ہر سال 31 اکتوبر کو’’کفایت شعاری کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔ اور یہ دن کے منانے کا بنیادی مقصد آمدن سے زائد اخراجات پرقابو پانا اوربچت کو فروغ دینا ہے۔ 1924ء میں اٹلی کے شہر، میلان میں پہلی بین الاقوامی کفایت شعاری کانگریس منعقد ہوئی اور عالمی دن منانےکا آغاز بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کفایت شعاری کے عالمی یوم پربینکس، مالیاتی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کوبچت کھاتےکھولنے، اپنے بجٹ کی منصوبہ بندی کرنے اور طویل مدّتی مالیاتی فیصلے کرنے کی ترغیب دینے کے لیے مختلف ورکشاپس، سیمینارز اور کانفرنسز وغیرہ کا اہتمام کرتی ہیں۔
نیز، اس موقعے پر بینکس خصوصی بچت اسکیمز متعارف کرواتے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بچت کی عادت اپنانے کی ترغیب دی جاسکے۔ کچھ عرصہ قبل شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، اس وقت مکاؤ، جمہوریہ کانگو، قطر، آئرلینڈ، برونائی، سنگاپور، لکسمبرگ، گبون، متّحدہ عرب امارات اور چین کے شہریوں میں بچت کا رُجحان سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔
دینِ اسلام نے بھی ہمیں کفایت شعاری کا حُکم دیاہے۔ فرمانِ خداوندی ہے کہ ’’اور رشتے داروں کو اُن کاحق دو اور مسکین اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بےشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا بڑا ناشکرا ہے۔‘‘(سورۂ بنی اسرائیل، آیت 27) قرآنِ کریم کے اس فرمان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ فضول خرچی اللہ تعالیٰ کی ناشُکری کے مترادف ہے۔
قرآنِ پاک کے علاوہ احادیثِ مبارکہ میں بھی اس حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے، اللہ پاک اُسے مال دارکردیتا ہےاور جو فضول خرچی کرتا ہے، اللہ پاک اُسے محتاج کردیتا ہے۔(مسند البزار، 161/3، حدیث946) اِسی طرح ایک اور حدیث شریف ہے کہ ’’خرچ میں میانہ روی اختیار کرنا آدھی معیشت ہے۔‘‘
کفایت شعاری کے حوالے سے شیخ سعدیؒ کا مشہور قول ہے کہ ’’جس نے کفایت شعاری اپنائی، اُس نےحکمت ودانائی سے کام لیا۔‘‘، جب کہ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ’’کفایت شعاری حقیقت میں اپنے نفس پر قابو پانا ہے۔‘‘ اسی طرح ایک مغربی مفکّر، سوفٹ کا کہنا ہے کہ ’’کفایت شعاری سب سے بڑی دولت ہے۔‘‘
آج دُنیا بَھرمیں معاشی حالات غیرمستحکم ہیں، جس کی وجہ سے صرف حکومتیں ہی نہیں، اقوام بھی پریشان ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اس پریشانی کی ایک بڑی وجہ فضول خرچی اور بےجا خواہشات کی تکمیل ہی ہے، تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ عموماً لوگ سوشل میڈیا پرانواع و اقسام کی مصنوعات دیکھ کربلاسوچے سمجھے اُن کے حصول کی دوڑمیں جُت جاتے ہیں، نتیجتاً اُن کی آمدنی ہی نہیں، جمع پونجی بھی اسراف کی نذر ہوجاتی ہے۔
جب کہ بعض اوقات اِن ہی لامحدود خواہشات کی عدم تکمیل، ڈیپریشن سمیت دیگر نفسیاتی امراض کی وجہ بھی بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام نے دُنیاوی اعتبار سے ہمیشہ خُود سے کم حیثیت اور کم مرتبے والے افراد کی طرف دیکھنے کا حُکم دیا ہے۔ بلاشبہ یہ حُکم تمام امورِ خیر کا مجموعہ ہے، کیوں کہ جب بندہ دُنیاوی اعتبار سے خُود سے برتر شخص کودیکھتا ہے، تو اُس کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی اُس جیسا ہوجائے اورپھروہ اپنے پاس موجود اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر قانع ہونے کی بہ جائے کثرت کی طلب کرنے لگتا ہے، جب کہ انسان کی خواہشات تو مرتے دَم تک پوری نہیں ہوسکتیں۔
ہاں، ضروریات کی تکمیل ضرور ممکن ہے۔ نیز، اِن بےلگام خواہشات کی تکمیل ہی کی کوشش میں پھر انسان اپنے ربّ سے بھی غافل ہوتا ہے۔ اِس کے برعکس ایک عقل مند شخص دُنیاوی اُمور میں خُود سے کم مرتبے اور کم مال و دولت والےانسان کو دیکھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شُکر بجا لاتا ہے۔ نتیجتاً، اُسے دِلی اطمینان وسکون بھی میسّرآتا ہے اور پھرچوں کہ میانہ روی اورکفایت شعاری اختیار کرنےسے ہرکام میں اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی شامل ہوجاتی ہے، تو راہ کی تمام مشکلات اور رکاوٹیں بھی آپ ہی آپ دُور ہو جاتی ہیں۔
واضح رہےکہ کفایت شعاری یامیانہ روی اختیار کرنے کا مطلب خُود کو محروم رکھنا نہیں، بلکہ اس کا مفہوم اپنی تسکین کو مؤخر کرتے ہوئے دُرست فیصلے کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ فضول خرچی نہیں کریں گے، تو پھر مناسب وقت پر مناسب جگہ سرمایہ کاری کرکے اس کے بہترین نتائج سے مستفید ہوسکتے ہیں اور یوں کفایت شعاری آپ کو کام یابی کی طرف لے جائے گی۔ ہمیں اپنے مالی معاملات سے متعلق دانش مندانہ فیصلے کرنے کے لیے بجٹ، بچت، سرمایہ کاری، اور ہنگامی فنڈز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، مالیاتی خواندگی کا آغاز چھوٹی عُمر ہی سےہونا چاہیے۔
مُلک میں کفایت شعاری عام کرنے کے لیے اسکول، کالجز اور جامعات سے لے کر کام کرنے کے مقامات تک بچت اور میانہ روی کی اہمیت پر زور دینے کی ضرورت ہے، جب کہ حکومت اورمالیاتی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ شہریوں کو بچت اور اپنے وسائل کے مطابق خرچ کرنے کی اہمیت سے متعلق شعورو آگہی فراہم کریں۔
یاد رہے کہ یہ کفایت شعاری کی عادت ہی معاشی عدم استحکام کے اِس دَور میں ایک باسہولت زندگی اور محفوظ مستقبل کی ضامن ہے اور مجموعی طور پر بھی دیکھا جائے، تو بچت کی عادت اقوام کے لیے سرمایہ کاری کی شرح میں اضافے، مضبوط معیشت اوربیرونی قرضوں پرانحصار کم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ نیز، اپنے شہریوں کو کفایت شعاری اور بچت کی ترغیب دینے والا کوئی مُلک ہی ایک مستحکم معیشت کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔