صرف دینی تعلیم کافی نہیں

دور حاضر میں دین اور دنیا کی ہم آہنگی کی ضرورت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ محض دینی تعلیم پر اکتفا کرنا کافی نہیں رہا۔ آج کے والدین جو اپنے بچوں کو صرف دینی مدارس تک محدود رکھ دیتے ہیں، وہ اپنے بچوں کیساتھ ظلم کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ دینی علم کے ساتھ ساتھ عصری علوم اور جدید ہنر بھی انتہائی اہم ہیں۔ میرے نزدیک، بچوں کی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں جدید تعلیم اور سکلز سے بھی بہرہ ور کرنا ضروری ہے تاکہ وہ آنے والے وقت کے چیلنجز کا سامنا کر سکیں اور معاشرے میں اپنی ایک مثبت اور مستحکم شناخت بنا سکیں۔

اگر آپ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ دینی تعلیم حاصل کرے تو خدارا! صرف مدرسے کی مروجہ تعلیم پر اکتفا نہ کریں۔ اپنے بچوں کو صرف مدرسے کی بنیاد پر پروان چڑھانا انہیں مستقبل میں مشکلات میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم، جدید ٹیکنالوجی اور سکلز بھی ان کے لیے ضروری ہیں تاکہ وہ اپنی روزمرہ زندگی اور معاشرتی اور ریاستی نظام میں باعزت طور پر اپنا کردار ادا کر سکیں۔ آج کا معاشرہ اتنا بے رحم ہے کہ صرف دینی تعلیم رکھنے والے افراد کو اکثر بے روزگاری، مشکلات اور نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ریاستی سسٹم میں بھی ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح اللہ بچائے مسجد کمیٹی اور مدراس کے مہتممین اور انتظامیہ کی طعنوں اور نامناسب رویے سے، اگر بندہ دینی تعلیم کیساتھ دیگر سکلز میں مہارت رکھتا ہو تو مسجد کمیٹی اور مدارس کی انتظامیہ بھی اسے اہمیت دیتی اور قدر بھی کرتی ہے ورنا بخدا صرف مدرس ٹائپ لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے۔

ہمارے ملک میں مدارس کے مہتممین کے رویوں کیساتھ اگر مساجد کے متولی اور مساجد کمیٹیوں کے ذمہ داران کا بھی جائزہ لیا جائے تو ہوشربا صورتحال کا سامنا ہوگا۔ یہ لوگ عموماً مسجد کے خطیب، امام، اور موذن کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہیں۔ چند نکات ہی ملاحظہ کیجئے، ورنا تفصیلات پر جایا جائے تو حالات بہت گھمبیر ہیں۔آئمہ و خطباء کی قلیل تنخواہیں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی، عزت و احترام میں کمی، مسجد کے فیصلوں میں شریک نہ کرنا ، مسجد کی انتظامی معاملات میں حد سے زیادہ مداخلت، معاشی تحفظ کا فقدان، رہائش اور دیگر سہولیات میں کمی، ذاتی پسند و ناپسند کا اظہار اور ان جیسی درجنوں چیزیں ہیں جو مساجد کے خطباء و آئمہ اور مؤذنین بھگتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف مسجد کی فضا کو خراب کرتا ہے بلکہ دین کے علماء کے مقام کو بھی مجروح کرتا ہے۔

یہاں دو قسم کے افراد کو استثنا دیا جا سکتا ہے: ایک تو وہ جو خود کسی مدرسے کے مہتمم ہیں اور مدرسے کے ذریعے اپنے نظام کو چلا رہے ہیں اور انہیں اور ان کی اولاد کو کسب معاش کی فکر لاحق نہیں ہے، اور دوسرے وہ جو مال و دولت سے مالامال ہیں اور ان کے بچے کو کسی معاشی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔ ایسے والدین کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے بچوں کو صرف دینی تعلیم دے کر مطمئن رہ سکیں۔ لیکن اگر آپ کی مالی حالت معمولی ہے اور آپ متوسط طبقے سے ہیں تو دینی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم کی اہمیت سے انکار کرنا آپ کے بچوں کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بلکہ بھکاری بنا سکتا ہے۔ امید ہے کہ آپ اپنے بچوں کو صرف درس نظامی کی سند پر اکتفا کرنے نہیں دیں گے۔ اگر اس پر اکتفا کرنے کی ترغیب یا دیگر چیزیں سیکھنے اور عصری اداروں سے ڈگری لینے سے روکا تو آپ اپنے بچوں کیساتھ کھلواڑ کے سوا کچھ نہیں کررہے ہیں۔ یہ میری مخلصانہ اور مشاہداتی و تجرباتی رائے ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری اس رائے کو بددیانتی سے تعبیر کرنے کی بجائے سنجیدگی سے اس پر غور و فکر بھی کریں گے اور عمل بھی، ان شا اللہ!

تقویٰ اور دینداری بہت عظیم صفات ہیں، مگر صرف ان کی بنیاد پر بچوں کو مستقبل کی ذمہ داریوں سے تیار کیے بغیر بے یار و مددگار چھوڑ دینا، انہیں ایک طرح سے سماج کی بے رحمی کے سپرد کر دینا ہے۔ اور سمجھدار والدین ایسا کبھی بھی نہیں کرسکتے ۔
اپنے بچوں کو دین کے ساتھ دنیاوی علوم کی طرف بھی راغب کریں تاکہ وہ اس جدید دور کے تقاضوں کو سمجھیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوں۔

میں خود بھی ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور اللہ کا شکر ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون حاصل کیے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج میں ایک باعزت نوکری کر رہا ہوں۔ ورنہ کتنے لوگ ہیں جنہیں دوسروں کی خوشامد اور چاپلوسی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ دین کی خدمت اور درس و تدریس تو کوئی بھی شخص کسی بھی پیشے کے ساتھ منسلک رہ کر، کر سکتا ہے، جیسا کہ میں خود بھی گزشتہ بارہ سال سے یہ کام فی سبیل اللہ انجام دے رہا ہوں۔ اور اس ترتیب پر مطمئن بھی ہوں، ورنا بخدا کس کس کے بے رحم تھپیڑوں کا شکار ہوتا!

آج کا دور تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم، ٹیکنالوجی اور ہنر سے بھی آراستہ کریں تاکہ وہ اس بدلتے ہوئے زمانے میں سر اٹھا کر چل سکیں اور اپنے لیے ایک کامیاب اور باعزت زندگی کا راستہ تلاش کر سکیں۔ حالات و واقعات کے ظہور اور جائزہ سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیسے کیسے ٹیلنٹ ضائع ہوئے ہیں۔ درست وقت پر انہیں گائیڈ لائنز نہیں ملی ورنا بہت سے لوگ کمال کامیابی سے ہمکنار ہوجاتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے