تنقید: اصلاح کی راہ میں ایک عظیم عمل

تنقید ایک ایسا عمل ہے جسے صدیوں سے علم و ادب، سیاست، اور مذہب کے مختلف میدانوں میں اصلاح کے ایک موثر ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اصلاح، ترقی، اور بہتری ہوتا ہے، اور یہ کسی بھی معاشرے کی فکری و عملی بہتری کے لیے ناگزیر ہے۔ تنقید کے ذریعے نہ صرف موجودہ خامیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے بلکہ مستقبل کی راہ بھی متعین کی جاتی ہے۔ اس عمل میں حسد، کینہ، یا بے جا مخالفت شامل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک سنجیدہ اور خالص نیت پر مبنی کوشش ہوتی ہے۔

میرا عمومی معمول یہ ہے کہ میں اپنی بساط اور علم و تجربہ و مشاہدہ کے مطابق ان شخصیات، اداروں، پارٹیوں، اور مفکرین پر تنقید کرتا ہوں جن پر تنقید کی گنجائش ہوتی ہے اور وہ اس لائق ہوتے ہیں کہ ان پر تنقید کیا جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک پر تنقید کی جائے، اور نہ ہر کوئی قابل تنقید ہوتا ہے، بلکہ ضروری یہ ہے کہ وہاں تنقید کی جائے جو قابل تنقید ہیں اور وہاں بھی جہاں اصلاح کی گنجائش موجود ہو اور بہتری کا امکان ہو۔ میرے نزدیک وہ شخصیات، ادارے، پارٹیاں، اور افکار جو ہماری علمی، دینی، سیاسی اور سماجی زندگی میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، ان پر تنقید کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ان کی اصلاح اور مزید بہتر کی گنجائش پیدا کی جا سکے۔

مثال کے طور پر، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، وفاق المدارس العربیہ، اور دینی مدارس جیسے ادارے وہ ہیں جن سے میں ہمیشہ بہتری کی امید رکھتا ہوں۔ ان اداروں کے متعلق میری تنقید ہمیشہ تعمیری اور مثبت ہوتی ہے۔ میرا مقصد ان کی اصلاح اور بہتری ہے، تاکہ یہ ادارے اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے نبھا سکیں۔ اگرچہ کبھی کبھار میری تنقید میں کچھ الفاظ یا جملے سخت بھی ہو سکتے ہیں، مگر میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ میں حسن کلام سے کام لوں، تاکہ تنقید کا مقصد حاصل ہو اور اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں۔

بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں تنقید کو اکثر منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ، خصوصاً ان پارٹیوں اور اداروں سے منسلک افراد، میری تنقید کو ذاتی مخالفت یا دشمنی سمجھتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کیونکہ میرا مقصد ہمیشہ خیر اور بہتری ہوتا ہے۔ میں تنقید کو ایک تعمیری عمل سمجھتا ہوں، جو مخالفت، ضد، یا کینہ سے بالکل مختلف چیز ہے۔ تنقید کا مقصد ہمیشہ اصلاح اور ترقی ہوتا ہے، اور اسے مخالفت یا دشمنی کی نظر سے دیکھنا ایک بڑی غلطی ہے۔

ہماری معاشرتی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ہر حال میں تعریف و توصیف چاہتے ہیں، اور تنقید کو برداشت نہیں کرتے۔ یہ رویہ ہمیں ترقی کی راہ میں روکتا ہے اور ہماری فکری و عملی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیتا ہے۔ تنقید کا مقصد کسی کو نیچا دکھانا یا اس کی شخصیت کو مجروح کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کریں اور انہیں دور کرکے مزید بہتری کی طرف قدم بڑھائیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم تنقیدی نکتہ نظر کا خیرمقدم کریں، اس کے ذریعے اپنی کمزوریوں کو دور کریں، اور اپنی فکری و عملی صلاحیتوں کو مزید نکھاریں۔

آج کے دور میں، جب کہ ہمیں علمی، دینی، اور سیاسی اداروں کو مسلسل بہتر بنانے کی ضرورت ہے، تنقید کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگر ہم تنقید کو صحیح معنوں میں سمجھ کر اس کا خیرمقدم کریں، تو یقیناً ہمارے ادارے اور معاشرہ دونوں ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ ہمیں تنقید کو مثبت انداز میں قبول کرنا چاہئے اور اس کے ذریعے اپنی اصلاح کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے۔ اس کے بغیر ہم کبھی بھی اپنی خامیوں کو دور نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ بلند مقام حاصل کر سکتے ہیں جس کے ہم متمنی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے