دنیا آج جس قدر بحرانوں میں مبتلا ہے، اس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات سے انحراف ہے۔ اقوامِ متحدہ کے Sustainable Development Goals (SDGs)، جنہیں دنیا کے سب سے بڑے مسائل کا حل سمجھا جاتا ہے، اگر غور کریں تو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں ان سب کا حل موجود ہے۔ مگر آج کا عالمی نظام ان اُصولوں کو چھوڑ چکا ہے، جس کا نتیجہ ہم غربت، ماحولیاتی تباہی، ناانصافی اور جنگوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
1 (غربت کا خاتمہ – No Poverty)
2 (بھوک کا خاتمہ – Zero Hunger)
3 (اچھے روزگار اور معاشی ترقی – Decent Work and Economic Growth)
4 (عدم مساوات کا خاتمہ – Reduced Inequalities)
آج دنیا میں 71 کروڑ سے زیادہ لوگ شدید غربت کا شکار ہیں، جہاں بنیادی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں، جبکہ امیر ممالک میں بے شمار کھانا ضائع کر دیا جاتا ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور سود پر مبنی معیشت نے امیر اور غریب کے درمیان ایک گہرا فرق پیدا کر دیا ہے، جس سے دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے اور عام آدمی کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں سود کو حرام قرار دے کر غریبوں کے معاشی جبر کو ختم کیا گیا، زکوٰۃ، صدقہ اور فلاحی ریاست کا تصور دیا گیا تاکہ دولت کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو، اور محنت کو عظمت دے کر مزدور کے حقوق متعین کیے گئے۔ اگر اسلامی معیشت کے اصولوں کو اپنایا جائے، زکوٰۃ، وقف اور فلاحی ریاست کے نظام کو نافذ کیا جائے تو یوں دنیا سے غربت اور بھوک کا خاتمہ ممکن ہے. SDG 1 (غربت کا خاتمہ) اور SDG 2 (بھوک کا خاتمہ) کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق
آج کی دنیا میں مردوں اور عورتوں کے برابر حقوق کے دعوے کے باوجود خواتین کو حقیقی عزت اور تحفظ حاصل نہیں۔ مغربی معاشروں میں آزادی کے نام پر عورت کو صرف ایک معاشی مشین بنا دیا گیا ہے، جہاں وہ گھر اور کام کے دباؤ میں پس رہی ہے۔ خاندانی نظام بکھر چکا ہے، طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، اور نفسیاتی بیماریوں کا سامنا کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کئی ممالک میں آج بھی عورت کو وراثت، تعلیم، اور فیصلہ سازی میں برابر کے حقوق حاصل نہیں۔
نبی کریم ﷺ نے عورت کو مکمل عزت دی، اسے وراثت، تعلیم، تجارت، اور قیادت کے حقوق عطا کیے، بیٹی کی پرورش کو جنت کا ذریعہ قرار دیا، اور نکاح کے ذریعے خاندانی نظام کو مستحکم کیا تاکہ عورت کو تحفظ ملے۔ اگر آج اسلامی اصولوں کو اپنایا جائے تو خواتین کو ان کے اصل حقوق مل سکتے ہیں، خاندانی نظام مضبوط ہو سکتا ہے، اور مرد و عورت دونوں مل کر ایک متوازن اور بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں.
ماحولیاتی تحفظ اور زمین کی پائیداری
دنیا میں ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس کی وجہ سے قدرتی وسائل کم ہو رہے ہیں، زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اور لاکھوں لوگ پانی کی قلت اور شدید موسمی حالات کی وجہ سے بےگھر ہو چکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے قدرتی ماحول کی حفاظت پر زور دیا اور درخت لگانے کو نہ صرف نیکی بلکہ صدقہ جاریہ قرار دیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص درخت لگائے، اور جب تک اس میں سے کوئی مخلوق کھاتی رہے، وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔” (مسند احمد)۔
ایک اور حدیث میں فرمایا: "زمین پر اعتدال سے چلو، کیونکہ یہ تمہاری ماں ہے۔” (ابو داؤد)۔
اسی طرح پانی کے ضیاع سے روکتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا: "وضو کرتے وقت بھی پانی ضائع نہ کرو، چاہے تم بہتے دریا کے کنارے ہی کیوں نہ ہو۔” (ابن ماجہ)۔
اگر ہم نبی کریم ﷺ کی ان تعلیمات پر عمل کریں تو زمین کی حفاظت ممکن ہے، اور SDG 13 (موسمیاتی ایکشن) اور SDG 15 (زمین پر زندگی کی حفاظت) جیسے عالمی اہداف آسانی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
عدل، انصاف اور پائیدار ترقی
آج دنیا میں انصاف صرف امیروں تک محدود ہو چکا ہے، جبکہ غریب اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ کرپشن، اقربا پروری اور ناانصافی عام ہو چکی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے عدل و انصاف کو سب کے لیے یکساں قرار دیا.
آپ نے فرمایا: "اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں۔” (بخاری، مسلم)۔
ایک مرتبہ قریش کی ایک معزز عورت فاطمہ بنت مخزومیہ چوری میں پکڑی گئی، تو قریش نے سفارش کی کوشش کی۔ نبی ﷺ نے سختی سے فرمایا: "تم سے پہلے قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ وہ غریبوں کو سزا
دیتی تھیں اور امیروں کو چھوڑ دیتی تھیں۔” (بخاری)۔
اگر آج اسلامی عدل و انصاف کے اصول اپنائے جائیں تو کرپشن اور ناانصافی ختم ہو سکتی ہے، اور SDG 16 (امن، انصاف اور مضبوط ادارے) کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اگر دنیا پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کو حاصل کرنا چاہتی ہے، تو اسے نبی کریم ﷺ کی زندگی سے رہنمائی لینی ہوگی، جو انصاف، مساوات، اور فلاحی نظام پر مبنی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات آج بھی دستیاب ہیں، ایک بہترین نظام کی شکل میں موجود ہیں، مگر ہم نے خود ہی انہیں ترک کر دیا ہے۔ اگر دنیا حقیقی ترقی، انصاف، اور امن چاہتی ہے، تو اسے دوبارہ نبی کریم ﷺ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔ مذہب کے فرق سے ہٹ کر دیکھا جائے تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بے شک دونوں جہانوں کے لیے رحمت کا ذریعہ ہے، اور آج کے کسی بھی سماجی مسئلے کا ایسا کوئی حل نہیں جو ہمیں آپ ﷺ کی زندگی سے نہ ملے۔ میں ایک ماحولیاتی سائنسدان کے طور پر، میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی پائیدار ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔