دنیا میں جتنی بھی اقوام ہیں، وہ اپنی تاریخ، ثقافت اور روایات کے ذریعے پہچانی جاتی ہیں۔ کچھ اقوام اپنی عسکری طاقت کی وجہ سے معروف ہیں، کچھ اپنے فنونِ لطیفہ اور علمی ورثے کی بنا پر، اور کچھ اپنے اصولوں اور طرزِ حیات کی وجہ سے۔ پختون قوم ان اقوام میں سے ہے جو اپنی غیر متزلزل روایات، مہمان نوازی، جرات، اور عزت و ناموس کے اصولوں کی وجہ سے دنیا میں منفرد مقام رکھتی ہے۔ لیکن افسوس کہ تاریخ میں بارہا ایسی سازشیں رچائی گئیں کہ اس امن پسند قوم کو ظلم و جبر کی صلیب پر چڑھایا گیا.
یہ ایک المیہ ہے کہ جب بھی کوئی سانحہ، بم دھماکہ، یا قتل و غارت گری کی خبر آتی ہے، تو اس کا تعلق زیادہ تر پختونخوا اور بلوچستان سے ہوتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا ایک سوچی سمجھی حکمت عملی؟ پختونخوا میں قتل ہونے والے علماء، بے گناہ شہری، اور معصوم بچوں کی چیخیں صرف دیواروں سے ٹکرا کر معدوم ہو جاتی ہیں، مگر کوئی انصاف کی صدا بلند نہیں کرتا۔
ابھی کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے کہ جمعہ کے روز، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ایک ہولناک خودکش حملہ ہوا، جس میں مولانا حمید الحق حقانی خودکش حملے میں شہید ہوگئے، جہاں حملہ آور نے جمعہ کی نماز کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں چھ افراد جاں بحق اور 18 زخمی ہوگئے۔
اس کے بعد چار مارچ کو پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے خیبر پختونخوا میں ایک سیکیورٹی تنصیب پر بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد جاں بحق ہو گئے۔
اور یہی نہیں اس ہفتے کو پشاور کے اُرمڑ بالا میں مدرسہ و مسجد میں دھماکے سے مفتی منیر شاکر شہید اور تین افراد زخمی ہو گئے۔ مگر فساد فی الارض یہیں تک ختم نہیں ہوئی بلکہ اج یہ خبر موصول ہوئى کہ کوئٹہ ائیرپورٹ روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مفتی عبدالباقی نورزئی شہید ہوگئے۔ یہ کچھ ہی واقعات ہیں جن کا میں نے ذکر کیا، ان واقعات کے علاوہ اور بھی بہت سے واقعات ان پندرہ دنوں کے اندر اندر رونما ہوئے ہیں۔
یہ سوال اپنی جگہ انتہائی اہم ہے کہ کیا واقعی ریاست اور حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کر پا رہے ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر ہر روز خبروں میں بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، مدرسوں پر حملے اور عام عوام کے قتلِ عام کی داستانیں کیوں نظر آتی ہیں؟
ریاست کا بنیادی تصور کیا ہے؟
تھامس ہابس، جان لاک اور روسو جیسے فلسفیوں نے ریاست کے وجود کو ایک اجتماعی معاہدے یعنی سوشل کنٹریکٹ (Social Contract ) کے طور پر دیکھا ہے۔ فلسفۂ سیاست میں ریاست کو "معاہدہ” کہا جاتا ہے، جہاں عوام اپنے کچھ حقوق ریاست کے سپرد کرتے ہیں اور بدلے میں امن و امان کی ضمانت لیتے ہیں۔ مگر جب ریاست خود ہی بے حسی کا مجسمہ بن جائے، جب اس کے ادارے مظلوم کے بجائے ظالم کے محافظ بن جائیں، تو معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے۔ تھامس ہوبز نے ریاست کو "لیوایتھن” (ایک دیوہیکل مخلوق) سے تشبیہ دی تھی، جس کا کام طاقت کو قابو میں رکھنا تھا تاکہ امن قائم رہے۔ مگر اگر یہی لیوایتھن اپنی طاقت کے بل پر ایک مخصوص قوم کو ہی نشانہ بنانے لگے، تو کیا وہ ریاست کہلانے کے قابل رہتی ہے؟ جان لاک کہتا ہے کہ اگر ریاست اپنے شہریوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکتی، تو وہ اپنی قانونی حیثیت کھو دیتی ہے۔ روسو مزید کہتا ہے کہ جب حکومت عوام کے حقوق پامال کرے، تو عوام کو مزاحمت کا پورا حق حاصل ہے۔
اگر ہم پاکستان میں پختونوں کی صورتحال پر ان اصولوں کا اطلاق کریں، تو ہمیں ایک سنگین حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب پختونخوا میں دھماکے ہوتے ہیں، جب علماء کو قتل کیا جاتا ہے، جب معصوم بچوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور جب ریاستی ادارے مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہتے ہیں، تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
ارسطو کہتا تھا کہ "انسان فطری طور پر ایک سماجی حیوان ہے”۔ اس کی نفسیاتی ساخت ایسی ہے کہ وہ محبت اور بھائی چارے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر جب ایک قوم کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جائے، تو اس کی نفسیاتی حالت پر کیا اثر پڑتا ہے؟
پختونوں کے بچوں نے بچپن میں کہانیاں سننی تھیں، مگر وہ جنگ کی داستانیں سن رہے ہیں۔ انہیں کھلونے ملنے چاہیے تھے، مگر ان کے ہاتھ میں لاشوں کے کفن آرہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اس مسلسل تشدد نے پختونوں کی اگلی نسل کو کیسا ذہنی دباؤ دیا ہے؟ کیا ہم نے غور کیا ہے کہ ایک امن پسند قوم کو کس طرح غیر محفوظ اور بے یار و مددگار بنا دیا گیا ہے؟ اکثر و بیشتر مجھے یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ پختون تو تشدد پسند اور جنگ پسند قوم ہیں۔ آئیے اس فقرے کی حقیقت جانتے ہیں۔
کیا واقعی پختون تشدد پسند اور جنگ پسند قوم ہے؟
یہاں یہ سوال نہایت اہم ہے کہ آیا پختون واقعی تشدد اور جنگ پسند ہیں؟ اگر ہم پختون ثقافت کا گہرا تجزیہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ ان کے اجتماعی اصول—مہمان نوازی، جرگہ سسٹم، اور پشتونولی—امن، رواداری، اور انصاف پر مبنی ہیں۔ اگر کوئی قوم فطری طور پر جنگجو یا تشدد پسند ہو، تو وہ انصاف کے ایسے پیچیدہ اور پرامن نظام کیوں وضع کرے گی جو صدیوں سے قائم ہیں؟ پختونولی میں "میلمستیا” (مہمان نوازی) ایک مقدس فریضہ ہے، جہاں دشمن بھی امان پاتا ہے، اور جرگہ سسٹم قبائلی سطح پر تنازعات کو بغیر خون بہائے حل کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ اگر جنگ پسندی پختونوں کی فطرت ہوتی تو وہ دشمن کے لیے بھی ”ناناواتے“ یعنی پناہ دینے کا اصول کیوں مقدس مانتے؟ حقیقت یہ ہے کہ پختونوں کی تاریخ نے انہیں مسلسل حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت پر مجبور کیا، جس نے ان کی جنگی مہارت کو جنم دیا، مگر اسے ان کی فطرت یا پسند سے جوڑنا ایک مغالطہ ہوگا۔ پختون ایک جنگجو قوم ضرور ہیں، مگر جنگجو ہونے اور جنگ پسند ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے—یہ فرق اسی وقت سمجھ میں آتا ہے جب ہم تاریخ کو تعصب کے بجائے منطقی، اور انسانی فطرت کے اصولوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
اب ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
1)سب سے پہلے تو پختونوں کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے لانی ہوگی۔ انہیں صرف جنگجو کے طور پر نہیں، بلکہ دانشور، شاعر، سیاستدان، اور انسان دوست قوم کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔
2) ریاست کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ حکومت اگر واقعی امن چاہتی ہے، تو اسے انصاف فراہم کرنا ہوگا۔ دہشت گردوں، تشدد پسندوں اور شر پسندوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنی ہوگی۔ صرف مذمت کافی نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
3) بین الاقوامی برادری کو اس مسئلے پر متوجہ کرنا ہوگا۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی خاموشی توڑیں، اپنی تاریخ کو یاد رکھیں، اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایک پرامن اور محفوظ کل کا تحفہ دیں۔ ظلم کی سیاہ رات جتنی بھی طویل ہو، آخر کو صبح کا سورج طلوع ہو کر ہی رہتا ہے۔