگر مزید گہرائی میں جائیں تو نقصان سے متعلق اعداد و شمار پریشان کن ہونے کے ساتھ ساتھ خوفزدہ کرنے والے ہیں.

زیر نظر مضمون موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت میں حکومت اور پبلک سیکٹر کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ہم اکثر ماحولیاتی تغیرات کے تخفیف پر زور دیتے ہیں. جو کہ موجودہ حالات میں, مہنگا اور زیادہ عرصہ درکار ہونے کی وجہ سے مناسب نہیں ہے. ہمیں سب سے پہلے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق موافقت پر کام کرنا ہے. تاکہ اس کی مناسب درجہ بندی کی جائے۔ اس کے بعد ہم بنیادی معاشی اصولوں پر غور کرتے ہیں جو موافقت کے کاموں کی سرکاری شعبوں کے ساتھ ساتھ عوامی شعبوں کی ذمہ دایاںوں کی بھی نشاندہی کی جائے. ہم دیکھتے ہیں کہ موافقت کی پالیسی میں ریاست کا کردار محدود ہے. ہم انفارمیشن پالیسی کو تقویت دیں تاکہ ملک میں موجود انسانی قوت کو مناسب طور پر بروئے کار لایا جا سکے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں اپنے کردار کو جانچ سکے. اس کے علاوہ یہ بات بین الاقوامی سطح پر لانی چاہیئے, جس کیلئے ہمیں با عمل ماحولیاتی اور موسمیاتی ڈیپلومیسی مرتب کرنی ہوگی.

[pullquote]حکومت پاکستان اور عام لوگوں کی ذمہ داریاں [/pullquote]

باہر کے ممالک کی طرف دیکھنے سے پہلے ہمیں چاہیئے کہ ملک کی اندرونی صورتحال کا جائزہ لیا جائے. تاکہ معلوم ہو سکے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور اب تک کیا کر چکے ہیں اور مستقبل قریب میں ہمیں کیا کرنا ہے؟

جب بات موسمیاتی تغیرات سے متعلق موافقت کی آجائے تو ہمیں چند اہم شعبوں کو ذہن میں رکھنا ہے. جس میں صحت, آبی وسائل, ماحولیاتی نظام, آبادی, زراعت, معیشت اور اقتصادی صورتحال سامنے رکھنی ہوگی.

[pullquote]پاکستان کے ماحولیات سے متعلق دارے اور قانون سازی[/pullquote]

ویسے تو ماحولیات سے متعلق قانون سازی 1947 سے پہلے موجود ہیں. جس میں جنگلات سے متعلق قوانین, نکاسی آب اور آبی ذخائر سے متعلق قوانین. لیکن ماحولیات سے متعلقہ مخصوص قوانین کا آغاز 1983 میں ہو جب تحفظ ماحولیات سے متعلق صدارتی آرڈیننس سامنے آیا. جس کو بعد میں 1997 میں باقاعدہ ایکٹ کی شکل دی گئی. اس وقت گرین ہاوس ایفیکٹ اور ٹریفک سے متعلق آلودگی بڑھ رہی تھی. یہ اثرات بڑے بڑے شہروں تک محدود تھے. دیہاتی علاقے ماحولیاتی طور پر صاف تصور کئے جاتے تھے. جب نوئے کی دہائی میں گلوبل وارمنگ کا کنسپٹ سامنے آیا تو لوگوں نے ماحول اور ماحولیات سے معلق قوانین میں زیادہ دلچسپی لینے لگے.

وقت کے ساتھ ساتھ ماحولیات سے متعلق قوانین میں تبدیلیاں آتی رہی. اس وقت ہمارے پاس وفاقی اور صوبائی سطح پر تقریباً سارے قوانین موجود ہیں. جس میں ماحولیاتی ایکٹ, ترقیاتی کاموں کیلئے تجزیاتی قواعد و ضوابط, کلائیمٹ چینج پالیسی, سب موجود ہیں. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے یا نہیں.

دوسرے نمبر پر ہمارے پاس جنگلات کا محکمہ ہے. جس کا کام جنگلات کی دیکھ بال کرنی ہے. جنگلات سے متعلق قوانین بھی سارے موجود ہیں. اور سالہہ سال شجر کاری مہمیں بھی چلائی جاتی ہیں. لیکن جنگلات کے رقبے میں اضافہ نہیں ہو رہا. جو کہ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ کلائمٹ چینج سے متعلق منفی اثرات میں اضافے کا بڑا موجب ہے. 1947 میں پاکستان کے تقریباً 5.4 فصد حصے پر جنگلات موجود تھے. جو اب چار فیصد سے بھی کم ہو چکے ہیں.

تیسرے نمبر پر پاکستان ڈیذاسٹر اینڈ منیجمنٹ اتھارٹی ہے. جس کا کام سیلاب سے متعلق پیشن گوئی اور سیلاب کے بعد لوگوں کو امداد کیلئے سرگرم عمل رہتی ہے. دیکھا جائے تو پیشن گوئی تو تقریباً ہر ہفتے دی جاتی ہے. لیکن اس پر عمل کرنا یا پیشن گوئی کے حساب سے اپنے ایکٹیویٹی کو ترتیب دینا دیکھنے میں نہیں آتا.

اس طرح جو باقی ادارے, جس میں واپڈا, زراعت, آبپاشی, صحت عامہ جیسے ادارے شامل ہیں, سارے اپنے اپنے قوانین کے ساتھ مکمل اور فعال ہیں. لیکن ذمینی حقائق دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ کمی یا فرق ضرور ہے. ہمیں ان کمیوں پر کام کر کے ایک فعال اداریاتی پاکستان کے طور پر ابھرنا ہوگا. جس میں باہمی تعاون اور استدلال لازمی اور کلیدی جز ہے.

اس میں اگر 2012 میں آرڈیننس برائے تحفظ دریا, جو کہ 2014 میں باقاعدہ قانون بنا, کا ذکر لازمی ہے. دریاؤں کے تحفظ کا قانون پر عمل کر کے سیلاب کے تباہ کاریوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے. اس قانون کے دو اہم شق ہیں. ایک تو ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ہے. جس کے تحت دریا میں کسی قسم کا ویسٹ پھینکا قانونی جرم ہے. یہ ایک طرح سے 2014 کے ماحولیاتی ایکٹ کی توسیع ہے. جبکہ دوسرے شق کے مطابق دریا کے کنارے سے 200 فٹ کے فاصلے تک ہر قسم کی آبادی منع ہے. اس قانون کی روشنی میں دیکھیں تو کالام, بحرین اور مدین کے علاقے میں نصف سے زیادہ آبادیاں غیر قانونی ہیں. اس کے علاوہ زیریں سوات اور بالائی ملاکنڈ میں بھی ایسی جگہیں موجود ہیں جو اس قانون کے تناظر میں غیر قانونی ہیں. دیکھا جائے تو پہاڑی علاقوں کی نسبت میدانی علاقوں میں اس قانون کو عملی جامہ پہنانا قدرے آسان تو ہے. لیکن مشکل بھی ہے.

کیوں کہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے پاس زمین یا تو ہے نہیں یا گھر بنانے کیلئے موزوں نہیں. اس لئے اس طرح کے لوگ اس قانون کے لاگو ہونے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں. لیکن دوسری طرف یہ ضروری بھی ہے.

ایسے لوگ دیکھنے میں آئے ہیں جن کے گھر 2010 کے سیلاب میں بہہ گئے تھے. اور انہوں نے اسی جگہ اپنے گھر, دکانیں اور ہوٹل دبارہ تعمیر کئے تھے.

اس کو 2022 کے سیلاب دبارہ بہا کر لے گئے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ لوگ بھی حکومت سے تعاون نہیں کریں گے؟ تعاون نہ کرنے کی صورت میں تو ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ اگلے سیلاب میں پھر نقصان اٹھانا چاہتے ہیں. بحر حال جن مقامات پر کمرشل ایکٹیویٹی ہیں وہاں یہ قانون اتنی آسانی سے لاگو نہیں ہوگی. لیکن حکومت کو کوشش جاری رکھنی چاہیئے تاکہ اگلی دفعہ نقصان اگر زیرو پر نہیں لا سکتے تو کم تو کر سکتے ہیں.

مندجہ بالا ادارے اور قوانین تب کامیابی کے ساتھ عمل میں لائے جا سکتے ہیں جب عوام کی طرف سے بھر پور تعاون شامل ہو.

[pullquote]بین الاقوامی اداروں ممالک کی ذمہ داریاں[/pullquote]

پاکستان اقوام متحدہ کے زیر نگرانی موسمیات اور ماحولیات پر کام کرنے والے تقریباً تمام ذیلی اداروں کی رکنیت رکھتا ہے. اور ان کے پروگرام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دیئے گئے تجاویز پر کام کرتے ہیں. اس میں یونائٹیڈ نیشن اینوائرنمنٹ پروگرام (یو این ای پی) سرفہرست ہے. اس کے علاوہ ساوتھ ایشن کنٹریز کیلئے جو پروگرام چل رہا ہے, اس کی بھی رکنیت رکھتی ہے. بین الاقوامی سطح پر جتنے پروٹوکول, ٹریٹیز اور کنونشن عمل میں لائے گئے ہیں, ان سب کو قبول کر کے دستخط کئے ہیں. جس میں پیرس کلائمٹ ڈیل, یو این ایف سی سی, حیاتیاتی تنوع کے معاہدے, قدرتی وسائل کی پائیدار ترقی کانفرنس, جنگلی حیات کے شکار سے متعلق معاہدہ سائٹس، صحرا زدگی کی روک تھام کا معاہدہ یو این سی سی ڈی، کیوٹو پروٹوکول, رامسار معاہدہ, بیزل معاہدہ, سٹاک ہوم معاہدہ, مونٹریال پروٹوکول شامل ہے. ان میں سے ہر ایک پر 150 سے لے کر 200 ممالک کے دستخط موجود ہوتے ہیں. اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان بین الاقوامی سطح پر تمام معاہدوں کا ہامی رہا ہے اور اپنے محدود ذرائع میں بین الاقوامی قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہے اور کسی قسم کی مخالفت نہیں رکھتا. وہ تمام ممالک, جو اس قسم کے معاہدوں کے حامی ہیں اور دستخط کر چکے ہیں ان سب پر لازمی ہے کہ وہ پاکستان میں موسمیاتی تغیرات سے متعلق اثرات سے اپنے آپ کو باخبر رکھے اور جہاں ہو سکے اس میں پاکستان کی مدد کرے. مثلاً پاکستان کے پڑوسی ممالک, انڈیا اور افغانستان میں مختلف دریاوں پر بنائے گئے ڈیم پاکستان کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے.

نوائے وقت آخبار کے 2014 کے رپورٹ کے مطابق انڈیا نے ان دریاؤں پر جن کا رخ پاکستان کی طرف ہے, پر 62 ڈیمز تعمیر کر چکا ہے, جبکہ اس وقت 31 ڈیمز منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں زیر غور تھے. اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسطرح کے ڈیموں کی تعداد 190 تک پہنچ سکتی ہے. اس طرح افغانستان میں دریائے کابل اور اس میں شامل ہونے والی دریاؤں پر 10 ڈیمز بنا چکا ہے جبکہ 8 ڈیمز زیر تعمیر یا زیر غور ہیں. جن میں سے زیادہ تر ڈیموں پر کام شروع ہے یا مستقبل قریب میں کام شروع ہونے والا ہے. اب اگر مستقبل میں پاکستان کو پھر اس طرح کے بارش کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک سے عدم تعاون کے نتیجے میں پانی پاکستان کی طرف چھوڑتے ہیں. تو پاکستان کو بڑے پیمانے پر نقصان ہو سکتا ہے. اس کے علاوہ ان ڈیموں سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر خشک سالی کے روشن امکانات بھی ہیں. ان دو ممالک کے ڈیمز پاکستان کیلئے دو رخی تلوار کی حثیت رکھتی ہے. جولائی اور اگست میں پانی چھوڑ کر مسلہ پیدا کرنا جبکہ سال کے باقی مہینوں میں پانی بند کر کے مسلہ پیدا کرنا.

دیکھا جائے تو مندجہ بالا مختلف معاہدوں اور ٹریٹیز پر انڈیا اور افغانستان نے بھی دستخط کئے ہیں. جس کی رو سے وہ پاکستان ماحولیاتی ریسوریز کو نقصان سے بچانے کے پابند ہیں. اور جہاں جہاں نقصان ہو چکا ہے, وہاں پر اس کو ٹھیک کرنے میں پاکستان کی مدد کرنا اخلاقی اور قانونی تقاضہ ہے.

اس کے علاوہ وہ ممالک جو پاکستان کے پڑوسی نہیں ہیں, ان پر بھی بہت سے لوازمات لاگو ہوتے ہیں. عالمی سطح پر 1972 سے ماحولیاتی آلودگی اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے کوششیں جاری ہیں.

2022 میں عالمی سطح پر مسلسل کانفرنس منعقد کرنے کا پچاسواں سال بھی منایا گیا. ان کانفرنس میں ابھی تک ایک بات ہو رہی ہے کہ کاربن ڈائی کو کم کر دیں. لیکن اس میں ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی. اس طرح اوزون کو خراب کرنے والی گیسوں میں بھی کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی. پاکستان کو چاہیئے کہ عالمی فورم پر آواز اٹھائے اور اپنے ہونے والے نقصانات کے ازالے کیلئے اپنا کیس پیش کرے.

یہ مدد ضروری نہیں ہے کہ نقد کی صورت میں ہو. بلکہ پاکستان جو زیادہ تر ضرورت ٹیکنالوجی کی شکل میں ہے. اس کے علاوہ تربیت یافتہ سٹاف, مشینری اور دوسری ایسی ٹیکنالوجی جو تحقیق میں مدد کر سکے.

اسطرح اعلیٰ تعلیم کے مد میں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ علاقے جو سیلاب کے زد میں آئے ہیں وہاں کے یونیورسٹی کے طالب علموں کو وظائف دے کر باہر کے ممالک میں موسمیاتی تغیرات سے متعلق تخفیف اور مواقفت پر باقاعدہ تحقیقی تربیت دی جائے. تاکہ وہ پاکستان واپس آکر اس کو مزید فروغ دے کے ہر فرد تک پہنچایا جائے.

اس وقت یہ کہنا محال ہے کہ کیا 2022 جیسی سیلاب پھر نہیں آ سکتی, یا اگر آسکتی ہے تو کتنے سال بعد, یا اگر آئے کی تو کیا اس سے شدت میں زیادہ ہوگی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب دینا بہت مشکل ہے. لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ پاکستان کلائمیٹ چینج کے زیر اثر ہے. ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھ رہی ہے, جس کی وجہ سے کلائمیٹ چینج کے سامنے ہماری حساسیت مزید بڑھا دیتی ہے. پھر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ان دونوں شعبوں میں پاکستان کے اداروں کی کارکردگی اس لیول کی نہیں ہے, جو کہ ہونی چاہیئے.

[pullquote]بنیادی سفارشات [/pullquote]

پاکستان کلائمٹ چینج اور ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کیلئے اپنے لئے ترجیحی فہرست تیار کرنی ہوگی. جس میں, جنگلات, سالیڈ ویسٹ, پانی کے استعمال, فضائی آلودگی جیسے مسائل کو سر فہرست رکھنے ہوں گے.

اسطرح بین الاقوامی سطح پر ہر دستخط شدہ معاہدے کا از سر نو جائزہ لے. اور جس ملک پر معاہدے کا جو شق لاگو ہوتا ہے, اس کو لکھنے میں لے آئے. ماحولیات اور موسمیات سے متعلق آگاہی مہم کو تیز کرے اور معاشرے کے ہر فرد کو یہ پیغام پہنچائے, کم یا زیادہ یہ دیکھے بغیر, ماحولیاتی اور موسمیاتی تغیرات سے ہونے والے نقصان کے ازالے میں اپنا حصہ ڈالیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے