ولادت اقدس کا تاریخی جائزہ اور واقعات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا ذکر یا آپ کے اوصاف و محاسن اورعبادات و معاملات کا ذکر، حتی کہ جس چیز کی ادنیٰ سی نسبت بھی نبی کریم ﷺ کی جانب ہو اس کا ذکر یقیناً فعلِ مستحسن اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔ آپ ﷺ کی دنیا میں آمد دنیا کے لیے ایک نعمت ہے، اندھیروں میں ایک روشنی ہے، اسی بنیاد پر ایک مسلمان کا خوش ہونا فطری امر ہے۔ آپ ﷺ ماہ مُبارک ربیع الاوّل میں اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کی ولادت با سعادت ربیع الاوّل کی کس تاریخ کو ہوئی ،اس بارے میں محدثین و مورخین کا اختلاف ہے۔ ”تاریخ خضری“ میں آپ کی ولادت با سعادت 9 ربیع الاوّل کو صبح کے وقت مذکور ہے۔ ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور یہ بھی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، لیکن جمہور محدثین اور مؤرخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم 8 ربیع الاول کو دنیا میں تشریف آور ہوئے۔ ( بہ حوالہ سیرت المصطفیٰ ناقل از زرقانی شرح) .

جب کہ عیسوی تاریخ کے مطابق 20 یا 22 اپریل 571ء کی تاریخ تھی، اپریل کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے۔ علامہ سلمان منصور پوریؒ کی تحقیق ہے کہ رسول اللہﷺ مکہ میں شعبِ بنی ہاشم کے اندر 9 ربیع الاوّل 1 عام الفیل، یوم دوشنبہ کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔ اس وقت نوشیرواں کی تخت نشینی کا چالیسواں سال تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر ظفر کی تقویمی تحقیق کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم شمسی قمری کلینڈر کے حساب سے ربیع الاول میں پیدا ہوئے، جب کہ خالص قمری حساب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت رمضان المبارک کے مہینے میں ہوئی۔ ولادت با سعادت سے قبل تمام دنیا، خصوصاً عرب کی سرزمین پر شب دیجور کی سیاہی اورجہالت وکفر کی تاریکی چھائی ہوئی تھی، اس عالمگیر گمراہی کی شب تاریک کے ختم ہونے کا وقت آیا تو طلوعِ آفتاب کی خبر دینے کے لیے اول سپیدہ سحر نمودار ہوا،ملک عرب میں جو مرکزِ تاریکی بنا ہوا تھا اور جس کے ریگستانوں میں شرک وعصیاں کی آندھیاں چل رہی تھیں خود بخود ایسے نشانات ظاہر کرنے لگے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ اس خطے میں آفتابِ رسالت طلوع ہونے اور ہدایت کا چشمہ پھوٹنے والا ہے۔

کاہنوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ملک عرب میں ایک عظیم الشان نبی پیدا ہونے والا ہے اور بہت جلد اُس کی حکومت ظاہر ہوا چاہتی ہے۔ لوگ اہل کتاب کے احبارورہبان کے پاس جا جا کر نبی آخر الزماں کے حالات اور علامات دریافت کرنے لگے۔ علمائے یہود اور علمائے نصاریٰ نے بھی توریت وانجیل کی بشارتیں بیان کرنی اورلوگوں کو سُنانی شروع کیں کہ ہم جس نبی آخر الزماں کا کہتے تھے وہ عنقریب ہم میں ظاہر ہونے والے ہیں۔ خود قبائلِ عرب میں بھی غیر شریفانہ جذبات اوربُرے کاموں سے نفرت پیدا ہونے لگی تھی، ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ ،عثمان بن الحویرث بن اسد وزید بن عمرو بن نفیل عم عمرؓ بن الخطاب، عبید اللہ بن جحش وغیرہ کئی شخص ایک جگہ جمع ہوئے اوراپنے عقائد و اعمال پر غور کرنے لگے، بالآخر سب نے متفقہ طور سے پتھروں اوربتوں کی پرستش سے بیزاری ظاہر کی اورمختلف مقامات کی طرف دین ابراہیمی کی جستجو میں نکل کھڑے ہوئے۔

ورقہ بن نوفل نے دینِ مسیحی اختیار کرلیا اوربڑی محنت وتوجہ سے توریت وانجیل وغیرہ پڑھیں۔ اہل کتاب کے ہاں جہاں یہ واقعات کتب کی صورت موجود تھے وہیں سینہ بہ سینہ بھی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی بشارت مذکور تھی۔ جہاں تک کتب کا تعلق ہے تو قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی یہ قول ذکر کیا ہے کہ تم میں عنقریب ایک احمد نامی پیغمبر ظاہر ہوں گے۔ اسی طرح انجیل و توریت میں مذکور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیاں بھی کتابی صورت میں نقل ہو رہی تھیں۔ اور سینہ بہ سینہ بھی یہ بشارت عام ہو چکی تھی۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا واقعہ دیکھا جائے تو وہ فقط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا ذکر سن سن کر ہی آپ کی خدمت میں پہنچنے کے مشتاق ہوئے تھے۔ اسی طرح سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مکان بھی ان کے آباو اجداد میں ایک بادشاہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکرام کی خاطر تعمیر کروایا تھا۔ گویا اسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظار تھا، نیز یہی انتظار ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تک تمام نسلوں کو رہا۔

ولادت باسعادت اور اہم مستند واقعات:

حضرت عبد المطلب کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے قبل دو اہم واقعات کا ذکر ملتا ہے ایک چاہ زمزم کی کھدائی کا واقعہ اور دوسرا اصحاب فیل کا واقعہ۔

پہلے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد المطلب نے خواب میں دیکھا کہ انہیں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اور خواب میں ہی انہیں اس کی جگہ بھی بتائی گئی۔ انہوں نے بیدار ہونے کے بعد کھدائی شروع کی اور رفتہ رفتہ وہ چیزیں برآمد ہوئیں جو بنو جُرہُم نے مکہ چھوڑتے دقت چاہ زمزم میں دفن کی تھیں۔ یعنی تلواریں، زرہیں اور سونے کے دو ہرن۔ عبد المطلب نے تلواروں سے کعبے کا دروازہ ڈھالا، سونے کے دونوں ہرن بھی دروازے ہی میں نصب کیے اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا بندوبست کیا۔ کھدائی کے دوران یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ جب زمزم کا کنواں نمودار ہوگیا تو قریش نے عبدالمطلب سے جھگڑا شروع کیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی کھدائی میں شریک کر لو۔ عبد المطلب نے کہا میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں اس کام کے لیے مخصوص کیا گیا ہوں، لیکن قریش کے لوگ باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ فیصلے کے لیے بنو سعد کی ایک کاہنہ عورت کے پاس جانا طے ہوا اور یہ سب لوگ مکہ سے روانہ بھی ہو گئے لیکن راستے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی علامات دکھلائیں کہ وہ سمجھ گئے کہ زمزم کا کام قدرت کی طرف سے عبد المطلب کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس لیے راستے ہی سے پلٹ آئے۔ (ابن ہشام ۱۳۲/۱ تا ۱۴۷)

دوسرے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ابرہہ صباح حبشی نے جو نجاشی بادشاہ حبش کی طرف سے یمن کا گورنر جنرل تھا۔ جب دیکھا کہ اہل عرب خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں تو صنعاء میں ایک بہت بڑا کلیسا تعمیر کیا۔ اس کی خواہش یہ تھی کہ عرب میں بیت اللہ کا حج اسی کی طرف پھیر دے مگر جب اس کی خبر بنو کنانہ کے ایک آدمی کو ہوئی تو اس نے رات کے وقت کلیسا کے اندر گھس کر اس میں گندگی کر دی۔ ابرہہ کو پتا چلا تو سخت برہم ہوا اور ساٹھ ہزار کا ایک لشکر جرّار لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ جب مزدلفہ اور منی کے درمیان وادی محسر میں پہنچا تو اس کا ہاتھی بیٹھ گیا اور کعبہ کی طرف بڑھنے کے لیے نہ اٹھا۔ اس کا رخ شمال جنوب یا مشرق کی طرف کیا جاتا تو اٹھ کر دوڑنے لگتا، لیکن کعبہ کی طرف کیا جاتا تو بیٹھ جاتا۔ اسی دوران اللہ نے چڑیوں کا ایک جُھنڈ بھیج دیا ،جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے اور اللہ نے اسی سے انہیں کھائے ہوئے بُھس کی طرح بنا دیا۔ یہ چڑیاں ابابیل اور ثمری جیسی تھیں، ہر چڑیا کے پاس تین تین کنکریاں تھیں، ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں کنکریاں چنے کے دانے جیسی تھیں مگر جس کسی کو لگ جاتی تھیں اس کے اعضاء کٹنا شروع ہو جاتے تھے اور وہ مرجاتا تھا۔ (سورة الفیل تفسیر، ابن ہشام، الرحیق المختوم) یہ واقعہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی پیدائش سے صرف پچاس یا پچپن دن پہلے ماہ محرم میں پیش آیا تھا۔ در حقیقت یہ واقعہ ایک تمہیدی نشانی تھی جو اللہ نے اپنے نبی محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اور اپنے گھر کے لیے ظاہر فرمائی تھی۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کی رات کو کسریٰ کے محل میں لرزہ آگیا، اس کے چودہ کنگرے گر پڑے اور کسریٰ خوف زدہ ہوگیا اور فارس کی جو آگ ہزار برس سے نہیں بجھی تھی، وہ بجھ گئی اور ساوہ جھیل خشک ہوگئی۔

حضرت عائشہ کی روایت میں آیا ہے کہ ایک یہودی مکے میں رہتا اور تجارت کرتا تھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کی رات کو اس نے قریش سے کہا: اے گروہ قریش! آج رات اس امت کا نبی پیدا ہوگیا، جس کے دونوں شانوں کے درمیان ایک نشان ہے اور نشان میں گھوڑے کے ایال کی طرح چند بالوں کی ایک قطار ہے۔ لوگ یہودی کو لے کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی والدہ کے پاس پہنچے اور نومولود بچے کی پشت کھول کر دیکھی۔ یہودی کی نظر جب مسّہ پر پڑی فوراً بے ہوش ہوکر گرپڑا۔ ہوش آنے پر کہنے لگا :والله! بنی اسرائیل سے نبوت نکل گئی۔ (خلاصة السیر)

ولادت کے بعد آپ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے حضرت عبد المطلب کے پاس پوتے کی خوش خبری بھجوائی۔ وہ شاداں و فرحاں تشریف لائے اور آپ ﷺ کو خانہ کعبہ میں لے جا کر اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی، رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا، اور آپ کا نام ”محمد“ ﷺ رکھا۔ (ابن ہشام، تاریخ خضری وغیرہ)

معزز قارئین! سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ پوری کائنات کے لئے رحمت بن کر تشریف آور ہوئے ہیں، اس لیے مذکورہ معجزات و واقعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت شان اور بیانِ عظمت کا ایک اہم نشان تصور کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ واقعات اس دور میں موجود مختلف مذاہب، سلطنتوں اور اقوامِ عالم کو ایک واضح پیام بھی تھا کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر ان کے ظاہری نشانات اور علامات منہدم ہوئے ویسے ہی آگے چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت سے باطل اعتقادات، مذاہب اور افکار کا بھی خاتمہ ہونے والا ہے، اور پھر تاریخ نے مشاہدہ کیا کہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنھا کے گھر سے اٹھنے والے نور نے پورے جزیرہِ عرب میں اپنی تابناکی اور حق کی شمع سے آندھیروں کو مٹا کر منور کر دیا۔ یہ واقعات ایک مسلمان کے لیے بھی مشعلِ راہ ہیں، جنہیں اپنے پیارے نبی کی رفعتِ شان کا ادراک کرتے ہوئے ان کی سیرت مبارکہ سے اپنی زندگی کے لیے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے