چین کی جمہوریت اور طرز حکمرانی

امریکا کے صدر ابراہم لنکن کی جانب سے کی گئی مشہور زمانہ تعریف کے مطابق جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ حکومت اور عوام کےلئے حکومت ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ باشعور معاشرہ میں عوام کی اجتماعی سوچ ہمیشہ ایک ایسا نظام حکومت تشکیل دیتی ہے، جہاں مساوات، فلاح و بہبود، اجتماعی ترقی اور قانون و انصاف کی حکمرانی بنیادی اساس تصور ہوتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک نے ان ہی اصولوں کی بنیاد پر جمہوری معاشرے تشکیل دے کر ترقی اور خوشحالی کی حیران کن منازل طے کی ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آنے والے حکمرانوں نے کئی جمہوری ممالک میں بھی عوام کی مرضی و منشاء کے خلاف یا پھر عمومی رائے کے برعکس فیصلے کیے یا قدم اٹھائے، جس کا نقصان نہ صرف ان ممالک کی عوام کو ہوا بلکہ باقی دنیا بھی اس سے متاثر ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر مشرق حضرت اقبال نے ایسا جمہوری نظام جس کی جڑیں عوام میں ہوں، اس کے بارے میں فرمایا کہ جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا ۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں تو یہ صورت حال شدت سے موجود ہے ۔ جہاں جمہوری نظام قائم ہے اور انتخابات کے ذریعہ پارلیمان تو وجود میں آجاتی ہے لیکن قومی ترقی کے اہداف مقرر کرتے وقت نہ تو ووٹ دینے والے عوام کی خواہشات کو فوقیت نہیں دی جاتی اور انہیں اپنی رائے کے اظہار کےلئے کوئی فورم دستیاب نہیں۔ نہ تو یونین کونسل، ٹاؤن ، شہر ،تحصیل اور ضلع کی سطح پر گورننس کا نظام موجود ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کا موثر تنظیمی ڈھانچہ موجود ہے، جہاں سے عوامی آراء اور ان کو درپیش مشکلات سے متعلق معلومات کے حصول کو ممکن بنایا جاسکے ۔ یہی معلومات قومی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کی بنیادی اساس ہیں ۔ اس نظام کی عدم موجودگی کے باعث پاکستان جیسے ممالک میں پارلیمانی جمہوریت کی مایوس کن کارکرگی سب کے سامنے ہے۔

اب ذرا گزشتہ 75 برسوں میں معاشی، معاشرتی اور سماجی میدان میں حیران کن ترقی کرنے والی عوامی جمہوریہ چین کے نظام حکومت کا جائزہ لیتے ہیں۔چین کے نظام حکومت میں نیشنل پیپلزکانگریس( این پی سی)اور چائینیز پیپلز پولیٹیکل کنسلٹیٹیو کانفرنس ( سی پی پی سی سی) دو اہم فورمز ہیں ۔ این پی سی کے تین ہزار ممبران ڈیپٹیز کہلاتے اور سی پی پی سی سی کے دوہزار ارکان کو ممبرز کہا جاتا ہے۔ ان افراد کو براہ راست عوامی ووٹ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ عوام کی نظام حکومت اور فیصلہ سازی میں شمولیت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نیشنل پیپلز کانگریس پورے ملک میں پانچ سطح پر قائم ہے۔ ٹاؤن کی سطح پر، کاؤنٹی ، شہر ، صوبہ اور پھر قومی سطح پر۔

اب تک 20 لاکھ 77 ہزار افراد ان پانچ سطح پر نیشنل پیپلزکانگریس میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں 95 فیصد وہ ہیں جنہوں نے کاؤنٹی اور ٹاؤن کی سطح پر خدمات انجام دی ہیں اور انہیں عوام نے براہ راست منتخب کیا ہے ۔ اوپر کی تین سطح کے ڈیپٹیز کو نیچے کی سطح کے ڈیپٹیز منتخب کرتے ہیں۔ گزشتہ سال جون میں انتخابات کےذریعے 26 لاکھ افراد کو ٹاؤن، کاؤنٹی اور ریجنز کی سطح پر پیپلز کانگریس کا بطور ڈپٹی رکن منتخب کیا گیا۔90 کروڑ 21 لاکھ ووٹرز جوکہ رجسٹرڈ ووٹرز کا 86.49 فیصد بنتے ہیں، نے کاؤنٹی کی سطح پر ڈپٹیز کا انتخاب کیا اسی طرح کل رجسٹرڈ ووٹرز کے 85.63 یعنی 623 ملین افراد نے ٹاؤن کے سطح پر نیشنل پیپلز کانگریس کے ڈپٹیز کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالے۔ یوں اصلاحات کے بعد ٹاؤن کی سطح پر گیارہ جبکہ کاؤنٹی کی سطح پر اس طرح کے اب تک بارہ انتخابات ہوچکے ہیں۔

یہ منتخب ڈپٹیز نچلی سطح پر عوام سے رابطے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی آراء کو مختلف فورمز اور چینلز کے ذریعے آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔نیشنل پیپلز کانگریس کا سالانہ اجلاس پہلے نچلی سطح پر ٹاؤن، کاؤنٹی اور صوبائی سطح پر اور آخر میں قومی سطح پر ہوتا ہے ۔ اسی طرح 14 ویں نیشنل کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اعداد وشمار کے مطابق منتخب کردہ 2977 ڈپٹیز میں 442 کا تعلق چین میں آباد مختلف اقلیتوں سے تھا جو کہ 55 مختلف قوموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح خواتین ڈپٹیز کی تعداد 790 ہے جوکہ مجموعی تعداد کا 26.54 فی صد ہے۔ 497 ڈپٹیز مزدور اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسان ہیں جوکہ ڈپٹیز کی مجموعی تعداد کا 16.69 بنتا ہے۔

فنی مہارت رکھنے والے ڈپٹیز کی تعداد 634 جوکہ مجموعی تعداد کا 21.3 فی صد جبکہ 969 ڈپٹیز کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ اور سرکاری حکام سے ہوتا ہے جو مجموعی تعدا د کا 32.55 فی صد بنتا ہے۔ اسی طرح 36 ڈپٹیز کا انتخاب اسپیشل ایڈمنسٹریٹیو ریجن سے کیا جاتا ہے ، 12 کا مکاؤ اور 13 کا تعلق صوبہ تائیوان سے ہوتا ہے جو قومی قانون ساز اسمبلی کا حصہ بنتے ہیں۔ قومی فیصلہ سازی میں بیرون ملک چینی باشندوں کو بھی باقاعدہ نمائندگی دی جاتی ہے اور 42 ڈپٹیز ایسے ہوتے ہیں جو بیرون ملک خدمات انجام دینے والے لاکھوں چینی افراد کی نیشنل پیپلزکانگریس میں نمائندگی کرتے ہیں۔ نیشنل پیپلز کانگریس کے ڈپٹیز کا بنیادی کام قومی ترقی کے منصوبوں بحث کرنے کے علاوہ عوام کو درپیش مسائل پر گفتگو کرنے کے ساتھ عوامی امنگوں اور خواہشات کو قومی امور کے ایجنڈے سب سے اوپر رکھتے ہیں۔ نیشنل پیپلزکانگریس کے سالانہ اجلاس میں ان ڈپٹیز کی جانب سے پیش کی گئیں تجاویز اور تحاریک کا بغور جائزہ لینے کے بعد انہیں ریاستی فیصلوں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے چین میں فیصلہ سازی کے لئے سالانہ دو طرح کے اجلاس ہوتے ہیں ایک نیشنل پیپلز کانگریس کے کم وبیش ایک ارب ووٹر سے منتخب کردہ تین ہزار ڈپٹیز کا اور دوسرا چائنیز پیپلزپولیٹیکل کنسلٹیٹیو کانفرنس (سی پی پی سی سی) کے دوہزار ارکان کا اجلاس ہوتا ہے۔ بیجنگ میں ہونےوالے سالانہ اجلاسوں میں قانون سازی کے علاوہ قومی ترقی کےلئے لائحۂ عمل مرتب کیا جاتا ہے۔ ان اجلاسوں میں مبصرین کو چین کی جمہوریت میں کام کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ جو گزشتہ کئی برسوں سے چین کے جمہوری عمل کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ عوامی نمائندگی یہی موثر نظام جس میں عام آدمی کی آرا ملو فوقیت دی جاتی ہے نہ صرف چین کی ترقی کا اصل راز ہے بلکہ یہ چین کے طرز حکمرانی کو دوسروں ملکوں ممتاز منفرد بناتا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے درست کہا ہے کہ یہ کہنا کہ کوئی ملک جمہوری ہے کہ نہیں اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آیا وہاں کے عوام اقتدار کے مالک ہیں کہ نہیں کیا انہیں ووٹ کا حق حاصل ہے کہ نہیں اور سب سے بڑھ کر لوگ جمہوری عمل میں شریک ہورہے ہیں کہ نہیں ۔

ان کی یہ بات بھی بڑی قابل غور ہے کہ جمہوریت کوئی زیور نہیں جس کی نمائش کی جائے بلکہ یہ ایک ایسا آلہ ہے ،نے چین کے )Paul Tembeجس کے ذریعے عوام کو درپیش مسائل کو حل کیا جائے۔ جنوبی افریقہ کے ایک محقق پال ٹمب ( جمہوری نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی عوام کی رائے کا نہ صرف انتخابات کے دوران بھرپور انداز میں اظہار نظر آتا ہے بلکہ ٹاؤن سے لے کر قومی سطح پر فیصلہ سازی میں عوامی امنگوں کو فوقیت حاصل ہے۔ تیونس کےسابق وزیر خارجہ احمد اونیس نے چین کے جمہوری نظام کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین میں اپنا گیا جمہوری نظام حقیقت پسندانہ، ایمانداری پر مبنی اور ظاہری نمود ونمائش سے پاک ہے۔ دور حاضر میں ترقی اور خوشحالی کی خواہش مند عوام کو چین کی اجتماعی ترقی کی سوچ کے ساتھ ساتھ وہاں کے جمہوری نظام کو بھی اپنانا چاہیے جس نے گزرے پچہتر برسوں میں خوشحالی کے خواب سچ کردکھائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے