گیارہ اکتوبر 2024ء کی شام پنجاب آرٹس کونسل راولپنڈی میں منعقدہ یہ بھی بظاہر ایک سادہ اور عام سی تقریب تھی. جس میں ایک کتاب پر اظہار خیال اور صدارتی خطبہ شامل تھا۔ تاخیر، انتظار، بے چینی اور اشتیاق سمیت تمام روایتی لوازمات بھی موجود تھے لیکن جب یہ تقریب ہوئی تو اسے میزبان، مہمانانِ گرامی چنیدہ مدعو شریک احباب اور صاحبِ کتاب نے مل کر چار نہیں آٹھ آٹھ چاند لگا دیئے۔
یہ مجموعہ شائع کرنے کا اعزاز راقم کے اشاعتی ادارے کاشر پبلیکیشنز کے حصے میں آیا جو بیس برس بعد دوبارہ فعال ہوا اور یہ اس کی اولین کاوش ہے، ڈائریکٹر پنجاب آرٹس کونسل راولپنڈی محترم سجاد حسین کا فرمان تھا کہ پہلی تقریبِ رونمائی کی میزبانی پنجاب آرٹس کونسل راولپنڈی کرے گی پھر ایسا ہی ہوا۔ خدا کا شکر تقریب کے ساتھ بارہ اکتوبر ہوتے ہوتے رہ گئی کیونکہ اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم سربراہ اجلاس کا غلغلہ اور ہٹو! بچو! کا ہسٹریائی روایتی سرکاری کلچر زوروں پر تھا یہ فکر دامن گیر تھی رکاوٹوں کے سبب احباب پہنچ بھی پائیں گے ! تاہم تقریب سے کچھ دیر قبل مہمانانِ گرامی اور مدعو احباب کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں استاد اور معروف ادیبہ محترمہ ڈاکٹر بی بی امینہ، ان کے بعد کہنہ مشق صحافی اور صحافتی ادب کا معتبر حوالہ وی نیوز سے وابستہ محترم مشکور علی کی آمد نے ڈھارس بندھائی۔ اسی دوران تقریب کے مہمانِ خصوصی معروف استاد، نقاد اور شاعر پروفیسر ڈاکٹر روش ندیم بھی آن پہنچے۔
صاحبِ کتاب کچھ کبیدہ خاطر دکھائی دیئے کیونکہ فاروقی شہزاد، حاجی اعظم اور سلیم خان سمیت ان کے کافی دوست ممکنہ تاخیر بھانپ کر اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے پیشِ نظر اجازت لے کر رخصت ہوگئے تھے تاہم میزبان سجاد حسین کی مسکراہٹ نے انہیں سہارا دیئے رکھا اور بالآخر خدا خدا کرکے صاحبِ صدارت محترم ڈاکٹر وحید احمد بھی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کا جاں گسل مرحلہ طے کرتے ہوئے تشریف لے آئے۔ کمال کشادہ دل، اعلیٰ ظرف اور منکسرالمزاج شخصیت، آتے ہی تاخیر پر معذرت چاہی۔ میزبان کی طرف سے پیش کردہ خیر مقدمی گل دستہ تھاما اور اس کے ساتھ ہی مہمانانِ گرامی کو براہ راست سٹیج پر لے جایا گیا۔ پہلے بٹھانے، پکارنے، سٹیج پر لے جانے اور مسند پر بٹھانے کی فرسودہ روایت توڑ دی گئی گویا کتاب کی طرح تقریب بھی منفرد۔
راقم نے ربِ کریم کا نام لے کر صاحبِ صدارت کی اجازت سے تقریب کا آغاز کیا تو سب سے پہلے ڈائریکٹر پنجاب آرٹس کونسل راولپنڈی محترم سجاد حسین نے بحیثیت میزبان مہمانانِ گرامی اور مدعو احباب کا تشریف آوری پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے صاحبِ کتاب کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سجاد لاکھا ان کے پرانے دوست اور صحافتی ایام کے ساتھی ہیں جن کا شعر کہنے کا انداز بہت منفرد ہے وہ اپنے خیالات کے اظہار میں بے باک اور ادبی حلقوں میں بہت کم عملی شرکت کے باوجود تعارف کے محتاج نہیں۔
تقریب کا باقی احوال قلمبند کرنے سے پہلے لازم ہے کہ عصرِ حاضر میں نظم کے سب سے بڑے شاعر محترم ڈاکٹر وحید احمد کے خطبۂ صدارت کا ذکر کروں جس میں انہوں نے فرمایا ’پاکستان کی 77 سالہ تاریخ کو سمجھنا ہو تو سجاد لاکھا کی کتاب پڑھ لیں، جنہوں نے مؤرخ کے طور پر شاعروں کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کیا۔‘ انہوں نے اپنے خطبے میں جگہ جگہ سجاد لاکھا کی نظموں کے حوالے دیے۔ 13 اکتوبر کو ڈاکٹر صاحب کمال مہربانی سے اپنی فیس بک وال پر تقریب کے حوالے سے یوں رقم طراز ہوئے ’سجاد لاکھا کا نظمیہ مجموعہ ’یہ روشنی فریب ہے‘ بہے منفرد اور چونک بھری نظموں کا مرقع ہے. یہ دراصل ایک حساس شاعر کی درد مندانہ نظمیہ آپ بیتی ہے۔ یہ کتاب پاکستان کی سیاسی اور سماجی زندگی کے نشیب و فراز کی رپورتاژ ہے ان کی ایک نظم کا عنوان ہے ’پیاس‘ فرماتے ہیں:
پیپڑیاں دیکھ میرے ہونٹوں پر
ایک ساغر سے کچھ نہیں ہوگا
ہو سکے تو انڈیل مے خانہ
عموماً شاعر جب سیاسی اورمعاشرتی موضوعات کو قلمبند کرتا ہے تو شاعری کا جھکاؤ نعرہ بازی کی طرف ہو جاتا ہے اور شاعرانہ ترفع فقدان کا شکار ہو جاتا ہے مگر سجاد لاکھا کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے شاعری کو نعرہ بازی نہیں بننے دیا۔‘
تقریب میں کافی حسنِ اتفاق بھی پائے گئے راقم کو کتاب کی اشاعت کا اعزاز تو ملا ہی تھا ساتھ ہی تقریب کی نظامت کا شرف بھی نصیب ہو گیا۔ میزبان اور صاحبِ کتاب دونوں ہم نام، مشکور علی کتاب کے اولین قاری، کتاب پر پہلا تبصرہ لکھا اور تقریب میں اظہارِ خیال بھی سب سے پہلے ان ہی کے حصے میں آیا۔
بقول سجاد لاکھا دو برس پہلے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں محترمہ کشور ناہید کی کتاب ’بری عورت کی دوسری کتھا‘ پر ڈاکٹر بی بی امینہ کا تبصرہ سن کر انہوں نے دل میں خواہش کی تھی کہ کاش میری کتاب شائع ہو اور ڈاکٹر صاحبہ اس پر اظہارِ خیال کریں سو ان کی یہ حسرت بھی تمام ہوئی۔ ایک اور حسنِ اتفاق کی مشاعرے کا ڈول نہیں ڈالا گیا حالانکہ سٹیج پر براجمان ماسوائے میزبان ڈائریکٹر سجاد حسین راقم سمیت سب شاعر تھے۔
ڈاکٹر بی بی امینہ نے اپنی اتالیق ڈاکٹر نجیبہ عارف صدر نشین اکادمی ادبیات کی شان میں بہت عمدہ اشعار کہے ہوئے ہیں۔ مشکور علی بھی شعر کہتے کہتے نثر کی طرف نکل گئے جب کہ شرکاء میں بھی شعراء کی قابلِ ذکر تعداد موجود تھی۔ در اصل کتاب کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر مشاعرے کا اہتمام احباب کو شرکت پر مائل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے لیکن یہ تقریب اس کی محتاج نہ ہوئی احباب آئے اور خوب آئے۔ خود صاحبِ صدارت نے برملا اس بات کا ذکر فرمایا کہ بہت کم انہوں نے ایسی تقریب دیکھی اور ایسے شرکاء نصیب ہوئے جنہوں نے پوری دلچسپی اور انہماک سے ادیبوں کو سنا۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر روش ندیم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے ادب اور سیاست میں مستعمل بائیں بازو کی اصطلاح اور تاریخ پر روشنی ڈالی انہوں نے اس بات پر تعجب ظاہر کیا کہ اب تک روشنی کا مطلب روشنی ہی تھا لیکن سجاد لاکھا نے روشنی کو فریب کہا ہے تو پھر یہ دیکھنا ہے کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں یقینا اس کا سبب یہاں روشنی کے نام پر لگا ہوا تماشا ہے جو ان کے نزدیک فریب ہے یقیناً یہ ایک عمدہ تجزیہ تھا۔
قبل ازیں ڈاکٹر بی بی امینہ نے فیض احمد فیض کی نظم صبحِ آزادی اگست 47ء اور سجاد لاکھا کی نظم یہ روشنی فریب ہے کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فیض کے اشعار میں جو گدلی روشنی ہے وہ سجاد لاکھا کے بقول 77 برس گزرنے کے بعد بھی فریب ہی ہے۔ کتاب کی بیشتر نظموں پر فیض کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں جو ان سے شاعر کی عقیدت کا مظہر ہے۔ سجاد لاکھا بھی درد کی شدت کم کرنے کے لیے عشق کا ہی سہارا لیتے ہیں جو فیض کا رنگ ہے۔
آؤ کچھ دیر کہیں بیٹھ کے باتیں کرلیں
توبھی ازراہِ مروت مجھے ہنس کر مل لے
ایک لمحے کو سہی تیری رفاقت کے طفیل
میں بھی اس درد کی دنیا سے نکل آتا ہوں
اس سے پُر لطف تو کچھ اور نہیں ہوسکتا
لیکن پھر ہمیں فیض اور سجاد لاکھا میں ایک واضع فرق بھی نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے فیض نے مستقیم انداز میں اپنی شاعری کو نظریاتی تبلیغ کا وسیلہ بنایا اور اپنا ایک علامتی و استعاراتی نظام وضع کیا لیکن سجاد لاکھا اخفا، ابہام یا علامت کے قائل نظر نہیں آتے۔ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں بغیر کسی علامت کے صاف صاف بیان کر دیتے ہیں. جس کے ثبوت کے لیے ان کی نظم اناالحق ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ وہ فرد کو موجودہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں. کٹھ پتلیوں کو پوجنے اور اشرافیہ کی لڑائی لڑنے سے جس میں اس دیس کے سب غدار شامل ہیں، کچھ حاصل نہیں ہونے والا، اس لیے وہ انہیں اندھیرے بانٹنے والے، ایک ڈائن اور عزت مآب جیسے طنزیہ اور نفرت انگیز القاب سے یاد کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا تھا کہ سجاد لاکھا مستقبل کی بابت پرامید ہیں انہیں لگتا ہے کہ خوف کے دن گنے جا چکے ہیں اور بہت جلد وہ دن آنے والا ہے. جب پھڑپھڑاہٹ بغاوت پر منتج ہو کر اسیروں کے پاؤں کی زنجیر کھول دے گی۔ بیچ بازار تماشہ لگے گا جہاں اہلِ تقدیس کی خلعت میں موجود تار انہیں کے لیے پھندے بن جائیں گے۔
ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق ’اس کتاب کی ایک اور نمایاں خوبی اس کی مطالعیت یعنی readability ہے۔ لاکھا صاحب چونکہ عوام سے مخاطب ہیں اس لیے انہوں نے الفاظ و تراکیب پر مکمل دسترس کے باوجود اپنی شاعری کو عوامی لہجہ عطاء کیا اور اسے نغمۂ عوام بنانے کی شعوری کاوش کی ہے. جس کی وجہ سے معروف ترقی پسندوں کی طرح ثقیل الفاظ و تراکیب کے معنی کا بار اٹھانے کے لیے لغت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی نہ دماغ کی غیر ضروری ورزش سے معنی کی ترسیل اور نظریے کی تفہیم میں خلل پڑتا ہے۔ ‘
تقریب کے پہلے مقرر مشکور علی نے کتاب پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ’منیر نیازی نے کہا تھا کہ میرا خوف ہی میری طاقت ہے اس کے برعکس سجاد لاکھا نے خوف کا طوق پہنا ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ نہ کبھی ان کا قلم لڑکھڑایا اور نہ ہی ان کی سوچ کا دھارا کسی مصلحت کا شکار ہوکر آلودہ ہوا۔ لب و رخسار کے بجائے ان کے موضوعات حوادثِ زمانہ اور گرد و پیش میں مسائل کی ٹکٹکی پر بندھے گوشت پوست کے عام انسان ہیں جنہیں سجاد لاکھا دھرتی کے مالک قرار دیتے ہیں، نظم دیکھیے….
’’رات باقی ہے‘‘
سردہونے نہ دو الاؤ کو
گیت گاتے رہو بغاوت کے
رات باقی ہے، بات باقی ہے
وہ سحر تابناک جس کے لیے
کتنی شمعوں نے لَو گنوائی ہے
جبر کی بے اماں ہواؤں نے
سر اتارے تھے جن چراغوں کے
ان چراغوں کی پھڑپھڑاہٹ سے
اب بھی شاہوں کے دل لرزتے ہیں
گنگناؤ کہ رات باقی ہے
گیت گاتے رہو بغاوت کے
سجاد لاکھا کار زارِ صحافت کے مسافر ہیں طویل تر مسافت اور لفظوں کی دھول میں اَٹ جانے کے بعد انہوں نے یہ سب کچھ شعروں اور نظموں کے قالب میں ڈھالا۔ دنیا بالخصوص وطنِ عزیز میں کہیں بھی انسانیت زد میں آئی تو سجاد لاکھا کا قلم بلبلا اٹھا یہی وجہ ہے کہ ان کی سسکیاں بھرتی نظمیں قاری کو مبہوت کر دیتی ہیں۔ مجموعے میں شامل نظمیں پوجا کماری، مقتولہ، کامریڈ یاسین ملک، بالا خانے، توہینِ عدالت، فوٹو جرنلسٹس، نیا مفہوم، بتوں کی شوریٰ، تماشا وغیرہ اسی تمہید کی مظہر ہیں۔
سجاد لاکھا شوقِ سفر کے باوجود نہیں جانتے کہ ان کے پاؤں میں کس مسافت کے آبلے ہیں۔ وہ دہکتے رخساروں، نشیلی آنکھوں اور شانے پر دستک دیتی زلفوں سے بے نیاز رت جگے کاٹ کاٹ کر اپنی نظموں کے لیے راستے بناتے ہیں، نظم ’غم کی رات‘ اور ’نیند سوئی‘کتنی آسانی سے سنا دیے گئے بین کرتے نوحے ہیں۔ سجاد لاکھا کہتے ہیں:
ہمیں تعظیم دو
ہم میں تو تم بھی ہو
کہ جبر اور صبر
اب مدِ مقابل آ چکے ہیں
وہ اپنی نظموں کے ذریعے معاشرتی ناہمواریوں، نا انصافی، جبر اور استحصال کو بے خوف و خطر للکارتے ہیں، نظم ’دھوپ‘ کی آخری دو سطریں دیکھئے:
دھوپ نکلی تو تھی
بھاری بوٹوں تلے آ کے کچلی گئی
بانکے شاعر سجاد لاکھا کی طبیعت کے مطابق کتاب کی بہت سی خصوصیات بھی ہیں۔کوئی رنگا رنگ سرورق نہیں نہ ہی نظموں کی طویل فہرست اور نہ ہی نمبر شمار کی الجھن، نہ ہی کسی نقاد یا معروف شاعر کا پیش لفظ لکھوا کر کتاب کو کسی قسم کی بیساکھی فراہم کی گئی۔ سجاد لاکھا نے جو کہا عام آدمی کے لیے کہا اور بغیر کسی لگی لپٹی کے مجموعہ ان ہی کے سپرد کر دیا۔ مجموعے کی آخری نظم دیکھیے:
’’ اختتام‘‘
تماشا آخری ہے یہ سمجھ لو
سبھی کردار ننگے ہو چکے ہیں
بس اب پردہ گرانا رہ گیا ہے
خطبۂ صدارت سے قبل صاحبِ کتاب سجاد لاکھا کو دعوتِ کلام دی گئی انہوں نے میزبان، مہمانانِ گرامی ذی وقار اور تقریب میں شریک احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے مشترک خوشی قرار دیا اور جب صاحبِ صدارت سے غزل سنانے کی اجازت چاہی تو وہ متعجب ہوئے اور راقم سے استفسار کیا کہ کتاب نظموں کی ہے اور صاحبِ کتاب غزل پڑھ رہے ہیں راقم نے عرض کیا کہ غزلوں کا مجموعہ بھی تیار ہے جس پر مسکرا کر فرمایا ’بہت خوب‘۔
صاحبِ کتاب نے زیادہ وقت نہیں لیا غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
نیند پھر روٹھ کر چلی گئی ہے
آج کل رت جگے بناتا ہوں
ہجر کے خستہ حال ڈھابے پر
وصل کے ذائقے بناتا ہوں
جب کوئی مشغلہ نہیں ہوتا
پاؤں پر آبلے بناتا ہوں
لاؤ تصویر ان کی آنکھوں کی
میں ابھی مے کدے بناتا ہوں
جب بھی بونے تراشنے ہوں مجھے
ان کے سائے بڑے بناتا ہوں
کیا کروں میں تری رعونت کا
میں تو خود سر پھرے بناتا ہوں
انہوں نے بوٹا سنگھ جمیل احمد شھیدِ محبت پر لکھی پنجابی نظم ’ریل گڈی نوں گل نال لا کے‘ (شھید بوٹا سنگھ دی ویل) بھی سنائی ان کا اردو اور پنجابی کلام سن کر مہمانانِ گرامی اور شرکاء بہت محظوظ ہوئے اور انہیں بھرپور داد سے نوازا۔
راقم نے اپنے تہنیتی کلمات میں صاحبِ کتاب سے متعلق کہا ’سجاد لاکھا سے مت کہو دیوار پہ لکھنا منع ہے وہ نہیں رکے گا۔ میں جانتا ہوں اس کی آواز میں وہ چنگاری ہے جو اندھیروں کو روشن کرسکتی ہے سجادلاکھا کی شاعری محض الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ ظلم، جبر، ناانصافی، بھوک اور افلاس کے خلاف توانا آواز اور اٹھ کھڑے ہونے کی پکار ہے۔‘
تقریب کی رُوداد اختتام کو پہنچی البتہ تقریب کے بعد میزبان ڈائریکٹر آرٹس کونسل نے مہماناںِ گرامی اور شرکاء کی تواضع کے لیے بہت عمدہ انتظامات کیے تھے کافی دیر تک ملنے ملانے فوٹو سیشن اور گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا۔ بلاشبہ یہ مدتوں یا رہنے والی تقریب تھی۔