محدود آمدنی میں بچت

محدود آمدنی میں بچت کیسے کی جائے؟ یا بچت کیوں ضروری ہے؟

یہ ہر مڈل کلاس اور محدود تنخواہ والے فرد کا سوال ہوتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں بہت سے طریقے ہیں، تاہم کفایت شعاری اختیار کرنا، فضولیات سے بچنا، اور "چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا” سب سے اہم ہے۔ ساتھ ہی غیر ضروری اخراجات کے تمام چھوٹے بڑے سوراخ بند کیے جائیں تو شاید محدود آمدنی میں بھی کافی کچھ بچایا جاسکتا ہے۔

میں نے گزشتہ دس سال سے ان چیزوں کو مستقل معمول بنایا ہوا ہے۔ کسی صورت فضول خرچی نہیں کرتا، غیر ضروری شاپنگ سے مجھے سخت نفرت ہے۔ آج کی محفل میں آپ احباب سے اس موضوع پر چند گزارشات کرنے جارہا ہوں تاکہ ہم محدود آمدن میں کچھ بچا سکیں۔

کفایت شعاری

اسلام نے قناعت اور کفایت شعاری اختیار کرنے کو بہت پسند کیا ہے۔

اللہ کے پیارے حبیب نے قناعت کو بہت بڑی نعمت قرار دیا گیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے:
"قد أفلح من أسلم، ورُزق كفافاً، وقنَّعه الله بما آتاه” (مسلم: 1054)
ترجمہ: وہ شخص کامیاب ہوگیا جو اسلام لایا، اسے بقدر ضرورت رزق ملا اور اللہ نے اسے عطا کردہ چیزوں پر قناعت دے دی۔

غیر ضروری اخراجات

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ غیر ضروری اخراجات ہیں۔ ہمارا کافی سارا بجٹ غیر ضروری بعض دفعہ لایعنی امور میں صرف ہوجاتا ہے۔ حالانکہ قرآن میں اسراف اور فضول خرچی سے سختی سے منع کیا گیا ہے:

"إِنَّ ٱلْمُبَذِّرِينَ كَانُوا۟ إِخْوَٰنَ ٱلشَّيَٰطِينِ” (سورہ الاسراء: 27)
ترجمہ: فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔

ہمیں ہر حال میں فضول خرچی اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرنا چاہیے ۔

اخراجات آمدنی کے مطابق ہوں

ہم سب جانتے ہیں کہ آج کے مشکل وقت میں جہاں مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے، وہاں آمدنی اور اخراجات میں توازن برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اکثر لوگ اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں قرضوں کا بوجھ، مالی پریشانیاں اور ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اسلام اور عقلِ سلیم دونوں ہمیں اسراف سے بچنے اور وسائل کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے۔

"اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ رکھو (یعنی ضرورت سے زیادہ کنجوسی نہ کرو) اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو کہ پھر ملامت زدہ اور بے بس ہو کر بیٹھ جاؤ۔” (سورۃ بنی اسرائیل: 29)

اس آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نہ تو کنجوسی کرنی چاہیے اور نہ ہی فضول خرچی، بلکہ اعتدال کا راستہ اپنانا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اسراف سے منع فرمایا اور سادہ زندگی گزارنے کی تلقین کی۔

معاشی لحاظ سے بھی اگر کوئی شخص اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کرتا ہے، تو وہ یا تو قرضوں میں ڈوب جاتا ہے یا پھر ہمیشہ مالی دباؤ میں رہتا ہے۔ اگر ہم آمدنی سے زیادہ خرچ کریں گے تو نہ صرف اپنی زندگی مشکلات میں ڈالیں گے بلکہ اپنے خاندان اور آنے والی نسلوں کو بھی مالی عدم استحکام میں دھکیل دیں گے۔ اسی لیے سادہ طرزِ زندگی، متوازن اخراجات، اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔

حلال اور بابرکت کمائی

انسان کی کمائی اگر محدود بھی ہو، مگر حلال کی ہو تو اس میں بے تحاشا برکت ہوتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"إن الحلال بيِّن وإن الحرام بيِّن” (بخاری: 52)

ترجمہ : حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے۔

اسی حدیث میں حرام کیساتھ مشتبہ چیزوں سے بھی بچنے کی تلقین ہے۔ اگر ہم مشتبہ چیزوں سے نہیں بچ سکتے تو کم از کم صریح حرام چیزوں سے تو ہرحال میں بچیں۔ محدود آمدنی میں بچت کے لئے کمائی کا حلال ہونا لازم ہے۔

سادہ زندگی

کیا ہم سب یہ بات نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی زندگیاں سادگی کا نمونہ تھیں۔ لہذا ہمیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سادگی اپنانی چاہیے تاکہ سنت پر عمل کے ساتھ بچت بھی ہوجائے۔

ماہانہ بجٹ بنانا

محدود آمدنی میں متوازن اور مؤثر ماہانہ بجٹ بنانا ضروری ہے۔ میرا اپنا معمول ہے۔ جیب میں ایک چھوٹی سی ڈائری رکھی ہوئی ہے جس میں ہر ماہ کا بجٹ بنا ہوا ہے، بالخصوص جن جن کو ادائیگی کرنی ہے وہ سب لکھا ہوا ہے، اس سے بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔ ماہانہ بجٹ بنانے کے لیے درج ذیل نکات پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

1. آمدنی کا واضح تخمینہ لگائیں

نکتہ نمبر ١: سب سے پہلے اپنی ماہانہ کُل آمدنی کا حساب لگائیں، چاہے وہ تنخواہ ہو، کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم ہو یا کوئی اور ذریعۂ آمدن۔

نکتہ نمر٢: اخراجات کو دو حصوں میں تقسیم کریں

ضروری اخراجات:

گھر کا کرایہ، بجلی، گیس، پانی کے بل، راشن، بچوں کی فیس، دوا وغیرہ۔

غیر ضروری اخراجات:

تفریح، باہر کھانے پینے، نئے کپڑوں یا غیر ضروری اشیاء کی خریداری۔ وغیرہ، پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ غیر ضروری اخراجات سے حتی الوسع گریز کریں۔

نکتہ نمبر ٣: بچت کو ترجیح دیں

ہر ماہ آمدنی کا کم از کم 10-20 فیصد لازمی بچائیں تاکہ ہنگامی حالات یا مستقبل کی ضروریات کے لیے محفوظ رہے۔ اگر آمدنی زیادہ ہے تو 40 فیصد بھی بچایا جاسکتا ہے، اور اگر بہت کم ہے تو 3 فیصد بھی بچانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کسی اسلامی بینک میں ایک کفالہ لیجیے، جس میں ہر ماہ ایک رقم جمع ہوجائے گی۔ یوں پتہ بھی نہیں چلے گا اور ایک عرصہ بعد بڑی رقم جمع ہوجائے گی۔

نکتہ نمبر ٤: قرض سے گریز کریں

اگر پہلے سے قرض ہے تو سب سے پہلے اسے اتارنے کی کوشش کریں اور غیر ضروری قرض لینے سے بچیں۔

نکتہ نمبر ٥: مہنگائی کے حساب سے خریداری کریں

سیل اور ڈسکاؤنٹ کا فائدہ اٹھائیں۔ زیادہ خرچ ہونے والی اشیاء (آٹا، چاول، دالیں وغیرہ ) ایک ساتھ خریدیں تاکہ بار بار مہنگی نہ لینی پڑیں۔ اور ہاں غیر ضروری برانڈڈ اشیاء کی بجائے سستی اور معیاری چیزوں کو ترجیح دیں۔

نکتہ نمبر ٦: اضافی آمدنی کے ذرائع تلاش کریں

اگر ممکن ہو تو فری لانسنگ، آن لائن کام، یا پارٹ ٹائم جاب جیسے مواقع تلاش کریں تاکہ آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ ہر انسان اپنی صلاحیتوں کے مطابق اضافی آمدنی کی ترتیب بنا سکتا ہے۔ لازمی نہیں کہ اضافی آمدن بہت زیارہ ہو، تھوڑی سی بھی ہو مگر ہو ۔

نکتہ نمبر ٧: بجٹ کا ماہانہ جائزہ لیں

ہر مہینے کے آخر میں اپنے اخراجات کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہاں کمی یا بہتری کی گنجائش ہے۔ اور جتنا ممکن ہو بجٹ میں کفایت شعاری کی کوشش کریں۔

اللہ کا حصہ

محدود آمدنی میں بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی پوری ترتیب ہونی چاہیے۔ اگر کم آمدنی میں بھی اللہ کا حصہ ہو تو بہت برکت اور بچت ہوگی۔ اللہ کے ہاں زیارہ خرچ کرنے کی ترغیب نہیں بلکہ خلوص نیت سے جو کچھ ہو، اس میں سے خرچ کرنا افضل ہے۔

اللہ تعالیٰ فرمان ہے:

"وَأَنفِقُوا۟ مِمَّا رَزَقْنَٰكُم” (البقرہ: 254)

ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے خرچ کرو۔

محدود آمدنی ہو یا زیادہ، ضروری ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں کچھ نہ کچھ خرچ ضرور کریں۔ جتنا ممکن ہو، مساکین، یتیموں اور ضرورتمندوں کی مدد کریں۔

یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خرچ کرنے سے مال گھٹتا نہیں، بلکہ بڑھتا ہے۔ آج اگر غیر مسلم مالدار ہیں تو اس کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے رزق میں بے تحاشا خرچ بھی کرتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"ما نقصت صدقة من مال” (مسلم: 2588)

ترجمہ: صدقہ مال کو کم نہیں کرتا، بلکہ بڑھاتا ہے۔

ہمارا یہ ایمان ہے کہ صدقہ دینے سے مال میں کبھی کمی نہیں ہوتی، بلکہ برکت اور اضافہ ہوتا ہے۔ محدود آمدنی میں صدقہ دینے کے کئی آسان طریقے ہیں۔ روزانہ یا ہفتہ وار کچھ نہ کچھ ضرور نکالیں، چاہے وہ چند روپے ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اگر بندہ تنخواہ دار ہے تو ہر تنخواہ سے کچھ رقم صدقہ کی سب سے پہلے الگ کریں۔ اگر کسی شخص کی مالی حالت بہت زیادہ کمزور ہو تو کسی کو اچھے الفاظ کہنا بھی صدقہ ہے۔ تو اچھے الفاظ سے بھی صدقہ کیا کریں تاکہ رزق میں برکت آجائے ۔

یہ بات طے ہے کہ محدود آمدنی میں بھی اگر انسان اپنی ضروریات کا صحیح تعین کرے، کفایت شعاری اپنائے، اور غیر ضروری اخراجات ختم کرے، تو بچت ممکن ہے۔ اس بچت میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، تو یہ نہ صرف مال میں برکت کا سبب بنتا ہے بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔ تو آئیں! بچت کی عادت ڈالیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے