لچر گانے بنانے والا چمار اور امتیاز علی کا چمتکار

ایک زمانہ تھا کہ اسلام آباد میں دو سینما گھر تھے۔ ایک کو میلوڈی والا کہتے تھے اور ایک نفڈاک کہلاتا تھا، جہاں ( ہم جو اس وقت نو جوانوں میں شامل ہوتے تھے، سکون سے جایا کرتے تھے۔ جینز بھی زیب تن کی ، ہراسگی کا احساس نہیں ہوا۔ شائد آبادی کم تھی اور اسلام آباد میں ایک خاص پڑھا لکھا تہذیب یافتہ مگر کم دولت مند طبقہ زیادہ تعداد میں تھا اور شائد زیادہ معتبر بھی) انگریزی فلمز دیکھنے جایا کرتے تھے . ویسے تو زمانہ دہشت گردی سے پہلے برٹش کونسل کی لائبریری جو میلوڈی سنیما کے بلکل پاس تھی، وہاں بھی اچھی انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں. ان سنیماز کا کیا ہوا ؟

اشرافیہ کی تنگ دلی اورڈھونگ پر کہاں تک رونا رویا جائے ؟ انڈیا اور پاکستان کے عوام کی مشکلات سے حکمرانی اور پالیسی کا کیا تعلق ؟ فلم ایک سستی تفریح تھی، سو اس پر بھی پابندی اور وہ بھی ملکی مفادات کے نام پر . شائد ایسا ہی ہو .میں کون سی "سینئر تجزیہ کار یا دفاعی گرو ہوں یا "سولڈ اوٹ یا بیسٹ پرفارمنگ یو ٹیو بر ہوں ؟ مگر ٹیکنالوجی زندہ باد. کئی ڈیجیٹل فارمز ہیں، جہاں فیس دے کر یا مفت میں کسی بھی ملک کی فلم دیکھ لو. عید الفطر کے تیسرے دن ہم نے بھی کچھ تازہ تازہ فلمز دیکھنے کا ارادہ کیا اور قرہ فال کہانی دکھانے میں امتیاز رکھنے والے-چمتکار دکھانے والے – امتیاز علی کا نام نکلا .

امرسنگھ چمکیلا دیکھی ‘ جیو امتیاز علی! کیا فلم ہے ؟ کیا زناٹے دارتھپڑ لگایا ہے ہمارے معاشرے کی منافقت پر . انڈیا ہو یا پاکستان غیراشرفیہ کی ایک ہی کہانی ہے.ہم سب ہی تو ایک طرح کے دلت ہیں – چمکیلا اور ان کی پتنی امر جوٹ کور کم عمری میں ہی انڈین پنجاب سے عالمی شہرت حاصل کر کے "نا معلوم ” کے ہاتھوں قتل کر دیئے گیے تھے . اسی رات خواب میں دیکھا کہ اس نو جوان موسیقار گلوکار کلاکار جوڑے کی کلاس کسی اور آسمان پر بدل گئی اور ان کو کسی آئی وی لیگ کی یونیورسٹی سے فیلو شپ بھی ملا ‘ کسی ٹیڈ ٹاک کی طرح کے فارم پر بھی بلایا گیا اور ہمارے کرنٹ افیئرز کے پروگرامس تک میں بلا کر ان کے فن پر سیر حاصل بحث کی گئی.

ڈاینا سار کی ڈائری سے ایک نامکمّل اقتباس جو اس طرح کی چند سطروں پر مبنی تھا، میں نے سماجی میڈیا کی سائٹ پر پوسٹ کیا تو بہت اچھے صحافی کاشف بلوچ نے بھی تعریف کی اور بتایا کہ افشاں معصب اور ان کا نے ٹیو میڈیا بھی اس فلم پر ذات پات کے حوالے سے تبصرہ کر چکا ہے. اختلاف بھی ہو تب بھی ان کو سنتی’ دیکھتی اور پڑھتی ہوں —کم از کم ابھی تک تو میرا یہی امپریشن ہے . یہ بے لاگ اور پر لطف گفتگو کرتے ہیں .

امر سنگھ اگر ذات کا چمار نہیں ہوتا تو شائد مارا بھی نہیں جاتا . یہ میرا قیاس یا مفروضہ ہے . شائد اس کو لبرل یا فیمنسٹ ہونے کا بھی ایوارڈ مل جاتا . اشرافیہ جب چاہتے ہیں گٹار بجاتے ہیں، ستار بجاتے ہیں، ناچتے ہیں، تھرکتے ہیں، جب چاہتے ہیں، قبلہ بدل لیتے ہیں . تمام بڑے لوگوں کی ایک ہی زہنی کلاسں ہوتی ہے . ان کا گلاس بھی ایک ہوتا ہے .

جب میں غریب سیاسی ورکروں کو ایک دوسرے پر تنقید کرتے دیکھتی ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے . سوچتی ہوں کہ ان کو الٹسٹ کنسنسس کے بارے میں معلومات ہیں بھی یا نہیں یا کم از کم بظاہر سیاسی رقیبوں کی آپَس کی رشتہ داریوں کا علم بھی ہے کہ نہیں ؟

اس تمام ڈرامے میں سب سے زیادہ قابل رحم اور خطر ناک وہ لوگ ہوتے ہیں جو اچانک غربت اور گمنامی سے امارت اور شہرت کا سفر طے کرتے ہیں اور ان سے ان کی اپنی ہی عظمت یا اپنا ہی جلال سنبھالا نہیں جاتا . ایسے جعلی بڑوں سے تو ہمارا، اصلی جینیس امر سنگھ چمکیلا ہی بہتر بلکہ اس کا کیا مقابلہ ؟

"ہر شخص کے بس کی بات نہیں کہ وہ صحیح اور غلط کی فکر کرے۔ کچھ لوگوں کو بس زندہ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔” دھانی رام المعروف امر سنگھ چمکیلا-غلط اور صحیح کے درمیان سسکتا ہوا ،گاتا ہوا، لاچار چمار لچر گانے بنانے والا امر سنگھ چمکیلا.

—————————————————-

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے