پاکستان میں احساس زیاں کے احساس سے بھی مبرا کرنے کے عمل کو بڑی مہارت سے نافذ کیا گیا ہے . کچھ شواہد ان تو انسانی ترقی اور صنفی برابری کے شرمناک درجات سے ہی مل جاتے ہیں .علم، شعور یا ادراک کی کمی کے نتائج کئی صورتوں میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں . ایک دردناک نتیجہ یہ بھی ہے کہ وطن سے محبّت ایک فرسودہ اور پھیکا جذبہ بن چکا ہے . نئے رجحانات میں قوم پرستی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے . شہیدوں کا مذاق اڑانا جرات کی دلیل بن رہا ہے . ایسا کیوں ہوا ؟ یہ نوبت کیوں آئی ؟ شائد مشترکہ مفادات پر مبنی سیاست ، شائد مشترکہ قومی جہالت ، شائد اشرافیہ کی کرامت….. وجوہات کی ایک طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے .
سانحات در سانحات ہیں
ایک سب سے بڑا سانحہ جس کو چھوٹے سانحوں کی لسٹ میں شامل تک نہیں کیا جاتا وہ ہے پاکستان سے بے مثال محبّت کرنے والی بے نشان بے امان عبرت بنی ہوئی بنگلہ دیش کے ڈربوں میں قید ایک بہاری کمیونٹی کے المیے سے ناواقفیت آپ میں سے کتنے ہوں گے جو اس ” واقعے یا قصّے ” سے صحیح سیاق و سباق کے ساتھ واقف ہوں گے. یعنی اپنے لوگوں کو اپنے مخلص شہریوں کو دھتکار دینا،ڈس اون کرنا اور یہ پالسی اختیار کرنا کہ وہ اسی خطّے میں رہیں جہاں کے لوگوں نے ان کی نسل کشی کی بد ترین تشدد کیا اور ہر طرح کی ازیت دی.
قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں متحدہ کے ہندوستان لاکھوں مسلمانوں کی کی قربانیوں کی بدولت بدولت خاک و خون سے لکھی ہوئی اور آگ کے دریا میں جلتی ہوئی تاریخ رقم کرکے جو پاکستان بنا تھا وہ سولہ دسمبر 1971 سے بھی بہت پہلے ٹوٹ چکا تھا. اس کا سرکاری مظاہرہ سابقہ مشرقی پاکستان میں تئیس مارچ ١٩٧١ میں ہو چکا تھا جب اس وقت کے مشرقی پاکستان میں پاکستانی جھنڈے کو بنگلہ دیش کے جھنڈے سے تبدیل کر دیا گیا تھا اور متحدہ پاکستان کے حامی غیر بنگالی جن کی اکثریت بہاری تھی ان کے بد ترین قتل عام کا آغاز ہو چکا تھا .
ان لوگوں کو ان کے گھروں سے جان بچانے کی خاطر مجبور کر دیا گیا . ان کے کارو بار نوکریاں ختم کردی گئیں . مردوں کو بنگالی دوستوں نے چن چن کر قتل کیا. بہاری بیٹیوں کی عصمت دری روز کا معمول ٹھہری . یہ بھی کہا گیا کہ خوش نصیب تھیں وہ عورتیں جو ماری گئیں . خوف، دہشت اور وحشت کی ان کہانیوں کوبیان کرنا بھی مشکل ہے . ١٩٦٩ سے یہ سلسلہ عداوت کا، بغاوت کا چل نکلا تھا ، بہت کچھ چھپایا گیا .
عجیب خبطی خمیر کی قوم تھی پھر بھی پاکستان زندہ باد کہتی رہی . ٹین ایج لڑکے تک پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے پر تیار ہو گئے اور خدمات سر انجام دیں . آج کی دنیا میں ان کو چائلڈ سولجرز کہا جائے گا . کون سا ستم تھا جو ان لوگوں پر نہیں ڈھایا گیا . پھر سولہ دسمبر کا دن آگیا اور اس روز آنے والی رات کی سحر ہمارے تین لاکھ لوگوں اور ان کی نسلوں کے لیے ابھی تک نہیں ہوئی وہ جو پاکستان کی محبّت میں تباہ ہوگئے اور جن کو پاکستان نے دھتکار دیا.
١٩٧١-١٩٩ تک بہاری مسئلے کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی ؟
اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کی کاوشوں کے حوالے سے انٹرنیٹ پر ایک رپورٹ کے مطابق 1971سے لے کر 1999 تک ہونے والے اہم واقعات کچھ یوں ہیں:
1971خانہ جنگی کے دوران بہاری کمیونٹی پر متعدد حملے ہوئے کیونکہ انہیں پاکستانی اشرافیہ کے تسلط کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق، بنگالیوں نے 1,000 سے زیادہ بہاریوں کو قتل کیا۔ دسمبر 1971 میں، جب بنگلہ دیش ایک آزاد ریاست کے طور پر وجود میں آیا، تو لاکھوں بہاری /غیر بنگالی اردو اسپیکرز وہیں پیچھے رہ گئے کیونکہ پاکستانی فوج اور قید کے گیے شہریوں کو بھارت منتقل کر دیا گیا۔
1972
جنوری 1972 میں، بنگلہ دیشی فوج کو تمام ہتھیار ضبط کرنے کا حکم دیا گیا، لیکن جب وہ میرپور ڈھاکہ کے بہاری علاقے میں داخل ہوئے تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تصادم میں دونوں طرف سے تقریباً 100 افراد ہلاک ہوئے اور اس واقعے کے بعد، ہزاروں بہاریوں کو گرفتاری کے بعد قید میں ڈال دیا گیا اور ان پر تعاون کے الزامات عائد کیے گئے۔ 1974 تک، پاکستانی حکومت نے 108,000 بہاریوں کو پاکستان منتقل کیا۔ 1981 تک یہ تعداد بڑھ کر 163,000 تک پہنچ گئی۔
1981
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (UNHCR) کی ایک کانفرنس میں، بارہ بین الاقوامی اور قومی تنظیموں نے بنگلہ دیش اور پاکستان کی مدد کے لیے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کی آبادکاری میں مدد کی جا سکے۔
مارچ 1981
اسٹرینڈڈ پاکستانی جنرل ریپٹریئیشن کمیٹی نے دھمکی دی کہ اگر ان کے لوگوں کی واپسی میں تیزی نہ لائی گئی تو وہ لانگ مارچ، عام بھوک ہڑتال اور بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے عطیہ کردہ گندم کے راشن کا بائیکاٹ کریں گے۔
یکم نومبر – 31 دسمبر 1982
تقریباً 4,600 بہاری (جنہیں عام طور پر "اسٹرینڈڈ پاکستانی” کہا جاتا ہے) کو پاکستان منتقل کیا گیا، جب کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے باضابطہ واپسی کے منصوبوں کا کوئی اعلان نہیں ہوا تھا۔ یہ 15 لاکھ امریکی ڈالر کا فضائی آپریشن کویت، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی مالی معاونت سے انجام پایا۔ اس کارروائی کو اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (UNHCR) کے تعاون سے مکمل کیا گیا۔
یکم فروری 1987
کراچی (پاکستان) میں بہاری مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے چوتھے دن ہلاکتوں کی تعداد 8 تک پہنچ گئی، جب کہ 50 افراد زخمی ہوئے۔ مظاہرین ایک بہاری رکنِ پارلیمنٹ، آفاق شاہد، کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے، جنہیں مئی 1986 میں غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
1988 جولائی نو
اعلان کیا گیا کہ پاکستانی حکومت نے رابطة العالم الاسلامی، جو مکہ میں قائم ایک انسانی ہمدردی کی تنظیم ہے، کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے تاکہ بنگلہ دیش میں موجود تقریباً 2,60,000 بہاریوں کی واپسی میں مدد فراہم کی جا سکے۔
دس جولائی 1989
جب 2,500 بہاریوں نے ڈھاکہ میں پاکستانی سفارت خانے میں داخل ہونے کی کوشش کی، تو پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 12 افراد زخمی ہو گئے۔ یہ مارچ SPGRC کے زیرِ اہتمام کیا گیا تھا، جس کا مقصد پاکستان واپسی میں تاخیر کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔
13 فروری 1990
تقریباً 300 بہاریوں نے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے سندھ کے وزیر اعلیٰ کا پتلا نذرِ آتش کیا اور کراچی کی جانب کشتیوں کے ذریعے روانہ ہونے کی دھمکی دی، جو حالیہ نسلی تشدد کا مرکز رہا تھا۔
4 اپریل 1991
تقریباً 5,000 بہاریوں نے پورے ملک میں، بشمول دارالحکومت، پاکستان واپسی کے مطالبے کے لیے مظاہرے کیے۔
5 اگست 1991
ڈھاکہ میں تقریباً 2,000 بہاریوں نے پاکستان واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک "شور شرابے والے” مظاہرے کا انعقاد کیا۔
19 ستمبر 1991
تقریباً 2,000 بہاریوں نے ڈھاکہ میں مظاہرہ کیا، بنگلہ دیشی حکومت کے مبینہ منصوبے کے خلاف جس میں ان کے رہائشی کیمپوں کو مسمار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا۔
12 نومبر 1991
پاکستانی حکام نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت بنگلہ دیش میں پھنسے بہاریوں کی واپسی کے عمل کو تیز کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
17 نومبر 1991
مسلم ورلڈ لیگ نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ بہاریوں کی پاکستان واپسی کے لیے فنڈز فراہم کریں، جس کا تخمینہ تقریباً 300 ملین امریکی ڈالر تھا۔
11 اگست 1992
پاکستان اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ پاکستان بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی کا آغاز کرے گا۔ اس مرحلہ وار واپسی کا آغاز دسمبر 1992 میں 3,000 خاندانوں کی فضائی منتقلی سے ہوگا۔ یہ بیان بنگلہ دیشی وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیا کے اسلام آباد کے تین روزہ دورے کے بعد جاری کیا گیا۔
21 ستمبر 1992
پاکستانی ہائی کمیشن نے، رابطة بنگلہ دیش (جو کہ سعودی عرب میں قائم خیراتی ادارے رابطة العالم الاسلامی کی شاخ ہے) کی مدد سے، بنگلہ دیش میں ہزاروں بہاریوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا عمل شروع کیا۔
13 دسمبر 1992
ڈھاکہ میں حکومت کی جانب سے اطلاع دیئے جانے کے بعد کہ ان کی پاکستان واپسی ایک ماہ کے لیے مؤخر کر دی گئی ہے، 2,000 سے زائد بہاریوں نے سڑکوں پر مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے خودکشی کی دھمکیاں دیں۔
10 جنوری 1993
بہاری پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادکاری کا آغاز لاہور، پاکستان میں 325 افراد کی آمد سے ہوا۔
11 جنوری 1993
پاکستان کے جنوبی شہر کوٹری میں ایک بم دھماکہ ہوا، جس میں 13 افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ بم کوٹری کی ایک بہاری کالونی میں نصب کیا گیا تھا (سندھیوں پر اس دھماکے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا)۔
12 جنوری 1993
پاکستان کے وزیر برائے پارلیمانی امور، چودھری عامر حسین، نے اعلان کیا کہ پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو پنجاب کے 32 اضلاع میں دوبارہ آباد کیا جائے گا، جہاں انہیں مکانات اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
23 جنوری 1993
دکانوں میں دو بم دھماکے ہوئے، جن میں 22 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ حملے مبینہ طور پر جئے سندھ، ایک قوم پرست گروہ جو اردو بولنے والے بہاریوں کی ہجرت کے خلاف تھا، نے کیے۔
6 مارچ 1993
تقریباً 1,000 بہاریوں نے پاکستان واپسی میں تاخیر کے خلاف احتجاج کیا۔
14 اگست 1993
تقریباً 10,000 بہاریوں نے پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر ڈھاکہ میں ایک ریلی میں شرکت کی۔ ریلی کے منتظمین، اسٹرینڈڈ پاکستانی جنرل ریپٹریئیشن کمیٹی (SPGRC)، نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً ان کی واپسی کا انتظام کرے۔
9 نومبر 1993
تقریباً 1,500 بہاریوں (زیادہ تر خواتین) نے ڈھاکہ میں مارچ کیا اور پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے درخواست کی کہ وہ انہیں پاکستان لے جائیں۔
27 نومبر 1993
ڈھاکہ میں 1,000 سے زائد بہاریوں نے احتجاج کیا اور دھمکی دی کہ اگر انہیں پاکستان نہ بھیجا گیا تو وہ خودکشی کر لیں گے۔
7 دسمبر 1993
جنیوا پناہ گزین کیمپ میں بہاریوں کے متحارب گروہوں کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 50 افراد زخمی ہوئے۔ یہ تنازع SPGRC (نسیم گروپ) اور SPGRC (اعجاز گروپ) کے دھڑوں کے درمیان ہوا۔ SPGRC (نسیم) کے ایک ترجمان نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے بہاریوں کی واپسی کے اس معاہدے کا احترام کرنے کا وعدہ کیا ہے جو 1992 میں ان کے پیش رو نواز شریف نے کیا تھا۔
16 جولائی 1994
SPGRC (نسیم) کے رہنما، نسیم خان نے مطالبہ کیا کہ اگست 1992 میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم خالدہ ضیا اور اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے مشترکہ اعلان کے مطابق 3,000 خاندانوں کی جلد واپسی کی جائے۔ خان نے کہا کہ پنجاب میں پہلے ہی 3,000 مکانات تعمیر کیے جا چکے ہیں تاکہ پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو آباد کیا جا سکے۔ اب تک صرف 321 بہاریوں کو واپس لایا گیا ہے۔
14 اگست 1994
ڈھاکہ کے قریب پناہ گزین کیمپوں میں بہاریوں نے پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر سیاہ جھنڈے لہرائے اور مظاہرے کیے۔ 23 افراد زخمی ہوگئے، جب 2,000 سے زائد بہاریوں نے پاکستانی سفارت خانے کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے انہیں روک دیا۔ پچھلے ہفتے، بنگلہ دیشی حکومت نے ڈھاکہ میں مبینہ طور پر مجرموں کو پناہ دینے کے الزام میں بہاریوں کی پناہ گاہیں مسمار کر دیں۔
19 دسمبر 1994
ڈھاکہ میں ایک احتجاج کے دوران تقریباً 500 بہاریوں نے پاکستان کی جانب مارچ کرنے یا خودکشی کرنے کی دھمکی دی۔ بہاری 1992 کے معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ایک شیڈول کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مارچ 8، 1995: مسلم ورلڈ لیگ کے سربراہ نے کہا کہ پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی واپسی اور بحالی کو معطل کرنے کی وجہ فنڈز کی کمی نہیں ہے۔ ایم ڈبلیو ایل اور رابطہ ٹرسٹ بورڈ پاکستانی حکومت نے ان پاکستانیوں کے لیے فنڈز جمع کرنے میں مدد کے لیے قائم کیا تھا۔ مختلف مسلم رہنماؤں نے فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ کیا، لیکن وہ پہلے ریپٹری ایشن پروگرام کے دوبارہ فعال ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ (منی کلپس، 03/08/95)۔
اپریل 18، 1995: تقریباً 1000 بہاریوں نے ڈھاکہ میں مظاہرہ کیا تاکہ پاکستان واپسی میں تاخیر پر احتجاج کیا جا سکے۔ انہوں نے خودکشی کی دھمکی بھی دی۔ (رائٹرز، 04/18/95)۔
اپریل 23، 1995: 500 سے زیادہ بہاری، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے، وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے پاکستان کے دورے سے قبل آٹھ گھنٹے کی بھوک ہڑتال میں شامل ہوئے۔ ایس پی جی آر سی نے ضیاء سے درخواست کی کہ وہ بھٹو پر 1992 کے ریپٹری ایشن معاہدے پر عمل درآمد کے لیے زور دیں۔ (ڈوئچے پریس.ایجنچور، 04/23/95؛ جاپان اکنامک نیوز وائر، 04/24/95)۔
اپریل 25، 1995: بنگلہ دیش کی وزیر اعظم خالدہ ضیاء اور ان کی پاکستانی ہم منصب بے نظیر بھٹو نے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے مسئلے کو حل کرنے کا عہد کیا۔ 1992 میں سندھی عوام کی اس تشویش کے باعث ریپٹری ایشن معطل کر دی گئی تھی کہ اردو بولنے والے بہاری ان کے صوبے میں آبادیاتی توازن کو متاثر کریں گے، جہاں پہلے ہی مہاجرین موجود ہیں۔ (شینہوا نیوز ایجنسی، 04/25/95)۔
جولائی 10، 1995: تقریباً 50 بہاریوں نے ڈھاکہ میں پاکستان واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے آٹھ گھنٹے کی بھوک ہڑتال کی اور دھمکی دی کہ اگر کوئی کارروائی نہ کی گئی تو وہ خود کو جلا لیں گے۔ ایس پی جی آر سی کے رہنما، نسیم خان نے مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما الطاف حسین کی طرف سے علیحدہ مہاجر ریاست کے مطالبے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بہاری پاکستان میں دیگر قومیتوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ (ڈوئچے پریس.ایجنچور، 07/10/95)۔
اگست 14، 1995: تقریباً 5000 بہاریوں نے پاکستان کے یوم آزادی پر احتجاج کیا۔ فسادی پولیس نے ان کی پاکستانی سفارت خانے کی طرف مارچ کرنے کی کوششوں کو روک دیا، جہاں ایس پی جی آر سی کے 11 اراکین نے خود سوزی کرنے کی پیشکش کی تھی۔ (رائٹرز، 08/14/95)۔
اکتوبر 31، 1995:پاکستان کے وزیر داخلہ میجر جنرل نصیر اللہ بابر نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن (زیادہ تر کراچی میں) کو ملک بدر کر دیا جائے گا اور پاکستان بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے بہاریوں کو قبول نہیں کرے گا۔ بابر نے کہا کہ انہوں نے دیگر اسلامی ممالک سے کہا ہے کہ وہ ان پاکستانیوں کو قبول کریں، لیکن ایم کیو ایم نے اصرار کیا کہ پاکستان پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بہاریوں کو قبول کرے۔ (رائٹرز، 10/31/95)۔
نومبر 12، 1995: ایس پی جی آر سی کے رہنما نسیم خان نے پاکستانی حکومت کی جانب سے حال ہی میں 150 بنگلہ دیشیوں کو ملک بدر کرنے پر احتجاج کیا اور کہا کہ اس سے بہاریوں کی واپسی کے امکانات کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ ملک بدری حالیہ دھمکی کے بعد کی گئی ہے کہ مبینہ غیر قانونی تارکین وطن، جن میں سے 1.6 ملین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنگالی بولنے والے آباد کار ہیں، کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ (رائٹرز، 11/12/95)۔
14 نومبر 1995: تقریباً 130 بنگلہ دیشیوں کو پاکستان سے بے دخل کر دیا گیا (اور ڈھاکہ پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا)۔ یہ کارروائی پاکستانی حکومت کی مبینہ غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کی مہم کا حصہ تھی (رائٹرز، 14/11/95)۔
23 نومبر 1995: تقریباً 700 افراد نے بنگالی بولنے والے آبادکاروں کی جبری بے دخلی کے خلاف پاکستان میں پُرامن احتجاج کیا۔ مظاہرین، جن میں SPGRC کے اراکین بھی شامل تھے، نے الزام لگایا کہ پاکستان اس معاملے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے (رائٹرز، 23/11/95)۔
29 نومبر 1995: بنگلہ دیش نے اعلان کیا کہ وہ ان بنگالیوں کو قبول نہیں کرے گا جنہیں پاکستان سے زبردستی نکالا جا رہا ہے۔ 300 سے زائد بنگالی ڈھاکہ پہنچ چکے ہیں، اور بنگلہ دیشی حکومت نے اشارہ دیا کہ اگر وہ اپنی شہریت ثابت نہ کر سکے تو انہیں واپس بھیج دیا جائے گا۔ بنگلہ دیش نے پاکستان سے 1974 کے معاہدے کا احترام کرنے کی درخواست بھی کی ہے، جس کے تحت پاکستان کو پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لینا ہوگا (انٹر پریس سروس، 29/11/95)۔
1 دسمبر 1995: اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ بہاریوں کی واپسی کی اجازت دے۔ یہ تنظیم بنگلہ دیش میں موجود 66 کیمپوں کے لیے مالی امداد فراہم کر رہی ہے جہاں بہاری آباد ہیں (بی بی سی، 1/12/95)۔
4 فروری 1996: سیکڑوں بہاریوں نے پاکستان واپس نہ بھیجے جانے میں تاخیر کے خلاف ڈھاکہ میں احتجاج کیا۔ یہ مظاہرہ SPGRC (اعجاز دھڑے) کے تحت منظم کیا گیا تھا ،جس میں پاکستان کے حالیہ بیانات کی مذمت کی گئی کہ بہاریوں کو قبول نہیں کیا جائے گا (رائٹرز، 4/2/96)۔
11 مارچ 1996: جنوبی شہر کھلنا میں تناؤ اس وقت بڑھ گیا جب کچھ بہاریوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ ورلڈ کپ کے میچ کے آغاز پر پاکستانی پرچم لہرایا۔ اس کے جواب میں کچھ بنگالیوں نے پرچم کو آگ لگا دی (ڈیوش پریس ایجنسی، 11/3/96)۔
24 اپریل 1996: ہزاروں بہاریوں نے ڈھاکہ میں پاکستان واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرہ کیا (رائٹرز، 24/4/96)۔
جون 1996: عوامی لیگ نے وفاقی انتخابات کے بعد نئی حکومت تشکیل دی۔ شیخ حسینہ واجد، مجیب الرحمان کی بیٹی، وزیر اعظم بنیں۔ حکمران بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (BNP) کی حکومت مارچ میں شدید احتجاجات اور پرتشدد مظاہروں کے بعد مستعفی ہو گئی تھی، جس میں 130 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ عوامی لیگ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ واپسی کے عمل کی تکمیل کے لیے کوششیں کرے گی (ڈیوش پریس ایجنسی، 25/4/96؛ رائٹرز، 11/7/96)۔
10 جون 1996: 66 کیمپوں میں رہنے والے بہاریوں کی حالت بدتر بتائی جاتی ہے۔ جھونپڑی نما حالات کے ساتھ ساتھ یہاں نہ تو مناسب اسکول ہیں اور نہ ہی روزگار کے ذرائع۔ بہاریوں کو بنگلہ دیش کے شہری نہیں سمجھا جاتا، اس لیے ان کے پاس شہری حقوق نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق وہ پناہ گزین نہیں بلکہ بے گھر افراد ہیں (رائٹرز، 10/6/96)۔
4 اگست 1996: سیکڑوں بہاریوں نے ڈھاکہ میں تاخیر کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اسی دوران بنگلہ دیش نے پاکستان سے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی بے دخلی کے خلاف احتجاج کیا۔ تقریباً 19 بنگالی بولنے والوں کو کراچی میں اس وقت گرفتار کیا گیا، جب وہ ڈھاکہ سے پہنچے۔ بنگلہ دیش نے انہیں واپس پاکستان بھیج دیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ بنگلہ دیشی نہیں ہیں (رائٹرز، 4/8/96)۔
14 اگست 1996: پاکستانی سفارت خانے کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کے دوران سیکڑوں بہاریوں کا پولیس سے تصادم ہوا، اور کچھ نے پاکستان واپسی کے مطالبے پر خود کو آگ لگانے کی کوشش کی (رائٹرز، 14/8/96)۔
18 اگست 1996: پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے کہا کہ ان کا ملک پھنسے ہوئے بہاریوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، حالانکہ انہوں نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔ ڈھاکہ کے دورے کے دوران سیکڑوں بہاریوں نے شیخ کو اپنی فوری واپسی کے لیے ایک یادداشت پیش کی۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ کراچی اور اس کے گردونواح میں دس لاکھ سے زائد غیر قانونی بنگالی ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران کراچی میں اردو بولنے والوں، سندھی بولنے والوں اور سرکاری فورسز کے درمیان خونریز تصادم ہوتے رہے ہیں۔ بہاری اردو بولتے ہیں (رائٹرز، 18/8/96)۔
22 اگست 1996: پاکستان نے بہاریوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک اسلامی کوشش کا مطالبہ کیا۔ اسلام آباد نے ان خبروں کی تردید بھی کی کہ اس نے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے (ایجنس فرانس پریس، 22/8/96)۔
5 ستمبر 1996: پاکستان کے وزیر میجر جنرل داخلہ نصیراللہ بابر نے کہا کہ جب تک وہ اپنے عہدے پر ہیں، بہاریوں کو واپس نہیں لایا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ پاکستان واپس آتے ہیں تو "ناپسندیدہ سرگرمیوں” میں ملوث ہو جاتے ہیں (ایشیا ٹائمز، 5/9/96)۔
3 دسمبر 1996: کچھ بہاریوں نے پاکستان واپس جانے کی امید چھوڑ دی ہے۔ انہوں نے ایک نئی تنظیم "کمیٹی برائے بحالی غیر بنگالیوں” تشکیل دی ہے جو بہاریوں کے لیے بنگلہ دیشی شہریت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ بہت سے نوجوان بہاری بنگالی زبان بولتے ہیں اور ثقافت کو اپنا چکے ہیں۔ پہلے ہفتے میں، کمیٹی کے مطابق تقریباً 2200 خاندانوں نے شہریت کے لیے درخواست دی۔ تنظیم یہ بھی چاہتی ہے کہ حکومت بہاریوں کو کیمپوں سے باہر نکلنے دے اور مکانات اور اسکول بنانے کے لیے فنڈز فراہم کرے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے کمیٹی کی درخواستوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا (رائٹرز، 3/12/96)۔
8 فروری 1997: پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی جنرل ریپٹریشن کمیٹی (SPGRC) کو امید ہے کہ نواز شریف اور مسلم لیگ کی پاکستان میں انتخابی فتح کے بعد واپسی کا عمل جلد شروع ہو جائے گا۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں، شریف کے وزیر اعظم رہنے کے دوران، تقریباً 300 بہاریوں کو واپس بلایا گیا تھا۔ SPGRC کا کہنا ہے کہ اس کے پاکستان میں اردو بولنے والوں پر مشتمل سیاسی جماعت ایم کیو ایم سے قریبی تعلقات ہیں اور وہ واپسی کی حمایت کے لیے اس پر دباؤ ڈالے گی۔ سندھ کے نئے صوبائی حکومت میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ کا اتحاد ہے (ایجنس فرانس پریس، 8/2/97؛ ڈیوش پریس ایجنسی، 14/2/97)۔
8 مارچ 1997: سندھ کے صوبائی حکومت کے اتحاد نے بہاریوں کے مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔ سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کہتی ہیں کہ وہ بہاریوں کی واپسی کی مخالفت کرتی ہیں کیونکہ اس سے قومی اتحاد اور سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان تناؤ بڑھ جائے گا (ڈیوش پریس ایجنسی، 8/3/97)۔
24 مارچ 1997: کچھ بہاریوں نے ڈھاکہ میں ایک کھلی دعا کی تقریب منعقد کی، جب بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے ملاقات کی۔ واپسی کے مسئلے پر کوئی پیش رفت رپورٹ نہیں کی گئی (رائٹرز، 24/3/97)۔
7 جون 1997: ڈھاکہ میں ایک نجی نیوز ایجنسی "پروب” کی رپورٹ کے مطابق، کم از کم 200 بنگلہ دیشی، جن میں زیادہ تر جماعت اسلامی کے اراکین ہیں، افغانستان میں طالبان کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، بہاریوں کی ایک بڑی تعداد کو کیمپوں سے بھرتی کر کے پاکستان بھیجا جا رہا ہے تاکہ انہیں تربیت دی جا سکے (ایجنس فرانس پریس، 7/6/97)۔
2000 سے2024 تک
جنرل مشرف کا معافی کا بیان: اس عرصے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے سیاسی معاملات اور معاشی حالات میں جو اتر چڑھاؤ آئے، ان سے سب ہی واقف ہوں. لیکن محب وطن "پاکستانیوں ” کے لیے فرزندان زمین کے دلوں میں کوئی گنجائش پیدا نہ ہوسکی . دلی کے "مہاجر ڈکٹیٹر اور صدر پاکستان ” جنرل مشرف بھی جب ٢٠٠٢ میں ڈھاکہ گے تو "معافی ” بنگالیوں سے تو مانگ لی مگر ہمارے لیے کچھ بھی نہ کہا نہ لکھا . ڈان کی ایک انگریزی رپورٹ کا اردو ترجمہ کچھ یو ں ہو سکتا ہے :
"ڈھاکہ، 29 جولائی: صدر پرویز مشرف نے پیر کے روز بنگلہ دیش کی 1971 کی جنگ آزادی کے دوران کیے گئے زیادتیوں پر افسوس کا اظہار کیا، مگر ماضی کو دوستی کے جذبے کے تحت دفن کرنے کی اپیل کی۔
"پاکستان میں آپ کے بھائی اور بہنیں 1971 کے واقعات کے دکھوں کو شیئر کرتے ہیں۔ اس بدقسمت دور میں کی جانے والی زیادتیوں پر افسوس ہے،” صدر مشرف نے ڈھاکہ کے قریب قومی شہداء یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد سرکاری مہمانوں کی کتاب میں لکھا، جو جنگ میں شہید ہونے والوں کے نام ہے۔”آئیے ماضی کو سخاوت کے جذبے کے تحت دفن کر دیں۔ مستقبل کی روشنی مدھم نہ ہونے دیں۔ آئیے ہم سب مل کر آگے بڑھیں،” مشرف نے کہا، اور یہ بھی کہا کہ "سمجھوتہ کرنے کی ہمت مقابلہ کرنے سے بڑی ہوتی ہے۔”صدر مشرف نے، سرکاری بی ایس ایس نیوز ایجنسی کے مطابق، اپنے ساتھ پاکستان کے عوام کی طرف سے "اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں اور بہنوں کے لیے مخلصانہ نیک خواہشات” بھی پہنچائیں۔”ہم اس سرزمین اور اس کے لوگوں کے لیے امن، ترقی اور خوشحالی کی دعا گو ہیں،” انہوں نے کہا اور یقین ظاہر کیا کہ "ہمارے مشترکہ عزم سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دوستی پروان چڑھے گی۔ ”
شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ اور پاکستان کا یوفوریا
اگست ٢٠٢٣ میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہوئی اور پاکستان میں راتوں رات بنگلہ دیش پر ماہرین پیدا ہوگئے . شادمانی کی کیفیات سوشل اور لیگاسی میڈیا پر نمایاں رہیں . بھنگڑے ڈالے گئے، اچھی بات ہے مگر ہماری کمیونٹی کی طرف ان کے المیے کی طرف کسی نے نظر نہ ڈالی .
ایک منقسم قوم؛ بہاری کمیونٹی کے دکھوں کو نظرانداز کرنا
صحافت کے میر ہوں یا مزاحمت کی کی ماہ رنگ سب ہی بنگالیوں کی محرومی اور ویسٹ پاکستان کے اشرافیہ کا ذکر سلیکٹو انداز میں کرتے ہیں اور نہتے بہاریوں پر بیتی آفتوں کا کیا ذکر ہو جب ان کو وہ جیتے جاگتے تین لاکھ لوگ نظر نہیں آتے جو اب بھی بنگلہ دیش میں زندگی کے بدترین روپ کو سہ رہے ہیں .
اس دوران سیاستدانوں نے کیا کیا ؟ میڈیا کا کیا کردار رہا ؟ سول سوسائٹی نے کتنی مزاحمت کی ؟ ان تمام حوالوں سے پاکستان کی نا صرف آج کی نئی نسل( 13- 29 سال تک کے نوجوان ) تو بےخبر ہیں ہی ہیں بلکہ ٣٠ سے لے کر ساٹھ برس کے بظاہر ہوش مند افراد جن میں سے کئی ایک کا تعلق تو میڈیا اور ایکا دمیا سے بھی، نا صرف بے خبر بلکہ بے بہرہ، بے زار اور بے پرواہ بھی نظر آتے ہیں-ان سے زائد عمر کے بزرگوں کا ذکر "خطائے بزرگاں گرفتن خطا است رواداری ایکٹ” کے تحت نہیں کر رہی حالانکہ یہ کوئی چھوٹی غلطی نہیں ہے.
بہاری اور اردو سپیکنگ کمیونٹی کا کردار-خاموشی اور لاپرواہی
اس مجرمانہ ناواقفیت میں بہاری اور اردو سپیکنگ کمیونٹی سے نفرت اور بیزاری میں مبتلا ادیب، آرٹسٹ ، صحافیوں ، دانشوروں اور اکٹویسٹس کا جو کردار ہے وہ تو اپنی جگہ خود ہماری کمیونٹی نے بھی اپنی ذمداری نہیں نبھائی. پاکستان اور بیرون ملک مقیم ہماری کمیونٹی سے گنتی کے چند لوگ ہوں گے جو ان مصائب اور حادثات کے متعلق بات کرتے ہیں ، لکھتے ہیں یا عملی طور پر بنگلہ دیش کے اذیت خانوں جن کو کیمپس کہا جاتا ہے، وہاں محصور تین لاکھ سابقہ پاکستانیوں اور حالیہ بے نشان بدنصیب ترین لوگوں کے لیے جن کو بہاری کہا جاتا ہے، کے لیے کچھ اچھا کیا ہو.
خیرات دینا مسلے کا حل نہیں بلکہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے . یہ فریضہ کئی غیر سرکاری ادارے بشمول ڈھاکہ کا پاکستانی ہائی کمیشن کبھی کبھی سر انجام دے دیتے ہیں.
طاقت ور عہدوں اور متاثر کن رتبوں پر فائز بہاریوں اور اردو سپیکنگ لوگوں نے یا تو اپنی شاخت چھپائی یا کمیونٹی سے بے اعتنائی برتی . اکثریت نے صرف اپنی فلاح پر توجہ مرکوز رکھی اور سابقہ مشرقی پاکستان میں ہونے والے اپنی کمیونٹی کے قتل عام پر زیادہ سے زیادہ آنسو بہا کر خاموش رہے . خواتین کی حرمت کی پامالی پر بات کرنا تو اب بھی محال ہے. مہاجر سیاست کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے.
ہماری کمیونٹی میں کوئی قیادت نہیں کوئی جذبہ نہیں کوئی ہمّت نہیں . بہت سوں کو یہ بات کھلے گی اور مجھ کو خوشی ہو گی اگر یہ غلط ہو . کسی نے آج تک سوشل میڈیا پر محصورین کے لیے کوئی مؤثر مہم نہیں چلائی. کسی نے پاکستانی اور بنگلادیشی حکومتوں کو نہیں جھنجھوڑا . امریکا ،آسٹریلیا ، کینیڈا ، یو کے ، یورپ وغیرہ کی شہریت رکھنے والے پڑھے لکھے اور خوش حال بہاری اور اردو سپیکنگ پاکستانی نژاد نے اس حوالے سے اپنی انسانی اور اخلاقی ذمداریوں کو نہ تو جانا نہ ہی نبھا یا .
فلسطین کے لیے یہ لوگ فیس بک اور وہاٹس اپپ پر ڈی پی لگاتے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں میں جہاں کی حکومتیں اسرائیل کی حلیف ہیں مگر جبر کم ہے پر امن احتجاج کی اجازت ہے وہاں ان کے لیے یک جہتی کے مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں جو بہت اچھی بات ہے لیکن خود اپنی کمیونٹی کے بدنصیب ترین اور بھلا دیے جانے والے بہن، بھائیوں، بیٹے، بیٹیوں، کے لیے نہ ان کے پاس وقت ہے نہ خدمات کا جذبہ ، یا انھوں نے کبھی اس پر کچھ سوچا ہی نہیں.
بہاری اور اردو سپیکنگ نوجوانوں نے کبھی خود بھی ان معاملات میں دلچسپی نہیں لی. جب ہمیں ہی دکھ نہیں فکر نہیں جب ہم میں ہی ایم پاتھ نہیں تو مخالفین سے کیا شکایات ہوں ؟ اچھا ہو کہ اب بھی کچھ مداوہ کر لیں .
کم از کم سال میں 2-4 گھنٹے اس کاز کو دیں.
ہمارے جینو سائڈ کی داستان نئی نسل کو سنائیں. اس المیے سے وابستہ تصاویر اور تحاریر کو جمع کریں، دیکھیں ، سمجھیں اور سمجھائیں.
جو لکھ سکتے ہیں وہ ہماری سچی کہانی لکھیں . جو تھیٹر ، فلم ، پینٹنگ ، بناتے ہیں وہ اس میڈیم کا استمعال کریں . جو کھیل کود میں ہیں، وہ بھی اس کار خیر میں شریک ہوں.
عظمت اشرف صاحب ،پروفیسر جاوید محسن ملک صاحب، احتشام نظامی صاحب ، شاہین کمال صاحبہ ، فرحت پروین صاحبہ ، شبانہ نوید صاحبہ ، شہناز پروین صاحبہ ، شاہین کمال صاحبہ اور اس ناچیز کی تحاریر اور وی لاگز ( ہم سب بہاری ہیں اور مشترکہ دکھ کو جانتے ہیں ) بھی دیکھیں . عظمت اشرف صاحب کی انگریزی کتاب ریفوجی جس کا اردو ترجمہ بھی موجود ہے، وہ بھی پڑھ لیں.
سال کے کچھ خاص دن جیسے کہ سولہ دسمبر یا چودہ اگست ان میں ڈیجیٹل میڈیا پر ہی سہی آگاہی مہم ترتیب دیں.
ایسے اداروں سے روابط رکھیں جو ہماری کمیونٹی کو بااختیار بنا سکیں اور وہ ان کیمپ نما ازیت خانوں سے نکل سکیں .
کچھ نا سہی تو سوشل میڈیا پر جو کونٹینٹ ہے، اس کو لائک کریں اور ہم جیسوں کے نان فنڈڈ یو ٹیوب چینلز سبسکرائب کریں. اگر فلاحی کام کرنا چاہتے ہیں تو چیپ پروجیکشن سے دور رہیں اور اپنی کمیونٹی کی تصاویر امداد لیتے ہویے پبلک نا کریں . یاد رکھیں ان کی جگہ آپ اور میں بھی ہو سکتے تھے . وہ جس جگہ پر ہیں وہ ان کی آزمائش ہے لیکن ہم جہاں آرام سے ہیں یہ ہمارا بھی کمرہ امتحان ہے .
جن کے تعلقات طاقتور طبقات سے ہیں وہ ان کے لیے لابنگ کریں . بیرون ملک رہنے والے اپنے ایم پی کو بہاری المیے کے بارے میں آگاہ کریں .
کرنے کو بہت کچھ کیا جا سکتا ہے
انصاف اور انسانیت کا سوال
میں کئی بار لبرل ، فیمنسٹ اور پروگریسو طبقات کی فکری بددیانتی، بے رحمی اور بےحسی کا رونا رو چکی ہوں . جب یہ طبقہ ان تین لاکھ لوگوں کو جو ان بزرگوں کی چوتھی یا پانچویں نسل ہیں جو پاکستان کی طرف سے واپسی کی پرواز بھیجنے کا انتظار کر کر کے جو اپنے پاکستانی شناختی کارڈز اور ملازمتوں کے کارڈز ( میرے بچپن کی دھندلی یادوں میں وی سی آر پر دیکھی گئی ایک دستاویزی فلم بھی شامل ہے، جس میں چند بوڑھے نحیف بہاری مرد اپنے ریلوے کی ملازمت کے کارڈز کمرے کی طرف دکھاتے ہوئے التجا کر رہے تھے کہ انھیں پاکستان بلا لو) دکھا دکھا کر اس دنیا اسے چلے گئے . یہ دلیل دینا کہ وہ اب پاکستانی نہیں اور اب وہ بنگلہ دیشی ہیں کہاں کی انسانیت اور انصاف پسندی ہے ؟ یہ ان لوگوں کی اولادیں ہیں جن کو بنگالی مکتی باہنیوں نے بے دردی سے قتل کیا ، ریپ کیا ، گھر بار چھین لیے اور جب سولہ دسمبر کو ہتھیار ڈالنے کی تقریب خوش اسلوبی سے ادا کردی گی تو جو قتل عام کی ایک تازہ لہر سے بچ گیے وہ ان اذیت خانوں میں مقید کردیئے گے، جن کو ” کیمپس ” کے غلط لقب سے پہچانا جاتا ہے . آمر صدر جنرل ضیاء حب پاکستان کی سزا ١٩٧٨ میں ان کی پاکستانی شہریت چھین کر دے ڈالی . بنگلہ دیش نے نام نہاد شہریت دینے کا ڈھونگ رچایا . یہ بے سرو سامان لوگ مختلف مفاد پرست ٹولوں اور دھرے بازی کی سیاست کا شکار ہوتے رہے.
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ اسلام آباد کے پریس کلب کے سامنے جا کر زور زور سے انسانی حقوق کے چیمپئنز وکلا کو، صحافیوں کو اور مفکروں کو نام لے لے کر آواز دوں کے ہمارا ملک ہمارا وطن جبری طور پر لا پتا ہو گیا ہے ،ہماری مدد کرو یا ہم سب کو گولی مار دو ، ایک دفعہ ہی مار دو.
بہت بزدل ہوں ایسا نہیں کر پاتی . جانتی ہوں کہ ہم میں اور بنگالیوں میں اور بلوچ میں فرق ہے، ان کے پاس زمین تھی، اپنی زمین، ہم ہجرت دار ہجرت کرنے والے پاکستان کے عشاق.
واضح رہے کہ میں کسی بھی قومیت یا کمیونٹی کی محرومی اور مظلومیت کو ٹریویالائز نہیں کر رہی . میں نے تو کبھی افغان مہاجرین والا استدلال بھی نہیں چنا کہ چالیس لاکھ افغانوں کو تو مہمان بنا لیا مگر در بدر پاکستانی بہاری کمیونٹی کے لیے یہاں میزبانی کا قحط ہے . میرا دل کانپتا ہے . چشم تصور میں کوڑے کے ٹھیلے لیے ڈھاکہ کی گلیوں میں اپنی کمیونٹی کے بچے آجاتے ہیں . عورتوں کی مفلوک حالی دیکھ کر بہاری سٹائل کی ساری کے آنچل سے اپنے آپ کو لپیٹتے سمیٹے نجانے کن کن نظروں اور مشکلات سے بچاتی ہوئی اپنی بیٹیاں آجاتی ہیں . کبھی کبھی بوڑھے لوگ خیال کے منظر میں آجاتے ہیں، میر پور، محمّد پور اور کئی محلوں میں جہاں سررینڈر سے پہلے ان کے اپنے گھر تھے.
حل کیا ہے ؟ کس کے پاس ہے ؟ اور حل کون دے گا؟
ہمارے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے . ہمیں صرف اور صرف خود متحد ہو کر ریاست پاکستان سے رابطے رکھنے ہوں گے ،ان کو حقائق اور انسانیت کا واسطہ دے کرسمجھنے کی کوشس کرنی ہو گی ، ساتھ ہی ساتھ نوجوان محصورین کو نکلنے کے لیے سفارت کاری کرنی ہوگی ، بہت دشوار طلب کام ہے ، کون کرے گا ؟
حل صرف مقتدر حلقوں کے پاس ہے ، ان کو سنجیدگی اور خلوص سے ہمیں ساتھ بٹھا کر اس مسئلے کو ڈسکسس کرنا ہو گا . ڈھاکہ میں عاطف اسلم کے کامیاب کنسرٹ سے موسیقی کی عالمگیریت ایک بار پھر مستحکم ہو گئی اور امیر اور مڈل کلاس کے بنگالی نوجوانوں کو ایک اچھی تفریح مل گئی مگر کیا اس سے اور ان جیسے کئی اور علامتی تفریحی اقدامات سے ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان محبّت اور صلح ہوجائے گی ؟ بہاری المیے کو فارن پالیسی سے مائنس کر کے اور میڈیا کے چہرے سے ہٹا کر کس کو دھوکہ دیا جا رہا ہے ؟
رہنماؤں اور سیاسی شخصیات کا کردار
پاکستان کے رہنماؤں اور سیاسی شخصیات نے 1971 کے بعد بہاری کمیونٹی کے حقوق اور ان کے دکھوں کو کم کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ ان کی خاموشی اور غیرمؤثر اقدامات نے کمیونٹی کو مزید نقصان پہنچایا۔
بین الاقوامی کمیونٹی کی عدم توجہ
بین الاقوامی کمیونٹی نے بھی اس مسئلے پر توجہ نہیں دی۔ بہاری کمیونٹی کے حقوق اور ان کی مشکلات پر عالمی سطح پر کوئی بڑی آواز نہیں اٹھائی گئی، جس کی وجہ سے ان کی حالت میں بہتری نہیں آ سکی۔
نسلی فرق: بہاری کمیونٹی کی طرف سے بے پرواہی
پاکستانی معاشرت میں نسلی فرق نے بہاری کمیونٹی کی حالت کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والی بے پرواہی نے ان کے حالات کو بدتر کیا ہے اور اس کی بڑی وجہ نسلی تفاوت ہے۔
جوابدہی، ازالے اور اقدامات کی ضرورت
روح پر لگے گھاؤ کبھی بھی بھر نہیں سکیں گے . میں جو اسلام آباد میں پلی بڑھی اور بہت توہین سہی ہے اور اب بوڑھی ہو رہی ہوں اس رنج کے ساتھ ہی مروں گی کہ میرا کوئی وطن نہیں کوئی مٹی میری نہیں.
اگر پاکستان ہم جیسے بہاریوں سے معافی نہیں مانگ سکتا ، اگر ریاست بنگلہ دیش سے ہماری بربادی کا حساب نہیں مانگ سکتی اگر مسلمان اکثریت کا یہ ملک خداداد صرف تین لاکھ بے کس لوگوں کو محبّت اور عزت سے نہیں دیکھ سکتا رکھنا اور واپس بلانا تو دور کی بات ہے تو ہم الله سے آپ سب کی شکایات کریں گے .
وہ قیامت جو سر سے گزری ہے
دیکھیے کب شعور سے گزرے
( پروفیسر نظیر صدیقی مرحوم )