مولانا، ایوان سے میدان تک

بلوچستان پشین میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ تمہارے ہاتھ میں پرچمِ نبوی ہے، اس پرچم کو جھکنے نہیں دینا، ہاتھ کٹ جائے، سینے چھلنی ہو جائیں، اس پرچم کو بلند رکھنا ہے، یہ ہم پر اور آپ پر رسول اللہ ص کا قرض ہے۔

مذہبی جماعتیں مذہب ہی کی بنیاد پر سادہ لوح عوام سے ووٹ وصولتی ہیں، وہ الیکشن سے پہلے ملک میں اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں مگر الیکشن ہوتے ہی ان کا سارا فوکس اہم وزارتیں لینے پر ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان پہ یہ الزام رہا ہے کہ وہ وزارتوں کیلئے ہر حکومت کے شراکت دار بن جاتے ہیں، عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد مولانا صاحب الیکشن میں بڑا حصہ ملنے کی توقع کر رہے تھے، مگر صورت حال توقعات کے بر خلاف آئی اور جمعیت علمائے اسلام کو بری طرح شکست ہوئی، مولانا اپنے گھر یعنی ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی اپنی اور بیٹے اسعد محمود کی سیٹ ہار گئے۔

جمعیت کی مقبولیت پہلے سے کافی کم ہوئی ہے، اس میں مولانا کی بہت سی سیاسی غلطیاں بھی شامل ہیں، ماضی کی حکومتوں سے اشتراک اور خصوصاً پی ڈی ایم حکومت میں ڈیلیور نہ کرنے پہ عوامی رائے کافی تبدیل ہوئی ہے، وہ مولانا جو عمران خان پہ مہنگائی کا الزام لگا رہے تھے اور دھرنے دے رہے تھے، اسی مولانا کے اتحادیوں کی پی ڈی ایم حکومت میں مہنگائی اور لاء اینڈ آرڈر کے مسائل مزید بڑھے۔

مولانا نے ماضی اور حالیہ الیکشن میں گھر کے افراد کو نوازا، انہوں نے بھائیوں، بیٹیوں اور سالیوں کو ایوان تک پہنچایا، سمدھی کو خیبرپختونخوا کا گورنر بنایا۔ اس پہ مخالفین نے لوگوں کے کان بھر دیئے کہ کیا اسلام کی خدمت مولانا کے گھر والوں کے علاؤہ کوئی نہیں کر سکتا، یا باقی علماء و طلباء صرف دھرنوں کیلئے رکھے ہیں؟؟؟

ماضی میں مولانا کی بنائی ہوئی متحدہ مجلس عمل کو صوبہ سرحد یعنی خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا، جمعیت کے وزیر اعلیٰ اکرام خان دروانی نے صوبے میں بڑے ترقیاتی کام کروائے، نئے سکول کالج یونیورسٹیاں بنائی، ہسپتال وغیرہ بنائے مگر کہا جاتا ہے کہ افغان جنگ کے باعث اس وقت ملک میں ڈالر کی بڑی ریل پیل تھی، خزانے ہرے بھرے تھے، اس لئے کام بھی ہو رہے تھے۔ بعد ازاں عوامی نیشنل پارٹی اور پھر تحریک انصاف نے مولانا کی جمعیت کو صوبے کی بڑی جماعت بننے سے محروم کر دیا۔

آپ گزشتہ انتخابات میں مولانا کی کمپین دیکھیں، وہ عام آدمی کی بات نہیں کرتے، وہ ترقیاتی کاموں کا وعدہ اور دعویٰ نہیں کرتے، وہ یہودی ایجنٹ، اسرائیل اور امریکہ مخالف بیانیوں پہ الیکشن کمپین چلاتے رہے، اب ظاہر ہے لوگ سمجھ گئے، انہیں معلوم ہے کہ مولانا یہاں بیٹھ کر امریکہ ،اسرائیل کا نام ہی لے سکتے ہیں، ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمان پاکستانی سیاست کا اہم کردار ہیں، ان کے پاس منظم طاقت بھی ہے، لیکن کچھ عرصے سے مولانا کی چال کامیاب نہیں ہو رہی، تقدیر کا فیصلہ کرنے والے مولانا کو استعمال کر کے سائیڈ لائن لگا رہے۔ اب مولانا اسی غصہ کو نکالنے کیلئے ایوان کے بجائے میدان میں کھڑے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کو جمعیت سنبھالتے ہوئے دھائیاں گزر گئیں مگر انہوں نے باقی موروثی سیاسی جماعتوں کی طرح جمعیت علمائے اسلام کو بھی گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، وزارتیں ہوں یا پارٹی عہدے زیادہ تر گھر ہی میں بانٹ بیٹھے ہیں۔

جمعیت کے سکھڑنے کی اک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے علاؤہ پارٹی میں کسی کو سر اٹھانے نہیں دیا، وہ اکیلے لیڈر بنے رہے، یعنی فلحال جمعیت علمائے اسلام میں مولانا کے بعد کوئی ایسا نام نہیں جو پارٹی کو چلانے اور ملکی سیاست میں جگہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہو، جو منتخب حکومتوں سے جماعت کا حصہ لے سکتا ہو، جو اسٹیبلشمنٹ اور مدارس کے علماء و طلباء کو ساتھ جوڑے رکھ سکتا ہو۔

اس کے برعکس جماعت اسلامی نے نئے چہروں کو اوپر آنے دیا، کراچی سے حافظ نعیم جو کہ اب امیر جماعت بھی ہیں، گوادر سے مولانا ہدایت الرحمان اور ایوان بالا میں سینیٹر مشتاق خان کو بولنے دیا گیا، انہیں لڑنے دیا گیا، یہ سب مقبول ہوئے اور اب ٹھیک ٹھاک رہنماء ہیں، کارکن ان پہ یقین کرتے ہیں، ان کی آواز پہ لبیک کہتے ہیں۔

ان جماعتی حضرات کی مقبولیت کی اک وجہ عوامی بیانیہ اپنانا بھی ہے، حافظ نعیم الرحمن نے "حق دو کراچی” تحریک میں پانی، بجلی، کچرہ، سیورج نظام وغیرہ کی بات کی، جماعت کے علاؤہ دیگر لوگوں نے بھی ساتھ دیا۔

مولانا ہدایت الرحمان نے "حق دو گوادر” تحریک چلائی، ماہی گیروں کے مسائل اٹھائے اور مافیا کی مخالفت کی، لوگوں نے ساتھ دیا بلکہ پہلی مرتبہ بلوچستان سے جماعتی ممبر صوبائی اسمبلی بنا۔ سینیٹر مشتاق خان نے میسنگ پرسن کا مقدمہ لڑا، مہنگی بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے بارے میں تقاریر کیں، لوگوں نے سراہا۔

اسی طرح تحریک انصاف نے بھی کم وقت میں نئے چہروں کو آگے آنے دیا، خاص کر نو مئی کے بعد جہاں پی ٹی آئی سے لوگ بھاگے یا بھگائے گئے، وہیں پارٹی کے ساتھ کھڑے لوگوں کو خاص پوزیشن ملی بلکہ الیکشن میں انتہائی فریش بندوں کو ٹکٹیں جاری ہوئے۔

یہ صورت حال آپ کو جمعیت علمائے اسلام میں دیکھنے کو نہیں ملے گی، مولانا فضل الرحمان جتنے بڑے سیاستدان ہیں، ان کے بعد جے یو آئی میں دور دور تک اس لیول کا بندہ نہیں ملتا۔ جمعیت علمائے اسلام نے اس طرح عوامی مطالبے بھی نہیں اٹھائے، نہ ہی وہ مافیاء کا نام لیتی رہی، بلکہ کسی حد تک مقتدرہ کے ساتھ چلنے میں وارہ سمجھا، لوگوں نے انتخابات میں ریجیکٹ کر دیا۔ اب مولانا کا گلہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے، کہتے ہیں کہ ہرایا گیا، ہمیں کمپین نہیں کرنے دی گئی، ہم پہ حملے ہوتے رہے وغیرہ۔

قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں سے بڑی حد تک محرومی کے بعد اب مولانا ایوان کے بجائے میدان میں فیصلہ کرنے آئے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مولانا میدان یعنی عوامی اسمبلی کے زریعے اپنا حصہ لے پائیں گے؟

موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو ایسا مشکل لگتا ہے، پاکستان بین الاقوامی سطح پر نئے ممالک کے ساتھ سنجیدگی سے کام کرنے جا رہا ہے، سعودی عرب، چین، ایران، کویت وغیرہ سے سرمایہ کاری آ رہی، آئی ایم ایف سے نئے قرض کی بازگشت چل رہی، قریبی ملک افغانستان کے ساتھ معاملہ مزید سریس ہوتا جا رہا ہے، اس سب صورتحال میں مولانا کیلئے مشکلات میں خاطر خواہ اصافہ دیکھنے کو ملے گا۔

دوجا یہ کہ حکومتی جماعتوں کے رہنماء یعنی صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف مولانا کو منانے کی کوشش کریں گے، اگر مشکلات زیادہ ہوئی تو مولانا اپنی ناؤ کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر نواز شریف اور آصف علی زرداری کی پیشکش قبول کر کے معاملہ کوور کر لیں گے۔

خیر، ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے، آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے