نوجوان قیادت

انیق ناجی، نذیر ناجی کے فرزند ہیں ۔ کہا جا تا ہے کہ نذیر ناجی اپنے وقتوں میں پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کے حمایت میں لکھنے والوں میں شامل تھے۔ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں انہوں نے میاں نواز شریف کے حق میں بھر پور مہم چلا ئی۔ انیق ناجی نے اپنے ایک ویلاگ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بو ڑھے لوگوں کی جماعت رہ گئی ہے اور نوجوانوں کا رخ عمران خان کی جماعت پی۔ٹی۔آئی کی طرف بڑ ھتا جا رہا ہے۔ مجھے یاد پڑ تا ہے کہ جب ذولفقار علی بھٹو نے اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بنا ئی تھی تو وہ خود پچاس سے اُوپر کے تھے لیکن نوجوانوںمیں انکے ساتھ کھڑے غلام مصطفیٰ کھر اور حفیظ پیرزادہ کو دیکھ کر بھٹو کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اور بھٹو صاحب پیرازادہ کو سوہنا مُنڈا کہتے تھے۔ کسی بھی جماعت کی بنیادوں میں نوجوانوں کا ہاتھ ضرور ہو تا ہے ۔ لیکن اچھبے کی بات ہے کہ وہ جماعت بوڑھے لوگ ہی بنا تے ہیں۔ جیسے پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکر یٹری جنرل ریٹا ئرڈ جنرل ٹکا خان بھی رہ چکے ہیں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ نوجوانوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ پاکستان میں لٹریسی ریٹ ایک محتا ط اندازے کے مطابق 58فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اور جس ملک میں صرف 2 فیصد طلبہ یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتے ہوں اور ملک کی کل آبادی کا65 فیصدنوجوان ہو تے ہوئے بیروزگاری کا شکار ہوں تو اُنکے پاس کیا آپشن ہو سکتا ہے۔ اب تو ایک اور اضافہ ہو رہا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کا تناسب (شہری) علا قوں میں بڑ ھ رہا ہے وہ بھی کسی قد ر بیروز گاری کے ضمرے میں آتی ہیں۔

مجھے گاؤں کے ایک سادہ لوح شخص نے بتا یا کہ کل پڑ ھے لکھے نوجوانوں میں 98 فیصد ایسے ہیں جو 10 سے 14جما عتیں پڑ ھے ہو نگے۔ اور ان میں سے 70 فیصد نوجوان کوئی ہنر نہیں جانتے تو باقی 30فیصد نوکریوں کے چکر میں سفارشیں ڈھونڈنے میں سر گرداں ہیں۔ تو ہماری ملکی سیاست نوجوانوں میں کیسے آئے گی۔

اب میں ان نوجوانوں میں کلاس (طبقہ) کی وضا حت کر تا ہوں۔ جس زمانے میں جا گیر داری اور سرمایہ دارانہ نظام پر بحث ہو تی تھی اس وقت لوگوں کو غریب ، متوسط اور امیر طبقوں میں تقسیم کیا گیا ۔ اور جب جاگیر داری نظام صنعتی انقلاب کے بعد دم توڑ تا نظر آیا تو مغربی ممالک نے ایک نئی اصطلاح HAVE اور HAVE NOT ایجاد کی۔ اب بھی سیا سی مبصرین کسی بھی سیاسی جماعت کی کا میابی کا اشارہ متوسط طبقے کی شمولیت قرار دیتے ہیں۔ جیسے 90 کی دہا ئی میں بے نظیر نے متوسط طبقے کو متحرک کیا اور پھر انکے اقتدار کے خا تمے پر یہ طبقہ میاں نواز شریف کے ساتھ مل گیا۔ لیکن ایک بات یاد رکھنے والی ہے کہ متوسط طبقہ کسی کا بھی یار نہیں ہوتا کیونکہ یہ راتوں رات امیر ہونے اور اشرافیہ میں شامل ہونے کے لئے دن کو اپنے طبقے کی خوش نودی کرنے میں مشغول ہوتے ہیں اور رات کو اشرافیہ کی قدم بوسی کر تے ہیں۔

نوجوانوں میں غریب ، متوسط اور امیر ایسے طبقات بہت کم نما یا ں نظر آتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی عمر کے اُس حصے میں ہو تے جہاں FANTACY زیادہ اور حقیقت پسندانہ سوچ کم ہو تی ہے جن نوجوانوں نے غلا می کی زنجیروں کو توڑ کر روٹی ۔کپڑا اور مکان کا ایسا نعرہ لگا یا کہ پورا پاکستان ایک خیالی ریاستی تصور میں تیرتا نظر آیا ۔ اسی طرح کئی حکمران نوجوانوں کے لئے خیالاتی اور تصورا تی نعروں کو ماہرین ابلاغ سے تیار کر واتے ہیں (جو کم از کم پچاس سال سے اوپر کے لوگ ہیں) جس سے نوجوانوں کی سو ئی ہوئی اُمنگوں کو جگا یا جا تا ہے۔ لیکن اسمیں کسی کا کو ئی قصور نہیں ہے۔ مشہور زمانہ مغربی مفکر برٹنڈ رسل کہتا ہے کہ کم تعلیم یافتہ معاشروں میں کبھی بھی طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں ہو سکتی اور ایسے لوگوں میں اپنے ارد گردکی اشیاء کے ساتھ جذباتی وابستگی بہت حد تک پختہ ہو تی ہے ۔ اور اس جذباتیت کو مزید اُبھارنے کے لئے ماہرین ابلاغ کی اُجرتی معاونت سے پروان چڑھاتے ہیں۔ اور یہ اُجرتی نعرے ان پڑھ سیاست دانوں پر بیچے جاتے ہیں۔ اور پاکستان میں ا ن کے خریدار جذبات سے لدے نوجوان ہیں ۔ اب نوجوانوں کی تربیت ہمارے ایسے معاشروں میں صرف اور صرف اس بات پر کی جا تی ہے کہ وہ ایک اُمنگ ، اُمید اور توقع رکھیں۔ یہ وہ انسانی صفات ہیں جو بظا ہر اخلاق کو بلند کر نے کے لئے تو استعمال ہو تی ہیں لیکن ذہنی ترقی میں خامیوں اور کو تا ہیوں کو دریافت کر نے سے قاصر ہو تی ہیں ۔ اُمید، اُمنگ اور توقع انسانی ذہن کی نا قدانہ سوچ کو نہیں اُبھر نے دیتی۔ اور یہ سوچ اُبھرنے لگے تو بزرگ بتا تے ہیں نا اُمیدی گنا ہ ہے اور توقع کو توکل میں بدلا جا تا ہے اور اُمنگ کو مثبت رکھتے ہو ئے کسی بھی انقلا بی مہم کو روکا جا تا ہے۔

انقلاب فرانس کا بغور مطالعہ کر نے سے معلوم ہو تا ہے اس انقلاب کے بانی نوجوان نہیں تھے بلکہ وہ نا اُمید ، بے اُمنگے اور کل کی کہتری پر یقین رکھنے والے لوگ تھے۔ جنہوں نے جبر، ظلم اور تسلظ میں زند گیا ں گزاریں تھیں۔

اگر نو جوانوں نے سیاست میں شامل ہو نا ہے تو وہ ضرور پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور مسائل کو سمجھیں اور پھر ملکی سیاست میں بھر پور حصہ لیں ۔ا سی لئے قا ئد اعظم نے اپنے کئی خطبوں میں نوجو انوں کو تعلیم حاصل کر نے کی تاکید کی۔ افسوس ہے کہ آج بھی ہم لوگ سیاست دانوں کے گلوں میں ہار اور انکے جلسوں میں دھمال ڈا لتے ہیں۔ اور یہ بر صغیر کی سیاست کی پہچان ہے۔

اکیسویں صدی کے نوجوان سوشل میڈ یا زدہ ہیں۔ مطالعہ نام کی چیز ان سے بعید ہے۔ یہ ایک کلاس بنتی جا رہی ہے.نوجوان قیادت جو اپنی تخلیقی صلا حیتوں کو فیس بک کی پوسٹوں، سٹیٹس ، اور ایسے اقوال ڈھونڈ کے لانے کے ماہر ہیں، جس سے سبق آموزی کی بجائے تسکین ِدل ہو تا ہے۔ ایسے میں Like اور ڈسلا یئک ہی جانچ کا معیار بن گیا ہے۔ اگر کسی لڑ کی نے کو ئی لائیک کی تو کم از کم دس لڑ کوں پر واجب ہو جا تا ہے کہ وہ بھی لا ئیک کے بٹن پر کلک کر یں گے اور ٹرینڈ سٹرز کا تجزیہ سونے پر سہاگے کا کام کرتا ہے۔ اس فضا میں سیاسی نظریات، ریا ستی تصورات اور معاشروں کے ارتقا ء پر بات کرنے کی کو ئی گنجا ئش نہیں رہتی ۔ اگر کو ئی شخص ایسی بات کرے تو اُسے پتھر کے دور کا سمجھتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت ایک ایسیFantasy ہے جو نوجوانوں میں زیادہ پائی جا تی ہے لیکن ان کا کوئی قصور نہیں، کیونکہ پاکستان میں کنفیوز میڈیا مہم، کنفیوزمعلومات کی ترسیل، کنفیوز سیاست کے چکر میں کو ئی سہارہ بچتا ہے تو وہ Fantasy ہی ہے۔ نوجوانوں کی یہ ذہنی کیفیت اس سیاست کے لئے زیادہ سود مند ہو تی ہے جو بے نتیجہ، بے مہار، اور بے سمتی ہو تی ہے۔ ایک سیاست دان اپنے لوگوں کی ذہن سازی اس طرح کرتا ہے کہ وہ ان خیالات اور نظریات کو اپنی حقیقی زندگیوں میں تلاش کر تے ہوئے ا پنی منزل کا تعین کر تے ہیں۔ اگر نو جوانوں کو اس سمت پر لگا یا جا ئے تو ووٹ بھی کم پڑے گیں، لا ئیک بھی کم اور سوشل میڈ یا کیپین کی چار منگ ختم ہو جائے گی۔

امریکہ میں صدا رتی انتخابات میں کو ئی بھی صدارتی اُمید اپنے مہم کا آغاز کر نے سے پہلے ایک سیشن یونیورسٹی کے طلبہ سے ضرور کر تا ہے اور یہ سمجھنے کی کو شش کر تا ہے کہ انکی سوچ کی سمت کیا ہے اور مجھے کیا پالیسی اپنانی ہوگی۔ میں معذرت خواہ ہوں، مجھے امریکہ کی مثال نہیں دینی چا ئیے کیونکہ اس وقت ملک میں امریکہ مخا لف بیانیہ چل رہا ہے۔ اور پھر حقیقی آزادی کے انقلا ب کی بات ہو رہی ہے۔

کیا آزادی کا لفظ Fantasyہے۔ میرے خیال میں جب ہمارے نوجوان اپنے خیالات کا اظہار کھلم کھلا کر رہے ہوں، تمیز اور اخلاق کے تقاضوں کا خیال نہ رکھتے ہو ئے، سب کہ رہے ہیں تو آزادی کا لفظ کیا معنی دیتا ہے۔

ہم نے ہندووں اور انگریزوں سے بیک وقت آزادی حا صل کی لیکن ہمارے کچھ بزرگوں کا خیال ہے کہ ہم ذہنی طور پر غلام ہیں۔ یعنی اپنی اقدار، وضع، رسم و رواج اور ثقافت کو بھول چکے ہیں۔ مشہور زمانہ تاریخ دان ٹو ئن بی اپنی کتاب A Study of History میں لکھتا ہے کہ تہذیبیں کبھی مر تی نہیں ہیں لیکن معدومیت کا شکار ہوکر کسی غالب تہذیب کا حصہ بن جا تی ہیں۔ مغربی تہذیب میں پلنے والا ، حقیقی آزادی کے نعرے کو کس مہارت سے Fantasize کر رہا ہے۔ ذہنی آزادی ہمیشہ کھلی سوچ، پابند ذہنوں سے نکلنے، تنگ سوچ کے زاویوں سے چھٹکارے کا نام ہو سکتا ہے لیکن حکومتوں کو تبدیل کر نے اور وزیر اعظم کے عہدے تک رسائی کا نام نہیں ہے۔ مغربی معاشروں کی مثالیں دے کرپاکستان کے نوجوانوں میں ایسی اُمید پیدا کرنا جو بہت تگ و دو، محنت اور مسلسل جد و جہد سے حاصل ہو تی ہے اسے چند لمحوں میں پیش کر نا ، کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔

سیاسی پا رٹیاں ہمیشہ نوجوانوں کی جذباتی کیفیتوں سے بھر پور فا ئدہ اُٹھا تے ہیں۔ فا ئدہ اُٹھا نا قطعی غلط نہیں ہے۔ لیکن مخلص ہونا لازم ہے۔ مارٹن لوتھر کی نسل پرستی کے خلاف مہم میں نوجوانوں کے جذبات سے بھر پور فا ئدہ اُٹھا تے ہوئے امریکہ معاشرے میں تبدیلی کی بنیاد رکھی۔

پاکستان میں بدقسمتی سے پچھلی کئی دہا ئیوں سے نوجوانوں میں جذباتیت کی بنیاد پر شدد پسندی کا رجحان پیدا کیا گیا ۔جس کی وجہ سے عدم برداشت اور باہمی مکالمہ اور ابلا غی صلاحیتیں معدوم ہو رہی ہیں۔ ایسی صورت میں اگر ریاستی اداروں کے مقابلے میں نوجوانوں کی جذباتیت کونبرد آزما کیا گیا تو یہ صورت حال کم از کم اگلے تین دہا ئیوں تک ختم نہیں ہو پا ئے گی چہ جائے ہمارے سیاسی قیادت کتنے ہی جتن کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے