تمہید
اسلامی شریعت ایک جامع اور زندہ و جاوید نظامِ حیات ہے، جو کہ ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم اس کو کام میں لانے کے لیے مسلسل حرکت اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر دور کے اندر انسانی احوال میں در آنے والی تبدیلیاں اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ انہیں توجہ اور بصیرت سے دیکھا جائے اور یوں ضروری اجتہاد کے لیے مطلوبہ غور و خوض سے کام لیا جائے۔ عصرِ حاضر میں مسلم اُمہ کو جن نئے چیلنجز کا سامنا ہے، ان کے حل کے لیے فقہی اجتہاد اور جدید تناظر میں شرعی اصولوں کی تطبیق ایک ناگزیر امر ہے۔ ذیل میں ہم مسلم دنیا کے چند اہم عصری مسائل پر طائرانہ روشنی ڈالتے ہیں، جنہیں فقیہانہ توجہ کی شدید ضرورت ہے۔ ہم بظاہر اس طرح اظہار کریں یا نہ کریں لیکن امہ کو بعض بڑے اور شدید قسم کے درپیش مسائل نے سخت اضطراب میں مبتلا کیا ہے۔ غالب اکثریت ایک عجیب طرح کی کشمکش میں مبتلا ہے اور اسے بے شمار معاملات میں الجھنوں کا سامنا ہے لیکن کوئی توجیہ سمجھ نہیں آ رہی۔
1۔ جدید معاشی نظام اور اسلامی مالیات
موجودہ دور میں سرمایہ داریت اور اشتراکیت کے زیرِ اثر معاشی نظاموں نے سود، غیر شفاف تجارتی طریقوں اور غیر منصفانہ تقسیمِ دولت کو زبردست فروغ دیا ہے۔ ان حالات میں خود مسلم امہ امارت اور غربت کے دو واضح دھاروں میں تقسیم ہو گئی ہے جن کے درمیان بے شمار فکری، سماجی، معاشی، نظریاتی اور تہذیبی تضادات ظہور میں آئے ہیں۔ اسلامی بینکنگ، کرپٹو کرنسیز، مضاربت، شراکت اور اسلامی تکافل جیسے شعبوں میں فقہی اجتہاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ سود سے پاک ایک متبادل نظام کو دنیا میں فروغ دیا جا سکے، اس جدید مالیاتی آلات (جیسا کہ اسٹاک مارکیٹ وغیرہ) کی شرعی حیثیت واضح ہو، اس طرح زکوٰۃ اور صدقات کے موثر استعمال سے غربت کا خاتمہ ممکن ہو جائے۔ ہر کام کے لیے حکومتوں کی جانب دیکھنا اور خود عوامی سطح پر وہ کام نہ کرنا جن کا کرنا نہ صرف ممکن ہے بلکہ حد درجہ ضروری بھی مثلاً غربت کا خاتمہ وغیرہ تو یہ سخت معیوب ہے۔ اہل ثروت اور اہل دانش مل کر ایسی سٹریٹیجیز بنا سکتے ہیں جن سے بے شمار مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
2۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور شرعی احکام
جدید ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ کئی فقہی سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں مثلاً مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کا اسلامی اخلاقیات کے تناظر میں عملی جائزہ۔ اس طرح جینیٹک انجینئرنگ اور کلوننگ کی شرعی حیثیت، اس طرح ڈیجیٹل کرنسیز ( مثلاً بٹ کوائن، ایسٹر وغیرہ) کا فقہی تجزیہ، اس طرح سوشل میڈیا کے اثرات اور استعمال کا جائزہ نیز اس پر شرعی پابندیوں کا تعین وغیرہ۔
3۔ خاندانی نظام اور عصری چیلنجز
خاندان اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے، لیکن آج اسے متعدد مسائل درپیش ہیں مثلاً طلاق اور خلع کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ان میں ایک سوال تدارک کے حوالے سے کہ تدارک کیسے کیا جائے اور دوم موجودہ حالات میں تطبیق کیسے ہو؟، اس طرح گھریلو تشدد اور عورتوں کے حقوق کا شرعی حل، اس طرح بچوں کی تربیت اور جدید تعلیمی نظام سے ہم آہنگی، اس طرح مخلوط معاشرے (Mixed Society) میں پردے اور اختلاط کے حدود کا تعین وغیرہ۔
4۔ سیاسی نظام اور اسلامی حکومت
مسلم ممالک میں جمہوریت، آمریت اور مذہبی تنظیموں کے درمیان شدید کشمکش جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شورائی نظام (جمہوریت اور خلافت کا موازنہ) پر ازسرنو ایک جامع فقہی بحث کا آغاز ہو۔ اس طرح اقلیتوں کے حقوق اور ان کی شرعی حیثیت واضح کی جائے، اس طرح دہشت گردی اور جہاد کے درمیان فرق کو اجاگر کیا جائے۔
5۔ ماحولیاتی تحفظ اور اسلامی تعلیمات
ہمہ جہت آلودگی، موسمیاتی تبدیلی، عالمی گرمائش اور قدرتی وسائل کا ضیاع ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اسلام میں پانی، ہوا اور زمین کی حفاظت کو باقاعدہ ایک عبادت کی طرح اہم قرار دیا جائے، اس طرح فضائی آلودگی اور پلاسٹک کے استعمال پر شرعی پابندیاں لگانے پر بھی غور کیا جائے، اس طرح حیوانات کے حقوق، تحفظ اور ان کے استعمال کی حدود و قیود متعین کیے جائیں۔
6۔ طبّی اخلاقیات (Medical Ethics) اور اسلامی فقہ
جدید میڈیکل سائنس نے کئی طرح کے نئے سوالات پیدا کیے ہیں مثلاً اعضاء کی پیوندکاری (Organ Transplantation) کی شرعی حیثیت، اس طرح اسقاطِ حمل (Abortion) کے جواز کی حدود، اس طرح یوتھینیشیا (مرضی سے موت) کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ، اس طرح ذہنی صحت اور ڈپریشن کا شرعی علاج زیر غور لانا وغیرہ پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
7۔ بین المذاہب تعلقات اور اسلام
آج کل مختلف وجوہ سے عالمی سطح پر مذہبی تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ دوسرے مذاہب کے ساتھ تعلقات کی شرعی حدود واضح ہو، چند ایسے ذرائع اور طریقوں کی نشان دہی ضروری ہے کہ جن سے تناؤ میں کمی اور باہمی قبولیت میں اضافہ ہو۔ اس طرح دعوتِ دین کے جدید طریقوں (سوشل میڈیا اور دوسرے ڈیجیٹل ذرائع) پر غور کیا جائے، اس طرح تکفیری رویوں کی روک تھام کے لیے فقہی رہنمائی دی جائے۔
8۔ تعلیمی نظام اور دینی علوم کی جدید تشکیل
مسلم نوجوانوں کو دینی و دنیاوی علوم میں توازن کی ضرورت ہے مثلاً دینی مدارس کو جدید علوم سے ہم آہنگ کرنا، اس طرح عصری تعلیم میں اسلامی اقدار کی شمولیت ممکن بنانا، اس طرح سائنسی تحقیقات اور اسلامی تعلیمات کے درمیان ایک نظری ہم آہنگی پر توجہ دینا وغیرہ۔
مسلم اُمہ کو درپیش یہ چند ایک نمائندہ مسائل صرف فقیہانہ اجتہاد اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق شرعی حل سے ہی سلجھائے جا سکتے ہیں۔ علماء، مفکرین، حکمرانوں اور سائنسدانوں کو مشترکہ طور پر ان مسائل کے اوپر غور کرنا چاہیے تاکہ اسلام کی جامعیت اور عالمگیریت کو برقرار رکھا جا سکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے فقہی ذخیرے کو جدید چیلنجز کے مطابق ڈھالیں اور اُمتِ مسلمہ کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
"یقیناً اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔” (القرآن، الرعد: 11)