بلوچستان میں بدامنی: صرف آپریشن یا وسیع تر حکمت عملی کی ضرورت؟

11 مارچ 2025کی ایک عام صبح تھی، جب جعفر ایکسپریس اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ مسافر اپنی نشستوں پر بیٹھے باتوں میں مصروف تھے، کچھ کھڑکیوں سے باہر دیکھ رہے تھے، تو کچھ موبائل فون پر وقت گزار رہے تھے۔ لیکن اچانک، سب کچھ بدل گیا۔ دہشت گردوں نے ٹرین پر دھاوا بول دیا، خوف و ہراس کی کیفیت پھیل گئی، اور مسافروں کی چیخ و پکار سے فضا لرز اٹھی۔ ان میں بچے، خواتین، اور بزرگ سب شامل تھے، جن کی آنکھوں میں خوف صاف جھلک رہا تھا۔ دہشت گردوں کا یہ منصوبہ نہ صرف ریاست کے خلاف ایک گھناؤنی سازش تھا، بلکہ ایک سفاکانہ پیغام بھی تھا کہ وہ بلوچستان میں بدامنی پھیلانے سے باز نہیں آئیں گے۔ مگر وہ شاید بھول گئے تھے کہ یہ پاکستان ہے، یہاں کی سرزمین پر جب بھی دشمن نے قدم رکھا، اسے عبرت ناک انجام دیکھنا پڑا۔

پاک فوج کو جیسے ہی اس واقعے کی اطلاع ملی، ایک شاندار اور منظم آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی۔ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا تاکہ کسی بھی قیمتی جان کا نقصان نہ ہو۔ دہشت گردوں نے یرغمالیوں کو اپنی ڈھال بنانے کی کوشش کی، مگر فوج کے مستعد جوانوں نے اپنی حکمت عملی سے ان کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیئے۔ کچھ ہی گھنٹوں میں آپریشن مکمل ہو گیا، اور تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا۔ مسافروں کو بحفاظت بازیاب کرا لیا گیا، اور پاکستان نے دنیا کو ایک بار پھر دکھا دیا کہ وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ واقعہ ایک بار پھر بلوچستان میں جاری بدامنی کی یاد دلاتا ہے۔ بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، ہمیشہ سے اپنی جغرافیائی حیثیت اور قدرتی وسائل کی وجہ سے عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ مگر بدقسمتی سے، یہ صوبہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدیں ہونے کے باعث یہاں غیر ملکی عناصر کی مداخلت آسان ہو جاتی ہے، اور دشمن قوتیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں۔ بھارت، جو ہمیشہ سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں رہا ہے، بلوچستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را” یہاں پر علیحدگی پسند گروہوں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی آگ مسلسل بھڑکائی جا رہی ہے۔

پاکستان کی حکومت اور افواج کئی سالوں سے بلوچستان میں امن قائم کرنے کے لیے سرگرم ہیں، مگر حالات جوں کے توں کیوں ہیں؟ اس کی ایک بڑی وجہ وہاں کے عوام میں پایا جانے والا احساسِ محرومی ہے۔ بلوچستان میں بنیادی سہولیات کی کمی، انفراسٹرکچر کا فقدان، اور ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر نے عوام کو ریاست سے دور کر دیا ہے۔ جب دشمن قوتیں ان ہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور لوگوں کو ورغلاتی ہیں تو مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی خواہش رکھنے والے عناصر دراصل اس خطے کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ 347,190 مربع کلومیٹر پر محیط یہ خطہ سونے، تانبے، گیس، اور کوئلے کے وسیع ذخائر رکھتا ہے، جو کسی بھی ملک کی معیشت کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور مغربی ممالک نہیں چاہتے کہ پاکستان ان وسائل سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔

اس صورتحال میں پاک فوج، رینجرز، اور پولیس اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ کئی آپریشن کیے گئے، ہزاروں دہشت گرد مارے گئے، اور متعدد علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا۔ مگر امن قائم کرنے کے لیے صرف عسکری اقدامات کافی نہیں، بلکہ بلوچستان کے عوام کو احساس دلانا ہوگا کہ وہ پاکستان کا لازمی حصہ ہیں۔ ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جائیں، تعلیمی ادارے کھولے جائیں، اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کے عوام کو ریاست کے قریب لایا جائے، ان کے مسائل حل کیے جائیں، اور انہیں یہ باور کرایا جائے کہ ان کا مستقبل پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

جعفر ایکسپریس کا واقعہ بلوچستان میں دہشت گردی کے ایک بڑے مسئلے کو اجاگر کرتا ہے، مگر اس مسئلے کی جڑیں 9/11 کے بعد کے حالات میں بھی پیوستہ ہیں۔ 11 ستمبر 2001 کو جب امریکہ پر دہشت گرد حملے ہوئے، تو اس کے بعد پوری دنیا بدل گئی۔ امریکہ نے "وار آن ٹیرر” کے نام پر افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان کو بھی مجبور کیا گیا کہ وہ اس جنگ میں اس کا ساتھ دے۔ پاکستان، جس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، اس جنگ کا حصہ بن گیا۔ مگر اس فیصلے کی جو قیمت پاکستان نے چکائی، وہ ناقابلِ بیان ہے۔

اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو ناقابلِ تلافی جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ 80 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے، جن میں فوجی، پولیس اہلکار، اور عام شہری شامل تھے۔ ہزاروں خاندان اجڑ گئے، بازار، اسکول، مساجد، اور ہسپتال دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گئے۔ معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، اور غیر یقینی صورتحال نے سرمایہ کاری کے دروازے بند کر دیے۔ اس سب کے باوجود، امریکہ کا رویہ ہمیشہ مطالبات سے بھرا رہا۔ "ڈو مور” کا نعرہ بلند کیا گیا، اور پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مزید کارروائیاں کرے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پہلے ہی وہ سب کچھ کر چکا تھا جو دنیا کا کوئی دوسرا ملک نہیں کر پایا۔

پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب فوجی آپریشن کیے، جن میں ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے بڑے آپریشن شامل ہیں۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردوں کے بڑے نیٹ ورکس تباہ کیے گئے، اور ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ مگر پھر بھی پاکستان کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا رہا، اور امریکہ کے مطالبات بڑھتے چلے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ "ڈو مور” کا مطالبہ ہمیں کہاں تک لے جائے گا؟ پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر قربانیاں دیں، مگر عالمی طاقتیں آج بھی پاکستان پر انگلیاں اٹھانے سے باز نہیں آتیں۔

یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا۔ اس جنگ نے ہماری معیشت کو تباہ کیا، ہزاروں قیمتی جانیں لے لیں، اور ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنے مفادات کو ترجیح دے۔ ہمیں اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی، اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم کسی اور کی جنگ کا ایندھن نہ بنیں۔

جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہو یا 9/11 کے بعد کے حالات، دونوں ہمیں ایک ہی سبق دیتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنی ہوگی، مگر اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے۔ بلوچستان میں امن قائم کرنا ہوگا، مگر وہاں کے عوام کو ساتھ لے کر۔ دنیا کچھ بھی کہے، پاکستان کو اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے، کیونکہ اب مزید قربانیوں کی گنجائش نہیں۔

اور آب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اس تمام صورتحال کا جائزہ لے کر اپنی حکمت عملی کو بہتر بنانے کی سنجیدہ اور ہنگامی بنیادوں پر کوشش کرے۔ اس میں کو ئی شک نہیں ہمارے تمام مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب پاکستان اپنی داخلی پالیسیوں کو بہتر کرے اور خاص کر بلوچستان کے عوام کو محسوس کرائے کہ وہ پاکستانی معاشرت کا حصہ ہیں۔ بلوچستان میں امن اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہاں کی عوام کا احساسِ محرومی ہی ہے، جو صرف مذاکرات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔

پاکستانی عوام، بالخصوص بلوچ عوام، کو ایک نیا پیغام دینا ضروری ہے کہ وہ اس قوم کا اہم حصہ ہیں اور ان کے مسائل کا حل ریاست کی اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کو بلوچستان کی ترقی کے لیے اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔ صرف سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز سے نہیں، بلکہ عوامی سطح پر اقدامات سے بھی ان مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ بلوچ عوام کی شکایات اور درد کو سمجھنا اور ان کے مسائل حل کرنا پاکستان کی سلامتی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ بلوچستان میں امن کا قیام اور علیحدگی پسند تحریکوں کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب بلوچستان کے عوام کو اپنے حقوق اور انصافی مواقع ملیں گے، اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پرامید ہوں گے۔

باقی ملک دشمن عناصر کے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ !
یہ ملک ہمارے بزرگوں کی قربانیوں سے حاصل ہوا تھا، اور ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ ہمارے شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، ہماری ماں بہنوں کی قربانیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ دشمن چاہے جتنا بھی زور لگا لے، پاکستان ہمیشہ سر بلند رہے گا، کیونکہ یہ زمین ایک خواب نہیں، یہ ایک حقیقت ہے، اور اس حقیقت کو مٹانے کی طاقت کسی دشمن میں نہیں۔

پاکستان ہمیشہ زندہ رہے گا، دشمنوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں گے، مگر ہمارا سبز ہلالی پرچم ہمیشہ لہراتا رہے گا انشاء اللہ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے