زلمے خلیل زاد اور دہری شہریت

ہر شخص زلمے خلیل زاد نہیں ہوتا اور بہت سارے افغانی ایسے ہوں گے جو کسی غیرملک کا شہری ہونے کے باوجود افغانستان سے ایک عام افغانی کی نسبت زیادہ محبت کرتے ہوں گے ۔ اسی طرح بہت سارے غیرملکی پاکستانی ایسے ہوں گے جن کے دل پاکستان کے ساتھ ہم جیسے یہاں رہنے والوں سے زیادہ دھڑکتے ہوں گے لیکن زلمے خلیل زاد کے کردار کو دیکھنے کے بعد میری یہ رائے پختہ ہوگئی ہے کہ کسی غیر ملک کی شہریت لینے والے کو پاکستان میں سیاست ، صحافت یا سرکاری نوکری کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ہندوستان کی طرح ہمارے ہاں بھی دہری شہریت کا قانون ختم ہونا چاہئے اور اگر کسی کو پاکستان واقعی عزیزہے تو وہ اس کی خاطر اتنی تو قربانی دے کہ کسی اور ملک کی وفاداری کا حلف نہ اٹھائے۔

زلمے خلیل زاد نسلاََ پشتون افغان ہیں ۔ امریکہ تعلیم کیلئے گئے تھے اور پھر وہاں کی شہریت لے لی لیکن ایک دن کیلئے بھی افغانستان سے لاتعلق نہیں رہے اور چونکہ افغانستان اور عالم اسلام میں دلچسپی لے رہے تھے ،اس لئے پاکستان کی بھی خبر لیتے رہے لیکن جو نفرت ان کے ہاں میں نے پاکستان کے بارے میں دیکھی ہے ، وہ نہ کسی اور امریکی کے ہاں دیکھی اور نہ کسی اور افغان کے ہاں۔ اس کی جھلک ان کی لکھی ہوئی کتاب ’’دی انوائے ‘‘میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے لیکن اپنے افغانوں کے ساتھ اور عراقی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ اس شخص نے کیا وہ ایک شقی القلب امریکی بھی نہیں کرسکتا۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد بون کانفرنس کے نتیجے میں حامد کرزئی کی قیادت میں ایک حکومت قائم ہوئی ۔ آئین بنا اور لویہ جرگہ کے انتخابات ہوئے ۔

افغانستان استحکام کی طرف جارہا تھا اور بہت سارے افغان اپنے ملک میں واپس لوٹ رہے تھے ۔2003تک افغانستان میں خودکش حملے ہورہے تھے اورنہ خوف و ہراس کی فضا تھی۔ لیکن جب2003 میں زلمے خلیل زاد افغانستان میں امریکہ کے سفیر مقررہوئے (یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک بندہ اپنے ملک میں کسی غیرملک کا سفیر بن کر آجائے) تو افغانستان میں خودکش حملوں کا آغاز ہوا اور طالبان کی مزاحمت تیز ہونے لگی ۔ اس کی ایک بڑی وجہ عراق پر امریکہ کا ناجائز حملہ تھا اور زلمے خلیل زاد امریکی نیوکانز کا حصہ ہونے کے ناطے عراق پر حملے کے بھرپور حامی تھے۔ عراق جنگ سے پہلے پورا یورپ اور روس و چین بھی افغان جنگ کے حوالے سے امریکہ کے ہمنوا تھے لیکن جب عراق پر ناجائز حملہ کیا گیا تو اس کی وجہ سے افغانستان سے متعلق بھی یہ سازشی نظریات جنم لینے لگے کہ امریکہ کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ ایران نے محسوس کیا کہ وہ عراق اورافغانستان میں موجود امریکی فوجوں کے درمیان سینڈوچ بن گیا۔ایران کے ساتھ ساتھ روس نے بھی افغانستان سے متعلق ڈبل گیم شروع کردی۔ سعودی عرب اور مصر جیسے اتحادیوں نے بھی عراق کے خلاف امریکی کارروائی کی مخالفت کی اور خود حامد کرزئی نے بھی ۔ پہلے افغانوں کے جذبات بھڑکانے کیلئے صرف گوانتاناموبے کی ویڈیوز اور تصاویر موجود تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عراق کی ابوغریب جیل کی فوٹیجز کا بھی اضافہ ہوگیا۔اسی طرح حامد کرزئی روزِاول سے یہ چاہتے تھے کہ طالبان کو مذاکرات کے ذریعے اپنے سیٹ اپ کا حصہ بنا دیا جائے اور اس کیلئے انہوں نے صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں شوریٰ تفاہم بھی بنادی تھی لیکن زلمے خلیل زاد جیسے لوگ امریکی طاقت کے زور پر طالبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر مصر تھے اور حامد کرزئی کی مفاہمت کی ہر کوشش کو ناکام بناتے رہے۔ اپنے افغانوں کا بے دریغ خون بہانے کے بعد زلمے خلیل زاد عراق چلے گئے اور وہاں ایک نئے فساد کی بنیاد ڈال دی ۔

2005میں عراق میں ان کے سفیر مقرر ہوجانے کے بعد عراق میں شیعہ سنی تنازعہ کھڑا کردیا گیا اور اس میں جتنا خون بہا اتنا امریکی افواج نے بھی نہیں بہایا تھا۔ پھر اقوام متحدہ میں امریکہ کیلئے عالم اسلام اور عرب دنیا کے خلاف سازشوں کاجال بنتے رہے اور جب ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے نکلنے اور اسے ایک نئے بحران کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا تو ایک بار پھر زلمے خلیل زاد نے اپنا کاندھا پیش کیا۔ شروع میں خود میں بھی ان کے گیم کو نہیں سمجھ سکا تھا اور ان کا رول اتنا مثبت نظر آیا کہ ایک آدھ موقع پر ان کے تبدیل ہونے پر حیرت کا اظہار اور تعریف بھی کی لیکن آج دنیا کے گوشے گوشے میں دربدر ہونے والے افغان جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ افغانی النسل زلمے خلیل زاد نے کیا۔ روس، چین، ایران اور پاکستان کی کوشش تھی کہ دوحہ معاہدے سے قبل بین الافغان مفاہمت ہو لیکن اس کے کئے بغیر زلمے خلیل زاد نے ان افغانوں کو طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جو امریکہ پر تکیہ کرتے ہوئے کئی سال تک ان سے لڑتے رہے ۔

لوگوں کا اس طرف دھیان نہیں جاتا کہ جب امریکی القاعدہ اور طالبان کو اذیتیں دینے کیلئے2002 میں گوانتاناموبے اور بگرام کے عقوبت خانے بنارہے تھے تو زلمے خلیل زاد امریکی سیکرٹری دفاع رمسفیلڈ اور پھر نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کنڈولیزا رائس کے ایڈوائزر تھے ۔ ان کی افغانیت اس قدر ختم ہوگئی ہے کہ جب حامد کرزئی طالبان کے خلاف امریکی افواج کی رات کے وقت گھروں پر چھاپوں کی مزاحمت کررہے تھے تو خلیل زاد ان کے وکیل تھے اور ان کےانسانی رحم کے جذبات اس قدر ختم ہوگئے تھے کہ بے چین ہونے کی بجائے وہ گوانتاموبے، ابوغریب اور بگرام کے عقوبت خانوں کی وکالت کررہے تھے لیکن آج انہیں عمران خان کے ساتھ ہونے والی ”زیادتیوں“ نے بے چین کردیا ہے اور وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صدا بلند کرکے پاکستان کے خلاف غلیظ مہم چلارہے ہیں۔ حالانکہ ان کے ہاں اگر رتی بھر بھی افغانی غیرت موجود ہوتی تو پہلے تووہ ان افغانوں کیلئے آواز اٹھاتے جو امریکی وعدے کے مطابق افغانستان سے نکل کر پاکستان، یواے ای اور دیگر ممالک کے کیمپوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

خلیل زاد میں اگر کوئی انسانیت ہے تو پاکستان کے اندرونی معاملات پر بات کرنے سے قبل امریکی حکومت سے ان افغانوں کا مسئلہ حل کروا ئیں جو ان کے وعدے کے مطابق افغانستان سے نکل کر مختلف ملکوں میں ذلیل ہورہے ہیں۔اس ظلم پر خاموشی اور عمران خان کیلئے ان کی اور دیگر امریکیوں کی بے چینی سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا اصل مقصد انسانی ہمدردی یا جمہوری حقوق نہیں بلکہ پاکستان میں خانہ جنگی کرانا اور اسے بلیک میل کرکے چین سے دور کرنے پر مجبور کرنا ہے لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اس چکر میں ان کے عزیز محسن عمران خان بھی ایکسپوز ہورہے ہیں اور عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ خلیل زاد ، شیرمن، جیرڈ کرشنر اور دیگر امریکی مقصد پورا ہونے کے بعد انہیں اسی طرح بے آسرا چھوڑیں گے جس طرح انہوں نے اشرف غنی کو چھوڑ دیاتھا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے