ہزارہ ڈویژن میں بدلتے ہوئے سیاسی رجحانات

ہزارہ ڈویژن پاکستان کا وہ علاقہ ہے۔ جو اپنی خوبصورتی،دلکشی ورعنائی کے حوالے سے پوری دُنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ جہاں اس علاقے کی زمین معدنیات ودیگر ذخائرسے مالا مال ہے۔ وہی اس علاقے کے بسنے والے یعنی ہزارے وال اپنی بہادری، دلیری مہمان نوازی اور وفامیں مشہور ہیں۔ اگرچہ یہ علاقہ انتظامی طور پر پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ ہے۔ مگر یہاں کے لوگ اپنی الگ ثقافت اور سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ماضی میں ہزارہ ڈویژن اور خیبرپختونخواہ کے پشتون علاقوں میں سیاسی کلچر و حرکیات کے حوالے سے کافی حد تک تضاد پایا جاتا تھا۔ اور ہزارہ ڈویژن کو اس حوالے سے صوبہ پنجاب کے قریب سمجھا جاتا تھا۔ مگر پچھلے کچھ عرصے سے ہزارہ کے اندر سیاسی رجحانات اور حرکیات میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اِس تبدیلی نے سیاسی مبصرین اور سیاسی کارکنوں کو حیران کر دیا ہے۔ اس تبدیلی کی وجوہات واسباب پر بات کرنے سے پہلے ذرا ماضی کے ہزارہ ڈویژن کے سیاسی کلچر ورجحان پر بات کر لی جائے۔تب ہی اس مسئلہ کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔

 

 

 

اگر ہزارہ ڈویژن کے ماضی کے سیاسی رجحان کا جا ئزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہزارہ وال کے دِل ماضی میں مسلم لیگ کے ساتھ دھڑکتے رہےہیں ۔ تحریک پاکستان کے دوران اگر مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم لیگ کو سب سے زیادہ حمایت ملی تو وہ بنگال و پنجاب کے بعد ہزارہ ڈویژن ہی تھا۔ ہزارہ وال کی اکثریت مسلم لیگ کے قافلے کے ہر اول راہی تھے۔ سردار فرید تنولی کے گھر 1936 میں ایبٹ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کے قیام کے بعد ہزارہ والوں نے مسلم لیگ کے لیے تن من دھن قربان کردیا۔ دوسری طرف خیبر پختونخواہ کے پشتون علاقوں میں خدائی خدمت گاروں کا راج تھا۔ اور وہاں پر مسلم لیگ کو طنزیہ طور پر "موٹر لیگ” کہا جاتا تھا۔ ہزارہ ڈویثرن اور صوبہ خیبر پختونخواہ (اس وقت سرحد) کے سیاسی رجحانات کی بہترین عکاسی 1946 ء کے صوبائی انتخابات بھی کرتے ہیں۔ اِن انتخابات میں کل صوبائی نشتوں کی تعداد 50 تھی اور پورے ہندوستان کی طرح صوبہ سرحد میں بھی دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ اور کانگریس آپس میں مدمقابل تھیں۔ مسلم لیگ اکیلے میدان میں اُتری۔ جبکہ کانگریس نے خدائی خدگاروں،مجلس احرار اور جمعیت علمائے ہند کے ساتھ صوبہ سرحد میں اتحاد کیا۔ مگر انتخابات کے نتائج نے ہزارہ ڈویژن میں مسلم لیگ کی مقبولیت پر مہر لگا دی۔ اور ہزارہ ڈویژن و باقی صوبہ سرحد کے سیاسی رجحان میں فرق و بعدکو بھی واضح کر دیا۔ یاد رہے کہ ہزارہ اُس وقت ضلع تھا۔ ذیل کا خاکہ انتخابات کے نتائج کو واضح کرتا ہے۔

1946ء کے صوبہ سرحد کے مختلف اضلاع کے انتخابی نتایج نے ہزارہ اور باقی پشتون علاقوں کے سیاسی رجحانات میں فرق کی واضح نشاندہی کر دی۔ مسلم لیگ نے ہزارہ سے 08نشستیں حاصل کیں۔ جبکہ پشتون علاقوں سے کانگریس نے اکثریت حاصل کی اور اس کی بڑی وجہ غفار خان کی خُدائی خدمت گار تحریک تھی۔ جبکہ ہزارہ میں جلال بابا اور اُن کے ساتھیوں نے گھر گھر مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا۔

ہزارہ کے سیاسی رجحان کا دوسرا بڑا موقع 1947ء کا ریفرنڈم تھا۔ اسی ریفرنڈم میں ہزارہ اور پشتون علاقوں کے سیاسی حرکیات ورجحانات میں تضاد کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔ ریفرنڈم میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 798، 572 تھی۔ غفار خان اور ان کی جماعت خدائی خدمت گار نے اس کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ جبکہ مسلم لیگ نے اسی ریفرنڈم کو کامیاب بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی ۔ اسی سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی گئی، جس میں صوبہ سرحد سے پیر صاحب مانکی شریف کو نمائندگی دی گئی۔ اس کے باوجود پشتون علاقوں کا ٹرن آؤٹ ہزارہ کے مقابلے میں کم تھا۔ ہزارہ میں ٪77 ٹرن آؤٹ تھا اور ٪99 فیصد سے زیادہ لوگوں نے ہزارہ میں اپنا ووٹ پاکستان اورمسلم لیگ کو دیا۔

انتخابات ہی عوام کی رائے جاننے کا پیمانہ ہوتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد 1970ء تک پاکستان میں عام انتخابات ہی نہ کرائے گئے۔ 1970ء میں جب عام انتخابات ہوئے تو اس وقت بھی ہزارہ وال نے مسلم لیگ سے اپنی وفا نبھائی۔ ہزارہ میں اس وقت قومی اسمبلی کی کل چار نشستیں تھیں۔ جن میں سے دو مسلم لیگ نے جیتیں۔ NW-07سے سردار عنائت الرحمٰن عباسی کامیاب ہوئے۔ ان کا تعلق یونین کونسل نگری ٹوٹیال تحصیل لورہ سے تھا اور یہ پہلی دفع قومی سیاست کے منظر پر آئے۔ دوسری نشست خان قیوم نے NW-08والی جیتی۔ بعد میں خان قیوم بھٹو حکومت میں وزیرِ داخلہ اور سردار عنایت الرحمٰن پارلیمانی سیکریٹری برائے پانی وبجلی رہے۔ 1977ء کے انتخابات میں مسلم لیگ پاکستان قومی اتحاد کی ایک اہم جماعت تھی۔ اور اس وقت ہزارہ میں قومی اسمبلی کی کل چھ نشستیں تھیں۔ ان چھ میں سے 04 پر پاکستان قومی اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔ حالانکہ اسی دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کا پورے ملک میں طوطی بول رہا تھا۔ مگر پیپلز پارٹی ہزارہ سے صرف دو نشستیں NA-12 ایبٹ آباد اور NA-15 مانسہرہ سے بالترتیب اقبال جدون اور حنیف خان کامیاب ہوئے۔ ان دونوں کی کامیابی میں بھی پارٹی سے زیادہ ذاتی شخصیت اور برادری کا عمل دخل زیادہ تھا۔

جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں ملک میں مارشل لاء لگا کر سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگا دی ۔ ایوب خان کی طرح ضیاء الحق نے بھی پرانی سیاسی قیادت کو میدانِ سیاست سے نکالنے کی کوشش کی اور نئے لوگوں کو سیاسی نظام میں جگہ دینے کیلئے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ ان انتخابات کے نتیجہ میں ہزارہ سے کئی نئے چہرے قومی و صوبائی سیاست کے اندر وارد ہوئے۔ ان میں اہم ترین سردار محمد یوسف مانسہرہ، قاسم شاہ بالاکوٹ، حاجی جاوید اقبال عباسی وامان اللہ خان جدون ایبٹ آباد سے شامل تھے۔ سردار یوسف اس وقت سے لے کرآج تک ناقابل شکست رہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے عام آدمی کے حقوق کے لئے زبردست جدوجہد کی اور سیاست کو خانوں اور نوابوں کے ڈرائنگ روموں سے نکال کر غریب اور عام آدمی تک لے آئے۔

دوسری شخصیت حاجی جاوید اقبال عباسی کی ہے۔ جو 1979ء میں چیئرمین ضلع کونسل ایبٹ آباد بنے اور انھوں نے باقی برادریوں اور لوگوں سے رابطے مضبوط رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی تحصیل لورہ وابیٹ آباد میں گجر برادری کی اہم سماجی شخصیت چودھری یسین، مرتضی جاوید عباسی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ خیر 1985ء کی یہ پارلیمنٹ زیادہ دیر تک نہ چلی۔ اور 1988ءمیں دوبارہ عام انتخابات ہوئے۔ اِن انتخابات میں مسلم لیگ ،اسلامی جمہوری اتحاد کا اہم حصہ تھی۔ اس وقت ہزارہ ڈویژن NA-II سے لیکر NA-17 تک کل 07 قومی اسمبلی کی نشتوں پرمشتمل تھا۔ ان انتخابات کے نتائج نے اسلامی جمہوری اتحاد کو ہزارہ میں واضح برتری دکھائی۔ ہزارہ سے اسلامی جمہوری اتحاد نے 04 نشتوں پر کامیابی حاصل کی۔ جبکہ 03آزاد امیدوار جیتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آزاد امیدوار بھی مسلم لیگی تھے۔ اور انھوں نے مسلم لیگ کے نام پر ہی ووٹ مانگے۔ 1990ءکے انتخابات میں بھی یہی صورتحال برقرار رہی۔ اور ہزارہ سے اسلامی جمہوری اتحاد نے ہی 07 نشتوں میں سے 05 نشتوں پر کامیابی حاصل کی۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ میں 1993ء کا انتخاب اس لئے اہمیت رکھتا ہے کہ مقتدرہ کے قریب میاں نواز شریف نے "ڈکٹشن” نہ لینے کا اعلان کر کے مقتدرہ کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔ ہزارہ ڈویثرن کے اندر نواز شریف اور ان کی جماعت کو زبردست پزیرائی ملی۔ اور قومی اسمبلی کی 07 نشتوں میں سے 06 نشتیں مسلم لیگ نواز نے حاصل کر لیں۔ ماضی قریب میں اگر دیکھا جائے تو 1993 سے لیکر 2013ء تک ہزارہ ڈویثرن میں مسلم لیگ نواز کا طوطی بولتا رہا ہے۔ خود میاں نواز شریف نے 1993ء اور 1997 میں ابیٹ آباد کے حلقے NA-12سے انتخاب لڑا۔ اور بڑے مارجن سے فتح حاصل کی۔ مگر یہ بھی اہمیت کا حامل امر ہے کہ 2013ء کے بعد ہزارہ ڈویثرن میں مسلم لیگ کمزور ہونا شروع ہو گئی۔ اور ہزارہ کے سیاسی رجحانات بدلنے لگے۔ ذیل میں 1993ء سے 2024ء تک کے انتخابی نتائج دئیے جاتے ہیں۔ جس سے ہزارہ کے اندر بدلتے سیاسی رجحانات کی عکاسی ہوتی ہے۔

 

 

 

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2013 کے بعد سے ہی مسلم لیگ ہزارہ کے اندر مسائل کا شکار ہونا شروع ہوئی۔ اور ہزارہ نے اپنی سیاسی رجحانات میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ اس معاملے کو مزید بہتر سمجھنے کے لئے 2013 تا 2024 کے صوبائی انتخابات کے نتائج کا بھی ایک خاکہ دیا جا رہا ہے۔ تا کہ ہزارہ کے سیاسی رجحان کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔

 

 

 

مندرجہ بالا انتخابی نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2013ء میں پہلی دفعہ ہزارہ ڈویژن کے مضبوط مسلم لیگی قلعے میں دراڑ کا آغاز ہوا۔ اور ہزارہ وال نے سیاسی رجحان میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ اور مسلم لیگ کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت کی طرف وہ راغب ہوئے۔ ایبٹ آباد کے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-17سے تحریک انصاف کے ڈاکٹر اظہر جدون کامیاب ہوئے۔ ان کے ساتھ PK-48 سے سردار ادریس MPA منتخب ہوئے۔ سردار ادریس عام آدمی تھے۔ اور عام آدمی کے مسائل کو بخوبی سمجھتے تھے۔ اسی طرح ہری پور سے دو صوبائی نشتوں پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی۔ یوں یہ کہاں جا سکتا ہےکہ ہزارہ ڈویثرن میں سیاسی رجحان کی تبدیلی کا آغاز ایبٹ آباد اور ہری پور سے ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایبٹ آباد کے شہری اور دیہی علاقے اس سیاسی رجحان میں تبدیلی کا ہر اول دستہ ثابت ہوئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہزارہ کے باقی علاقوں میں یہ رجحان پھیلتا چلا گیا۔ اور 2024 ءکے انتخابات میں ہزارہ ڈویثرن سے مسلم لیگ صرف ایک نشت NA-14 مانسہرہ سے سردار یوسف والی بچا سکی۔ اس میں بھی پا رٹی کے بجائے سردار یوسف کی ذاتی شخصیت، برادری اور تحریک صوبہ ہزارہ کا اہم عمل دخل ہے۔ سردار یوسف نہ صرف اپنی بلکہ اپنے صاحبزادے شاہ جہاں یوسف کی نشت بچانے میں بھی کامیاب ہوئے۔

اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ اُن کے دروازے عام و خاص کے لئے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی تحریک صوبہ ہزارہ کی اہم شخصیات مثلاََ پروفیسر سجاد قمر نے بھی اُن کی انتخابی مہم میں جانداروکلیدی کردار ادا کیا۔ بعد میں سردار یوسف ہی کی وجہ سے کوہستان سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے ملک ادریس مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 2024ء کے انتخابات میں ہزارہ ڈویژن میں بڑا اپ سیٹ تحریک انصاف کے شہزادہ گتاسب کے ہاتھوں میاں نواز شریف قائد مسلم لیگ کی شکست کا تھا۔ حالانکہ ماضی میں 1993اور1997 میں میاں نواز شریف ہزارہ ایبٹ آباد سے ہزارہ کے نامی گرامی سیاستدان سردار حیدر زمان کو شکست دے چکے تھے۔ ہزارہ ڈویژن میں مسلم لیگ کی شکست اور ہزارہ کے لوگوں کے سیاسی رجحان میں تبدیلی سیاست کے طالب علموں کے لیے اہم سوال ہے ۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ 1946 سے لیکر 2013 تک ہزارہ مسلم لیگ کا گڑھ رہا ہے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ 2013ء کے الیکشن سے ہی ہزارہ ڈویژن کے سیاسی رجحانات بدلتے نظر آنے لگے؟

سیاسی مبصرین اور سیاست کے طالبعلموں کے لئے ہزارہ ڈویژن کے بدلتے ہوئے سیاسی منظر، سیاسی کلچر ورجحان میں کئی سوالات چھپے ہوئے ہیں۔ ان میں پہلا و اہم سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ مسلم لیگ ہزارہ ڈویژن میں غیر مقبول ہوئی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ہزارہ ڈویثرن اور خیبر پختونخواہ کے پشتون علاقوں کے سیاسی کلچر ورجحان میں جو تضاد وفرق تھا وہ کیسے کم یا تقریباََ ختم ہوا؟اور تیسرا سوال کہ وہ ہزارہ ڈویثرن جس نے مسلم لیگ کے علاوہ کسی دوسری جماعت(پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی،جمعیت علمائے اسلام وغیرہ) کو کبھی اپنی نمائندگی کے قابل نہ سمجھا کیسے تحریک انصاف کی قیادت پر راضی ہوا؟ ذیل میں اِن سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔

1. ہزارہ ڈویثرن جو کہ جغرافیائی اورتزویراتی لحاظ سے ایک اہم علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کو سخت شکایت ہے کہ ریاست نے ماضی میں انھیں بُری طرح نظر انداز کیا ہے۔ ہزارہ کی تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے وقت کی قربانیوں کو فراموش کیا گیا۔ اِس حوالے سے یہاں کے لوگوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ بالخصوص 2010ء کی اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہزارہ کے لوگ مسلم لیگ کے رویہ سے شاکی ہیں۔ اور صوبے کے نام کی تبدیلی کو مسلم لیگ کی طرف سے بے وفائی گردانتے ہیں۔ اس لیے 2013ء کے انتخابات سے ہی مضبوط مسلم لیگی قلعے ہزارہ میں دراڑ پڑنا شروع ہو گئی۔

ہزارہ مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات بھی مسلم لیگ کی شکست کا باعث بنے ۔ مثال کے طور پر پہلے سردار مہتاب ،کپیٹن صفدر کے مابین اختلافات پھر مرتضی جاوید عباسی کے مقابلے میں سردار مہتاب کا الیکشن لڑنا۔ اِسی طرح ہری پور میں پیر صابر شاہ کا بالکل بیک فٹ پر چلے جانا۔ یہ بھی مسلم لیگ کے ہزارہ میں ہارنے کی وجوہات ہیں۔ مزید یہ کہ مسلم لیگ نے بدلتے ہوئے سیاسی رجحانات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کے بجائے اُسی روایتی طریقہ سیاست پر اکتفا کیا۔ جس کو ہزارہ وال نے مسترد کر دیا۔ دوسری طرف تحریک انصاف ہزارہ ریجن نے بہترین سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔

تحریک انصاف نے ایبٹ آباد اور ہری پور میں مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور اپنے مضبوط امیدوار میدان میں کھڑے کر کے کلین سویپ کیا .مثال کے طور پر علی خان جدون(NA-17)ابیٹ آباد شہرو گردونواح میں بہترین اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اسی طرح PK-43 ایبٹ آباد کی صوبائی نشت پر تحریک انصاف نے ایک شریف النفس ، کاروباری وسیاسی شخصیت سردار رجب علی خان عباسی کو ٹکٹ جاری کیا۔سردار رجب عباسی اور ان کے بھائی سردار ساجد عباسی کے عوام میں مضبوط رابطے کی وجہ سے نہ صرف صوبائی بلکہ قومی اسمبلی کی نشت پر بھی تحریک انصاف کو فائدہ ہوا۔سردار رجب عباسی کے بھائی ساجد عباسی ضلع کونسل کے ممبربھی رہ چکے ہیں۔ اور ان کی کارگردگی سے عام لوگ خوش ہیں۔ اسی طرح ہری پور میں ایوب برادران نے مسلم لیگ کی شکست اور تحریک انصاف کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح چوہدری افتخار آف نلہ نے بھی تحریک انصاف کی کامیابی کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔

ہزارہ ڈویژن میں سیاسی رجحانات کی تبدیلی کا ایک اہم کردار نوجوان بھی ہیں ۔ہزارہ کے پڑھے لکھے، اپنےحقوق سے آگاہ نوجوان باقی پاکستان کی طرح تحریک انصاف کے قریب ہو گئے۔ انہیں مسلم لیگ کا روایتی طرزِ سیاست متاثر نہ کر سکا۔دوسری طرف تحریک انصاف کے سوشل میڈیا اور جدید اندازنے ان کو اپنی طرف راغب کیا۔ ہزارہ ڈویژن میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3430،450ہے۔ ان میں سے 18سے35 سال تک کے ووٹرز کی تعداد 30 کے قریب بنتی ہے ۔ یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے ہزارہ کے سیاسی رجحان کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اور مسلم لیگ کو یہاں سے شکست ہو گئی۔

2۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ہزارہ ڈویژن اور خیبر پختونخواہ کے پشتون علاقوں کے سیاسی رجحان اور کلچر میں جو تضاد اور فرق تھا، وہ کیسے کم ہوا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ عمران خان کی کرشماتی شخصیت اور کرپشن کے حوالے سے مضبوط بیانیہ نے ہزارہ کے لوگوں کو اس سیاسی جماعت کے قریب کیا جو کہ پشتون علاقوں میں مقبول ہے۔ اسکے علاوہ تعلیمی شعبے کی اصلاحات ہوں۔صحت کار ڈ ہو، جنگلات کی حفاظت ہو یا نیا بلدیاتی نظام ہو۔ اِس سے عام آدمی اور مڈل کلاس کو فائدہ ہوا۔ اِن اقدامات نے ہزارہ والوں کو پشتون علاقوں کی اکثریتی جماعت کے قریب کر دیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ کوئی بیانیہ عوام کے سامنے لانے میں نا کام ہوئی۔ عام آدمی تک مسلم لیگ کا جو پیغام پہنچایا گیاوہ یہ تھا کہ مقتدرہ اب اقتدار اس جماعت کے حوالے کرنے والی ہے۔ اور عوام اب اِسی وجہ سے اسے ووٹ دیں۔ اِس بات نے بھی ردعمل پیدا کیا۔ ہزارہ الیکٹرک سپلائی، ہزارہ موٹروے جیسے میگا پروجیکٹ کے حوالے سے مسلم لیگ عام آدمی تک اپنی بات پہنچانے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ اس کے کارکن وعہدیدار بجائے اسکے کے اپنے ترقیاتی کام گنواتے اِنھوں نے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ حکومت اِن کی ہی بننے والی ہے۔ لہذا ہزارہ کے عوام نے اسے اپنی بے عزتی سمجھا۔ مسلم لیگ کی اس کمزور حکمت عملی کا بھرپور فائدہ تحریک انصاف نے اُٹھایا۔ یوں پشتون حلقے میں مقبول جماعت ہزارہ میں بھی قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی۔ اور ہزارہ وپشتون سیاسی کلچر کے درمیان فرق کم ہو گیا۔

3. یہ سوال کہ ہزارہ ڈویژن نے 1946ء سے لیکر 2013 تک مسلم لیگ کے علاوہ کسی او رسیاسی جماعت پر اعتماد نہیں کیا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ 2013ء سے ہی مسلم لیک کے بجائے تحریک انصاف کی طرف انہوں نے رُخ کرنا شروع کر دیا؟ اسکی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہےکہ تاریخی طور پر ہزارہ ڈویژن کے باسی مذہب اور مٹی سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ کے مد مقابل قومی جتنی بھی جماعتیں آئیں وہ بائیں بازو ہی کی تھیں مثال کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی۔ جبکہ تحریک انصاف کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ خود کو دائیں بازو کی جماعت کہتی ہے۔ اس کے قائد کے بیانات وپالسیوں نے بھی ہزارہ کے عوام کو اس جماعت کے قریب کیا۔ دوسری وجہ یہ ہوئی کہ ہزارہ کا ووٹر عام پاکستانی ووٹرز کی طرح ہی سوچتا ہے۔ اور یہاں پر بھی لوگ ووٹ ہمدردی اور وفا کے نام پر دیتے ہیں. 2024ء کے انتخابات میں ہزارے کے عام آدمی کا خیال بھی یہ تھا کہ تحریک انصاف کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اس بناء پر بھی ہمدردی کا ووٹ بھی اس جماعت کو پڑا ہے۔

ہزارہ ڈویژن کے رہنے والے لوگ بنیادی طور پر کئی محرومیوں کا شکار ہیں۔ اُن کا الگ صوبے وشناخت کا مطالبہ منطقی وجائز ہے۔ ہزارہ کے بدلتے ہوئے سیاسی رجحانات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ زبانی جمع خرچ کرنے والے لوگوں اور جماعتوں سے اب ہزارہ کے باشعور لوگ تنگ آچکے ہیں۔ اگر جن لوگوں پر آج ہزارہ والوں نے اعتماد کیا ہے۔ وہ اگر عملی طور پر ان کی توقعات پراگر پورا نہ اُترے تو عوام پھر اِن کے بھی خلاف ہو جائیں گے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہزارہ کے لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ اُن کی جائز شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ اور اُنھیں قومی دھارے میں مکمل طور پر شریک کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے