مجھے جب بھی نوجوان گریجویٹ ملتے ہیں تو وہ سرکاری نوکری کے متعلق پوچھتے ہیں۔ یہی حال دینی مدارس کے فضلاء کرام کی بھی ہے۔ میں ان کے مسائل و وسائل کا جائزہ لیتا ہوں اور انہیں اپنی بساط کے مطابق مشورے بھی دیتا رہتا ہوں، تاہم سچ یہ ہے کہ سب کی سوئی سرکاری نوکری پر اٹکی ہوتی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اور گلگت بلتستان میں سرکاری نوکری حاصل کرنے کا خواب ایک روشن مستقبل، عزت، اور ترقی کی امید میں دیکھا جاتا ہے، لیکن جب حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے تو اکثر یہ خواب کسی ایماندار ملازم کے لیے گلے کا طوق ثابت ہوتا ہے۔ دوسری طرف، کرپشن اور سیاسی رسوخ سے فائدہ اٹھانے والے افراد کے لیے یہی نوکری سونے کی کان بن جاتی ہے۔
ایک ایماندار سرکاری ملازم کے لیے اپنے اصولوں پر قائم رہنا ایک مشکل امتحان ہے۔ ایسے لوگ وقت پر دفتر پہنچتے ہیں، دیانتداری سے کام کرتے ہیں، اور اصولوں پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتے۔ اپنی تمام تر صلاحیتیں خرچ کرتے ہیں اور سسٹم کی بحالی میں جُتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی محنت کا اعتراف کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، بلکہ نظام انہیں دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے برعکس، وہ لوگ جو ناجائز ذرائع، تعلقات، چمچہ گیری، خوشامدی اور سیاسی رسوخ کا سہارا لیتے ہیں، ترقی کی منازل طے کرتے ہیں اور جملہ انجوائیاں کرتے ہیں۔ ان کے لیے کام سے زیادہ تعلقات اور مفادات اہم ہوتے ہیں، اور یہی تعلقات انہیں مفاد اور ترقی کے راستے پر گامزن کرتے ہیں۔
ایک طرف ملک میں قابل، دیانتدار اور محنتی افراد ہیں جو اپنی جگہ پر رک جاتے ہیں اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دوسری طرف کرپٹ ملازمین، جن کے پاس سیاسی پشت پناہی اور اعلیٰ افسروں کی سپورٹ ہوتی ہے، سرکاری نوکری کو بطور سونے کی کان کے استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے عہدے کا غلط استعمال کرکے مالی فوائد اور طاقت حاصل کرتے ہیں۔ ایک ایماندار سرکاری ملازم کے لیے تو یہی نوکری ایک قسم کی قید ہے، جبکہ کرپٹ افراد کے لیے یہی سرکاری عہدہ سونے کی کان بن جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں بہت سے ایسے شعبے ہیں جن میں حقیقی ٹیلنٹ کو پہچاننے اور اس کی ترقی کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں کاروبار، تعلیم، صحافت، اور آئی ٹی جیسے شعبے ایسے ہیں جہاں ایک باصلاحیت شخص اپنے ہنر کو صحیح سمت میں استعمال کرتے ہوئے بہترین ترقی کر سکتا ہے۔ ایسے لوگ جو سرکاری نظام کی پیچیدگیوں میں پھنسنے کی بجائے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر آگے بڑھیں، وہ نہ صرف مالی خوشحالی بلکہ معاشرتی عزت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ میں نے کہی پڑھا تھا کہ کمزور اور نکمے لوگ سرکاری نوکری کرتے ہیں ورنہ وژنری لوگ آزاد دنیا میں اپنا راستہ خود بنا لیتے ہیں جیسے پانی اپنی خود بنا لیتا ہے۔
سرکاری ملازمین میں ہمیں دو واضح طبقات نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جو دیانتداری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، اور دوسرے وہ جو کرپشن اور ناجائز ذرائع سے کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ پہلے طبقے کے لوگ اپنا حق ادا کرتے ہوئے خود کو مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کے لوگ بے خوف کرپشن کرتے ہیں، اور معاشرے میں ان کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ اور بدقسمتی سے ہمارے سماج میں ان کو "بڑا آدمی” سجھا جاتا ہے ۔
پاکستان اور گلگت بلتستان میں سرکاری نوکری کو گلے کا طوق بننے سے روکنے کے لیے نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر بھرتیاں اور ترقی کی جائے۔ ایماندار افراد کو ان کی صلاحیت کے مطابق ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں اور کام کرنے دیا جائے، تاکہ سرکاری نوکری ایماندار لوگوں کے لیے گلے کا طوق بننے کی بجائے ان کی خدمت اور ترقی کا ذریعہ بنے۔ اگر کرپشن اور سیاسی اثر و رسوخ کو قابو میں نہ کیا گیا، تو ایماندار اور باصلاحیت لوگ مزید مایوس اور زوال کا شکار ہوتے جائیں گے، اور یوں ایک قابل اور ایماندار ملازم کو سرکاری نوکری میں سکون ملنے کے بجائے وہ زندگی بھر کے لیے اس کا بوجھ بن جائے گی۔
پاکستان میں ایک خوشحال اور عادلانہ نظام کی بنیاد اسی وقت رکھی جا سکتی ہے جب سرکاری ملازمین میں ایمانداری اور میرٹ کو فروغ دیا جائے، اور کرپشن کے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اس تبدیلی کے بغیر، سرکاری نوکری ایماندار لوگوں کے لیے ہمیشہ گلے کا طوق ہی بنی رہے گی۔
اگر ہم گلگت بلتستان کا خصوصی جائزہ بھی لیں تو ہمیں کرپٹ اور خوشامد مافیا ہر جگہ قبضہ کرتا نظر آئے گا۔ اگر آپ کو یقین نہیں آرہا ہے تو کسی بھی محکمے کا وزٹ کیجئے کہ وہاں کیسے کیسے کرپٹ عناصر سب پر چھائے ہوئے ہیں اور ایماندار ملازم دیوار سے لگائے گئے ہیں۔ کرپٹ اور خوشامد مافیا کے متعلق ہر محکمے میں درجنوں کردار ہے جو افیسران بالا کے توسط سے سسٹم کے "دُبر” میں "ذَکر” پھنسائے بیٹھے ہیں۔ اور اسی طرح اصول پسند اور ایماندار ملازمین اپنی "دُبر” بچائے پھرتے ہیں۔
اب آپ ہی اندازہ لگا لیں کہ یہ نوکری کس کے لئے گلے کا طوق ہے اور کس کے لیے سونے کی کان!