گزشتہ دس پندرہ برسوں سے پاکستان میں گویا انسانوں پر رنگ بہ رنگ بیماریوں نے ایک یلغار سا کیا ہے۔ بچے، جوان، خواتین اور بزرگ سب مہلک بیماریوں کے نشانے پر ہیں۔ بڑی عمر سے تصور کیے جانے والی بیماریاں اب بکثرت بچوں اور جوانوں کو لگ رہی ہیں جن سے نہ صرف قومی اور نجی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ علاج معالجے کی سہولیات پر صرف ہو رہا ہے بلکہ زندگی اور صحت کا معیار بھی مسلسل گر رہا ہے۔ ہر گھر میں کم و بیش آدھے افراد کو کوئی نہ کوئی عوارض لاحق ہوتے ہیں اور کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا کہ جس میں ہسپتال کی جانب رخ نہیں ہوتا۔ اچھی صحت برقرار رکھنے میں عمومی طرزِ زندگی کو بڑا عمل دخل حاصل ہے۔ بیماریوں کا شکار بننے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے طرز زندگی میں تھوڑی بہت بہتری لا کر بیماریوں کی روک تھام میں کامیاب ہو جائیں۔ بیماریاں ہر آن ایسے جسموں کی تلاش میں رہتی ہیں جہاں وہ آسانی سے ڈھیرے ڈال سکیں بس ہمارے جسم بیماریوں کے مسکن نہیں ہونے چاہئیں۔
اس کے علاؤہ عام لوگوں میں تحمل، نرمی، معاملہ فہمی، پُرسکون انداز میں اپنے متعلقین کو مخاطب کی صلاحیت بھی روز بہ روز کم ہو رہی ہے۔ لڑائی جھگڑوں، تنازعات، شور شرابہ اور گالم گلوج میں بے تحاشہ اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ سماج میں ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی صحت سے متعلق عوارض دن بہ دن بڑھ رہے ہیں یہ ایک بہت تشویش ناک صورتحال ہے۔ آئیے پاکستان کے تناظر میں ایک متوازن، صحت مند اور پُرسکون طرز زندگی کا معمول ترتیب دینے کی کوشش کرتے ہیں، یاد رہے اس معمول میں اچھی صحت، متوازن پیشہ ورانہ زندگی، خوش گوار خاندانی تعلقات، ذاتی تحفظ کا اہتمام، روحانی تسکین کا حصول، ذہنی طمانیت کا احساس اور سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی کو یکجا کیا گیا ہے۔ روز کا یہ معمول پاکستانی ثقافت، موسمی حالات اور معاشرتی اقدار کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔
صبح کی شروعات (5:30 بجے سے 7:00 بجے تک)
1. جسمانی صحت:
فجر کی نماز کے بعد پندرہ بیس منٹ کی ہلکی پھلکی ورزش یا واک لازم رکھیں۔ اس طرح صبح کی سیر (اگر پارک یا محفوظ جگہ دستیاب ہو) تو بہترین ذہنی اور جسمانی اثرات رکھتی ہے۔ اس طرح نہار منہ ایک ڈیڑھ گلاس نیم گرم سادہ پانی یا شہد اور لیموں ملا پانی پینا بہترین عادت ہے۔
2. روحانی صحت:
علی الصبح تلاوتِ قرآن کریم یا دیگر مسنون ذکر و اذکار کا اہتمام بہترین روحانی اثرات رکھتا ہے۔ اس طرح روزانہ کی بنیاد پر دعائیں مانگنا اور چند نیک مقاصد کا تعین کرنا (مثلاً: "آج میں صبر اور محنت سے کام کروں گا”)۔
3. خاندانی تعلق:
گھر والوں کے ساتھ ناشتے پر بیٹھنا (اگر ممکن ہو) بہترین عادت ہے۔ صبح صبح دسترخوان پر سب کے ساتھ مل بیٹھنا دن کا ایک طمانیت بخش آغاز ہے۔ والدین کے پاس چند لمحے بیٹھ کر ان سے باہمی دلچسپی کے مختلف امور مختصر پر بات چیت کا تبادلہ انسان کو پُرسکون رکھنے میں ایک بڑا کاریگر نسخہ ہے۔
ناشتہ اور صبح کی تیاری (7:00 بجے سے 8:00 بجے تک)
غذائیت: صبح کے وقت ناشتے سے قبل اگر موڈ اور استطاعت ہو تو سیب کھانا بہتر ہوتا ہے۔ پاکستان میں غذائی ضروریات کے مطابق ایک متوازن ناشتہ انڈے، دلیے، یا دال چنا سے مل کر بنتا ہے۔ چائے میں میٹھاس ہمیشہ مناسب رکھیں اور پراٹھے کے بجائے سادہ روٹی کو ترجیح دے۔ اس کے بعد دن بھر کا شیڈول دیکھنا، یعنی ضروری کاموں کی فہرست کو ذہن میں ترتیب دینا۔
پیشہ ورانہ مصروفیات (8:00 بجے سے 5:00 بجے تک)
1. دفتر/کام کی جگہ:
ترجیحات: اہم کاموں کو پہلے نمٹانا اور پھر ہر مناسب وقفے کے بعد چند لمحوں کے لیے آرام کریں یا چہل قدمی۔ اس طرح اگر کسی کام کے غرض سے باہر نکلنا پڑے تو ماسک اور ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال (خصوصاً گرمی یا فضائی آلودگی کے دوران)۔ دوپہر کو کھانے کا وقفہ کریں۔ دوپہر کے کھانے میں آلو گوشت، سبزیاں، دالیں، سلاد اور کم تلی ہوئی غذائیں لیا کریں۔ گرمیوں میں دہی یا لسی کا استعمال بہترین ہوتا ہے۔
2. ذہنی صحت:
کام کے دوران ڈیجیٹل ڈیٹاکس ضرور لیں یعنی ہر ایک گھنٹے کے بعد دو ڈھائی منٹ کے لیے آنکھوں کو آرام دیں۔ کولیگز کے ساتھ ملتے وقت ہمیشہ مثبت سوچ اور رویہ برقرار رکھیں، ان کے ساتھ بات چیت کے دوران مختصر دعائیہ کلمات آدا کریں۔ کام کے دوران کام کرنے والوں کے ساتھ آپ کا انداز خوش گوار، معتدل اور سنجیدہ ہونا چاہیے، سینئرز کا دل سے احترام کریں، جونیئرز پر مہربان رہیں اور برابر والوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ نرمی سے بولیں، توجہ سے سنیں، احترام سے ملیں اور باہمی تعاون سے رہیں، موقع بہ موقع مسکرا کر مخاطب کریں اور ہر موقع کی مناسبت سے اچھے کلمات کا تبادلہ کریں۔ یاد رہے طویل خوش گپیاں بالکل نہ ہو یہ دفتری کاموں اور آداب سے مطابقت نہیں رکھتی۔
دوپہر کے بعد (5:00 بجے سے 7:00 بجے تک)
1. یہ وقت خاندان کے ساتھ گزرنا چاہیے یعنی بھال بچوں کے ساتھ گھر کے کام کاج، ہوم ورک یا کسی بھی دوسری سرگرمی میں حصہ لیا کریں۔ یاد رکھیں اگر آپ افراد خانہ کو وقت اور توجہ نہیں دیں گے تو "سمارٹ سکرین” کا اژدھا ان کو نگل جائیں گے اور آپ بالکل تنہا رہ جائیں گے، اس طرح بزرگوں سے بھی بات چیت کرتے رہا کریں یہ سکون، خوشی اور سعادت مندی کا ذریعہ ہے۔ گھر کے عمومی کاموں سے لاتعلق نہ رہیں، کبھی کبھی کچن کا وزٹ کریں اور خواتین کی مناسب انداز میں حوصلہ افزائی و رہنمائی کیا کریں۔
2. جسمانی سرگرمی:
چہل قدمی لازم پکڑیں خواہ گھر سے باہر ہو یا پھر اندر لیکن ضرور کریں (اکثر و بیشتر علاقوں میں شام کی ہوا صاف اور شفاف ہوتی ہے)۔ قریبی مقامات تک جانا ہو تو خود واک کر کے جائیں گاڑی یا موٹر سائیکل کا استعمال زیادہ نہ کریں۔
3. سماجی ذمہ داری:
پڑوسیوں یا رشتہ داروں سے باقاعدہ رابطہ رکھیں (یعنی ہفتے میں دو تین بار ضرور قریبی عزیزوں سے سلام دعا کریں اور جاری حال احوال سے آگاہ رہیں)۔ اس طرح تین چار ایسے دوستوں کا انتخاب کریں جو آپ کے دل، ذوق اور مزاج کے قریب ہو، یاد رہے زندگی میں دوستوں کا اپنا ایک الگ خانہ ہوتا ہے یہ خالی نہیں رہنا چاہیے ورنہ خلا سا پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کسی نہ کسی سماجی کام میں حصہ لینا (مثلاً کسی ضرورت مند کی مدد، کسی فلاحی تنظیم کی اعانت یا کسی صلح جویانہ سرگرمی میں شمولیت وغیرہ)۔
رات کا معمول (7:00 بجے سے 10:00 بجے تک)
1. غذا، مطالعہ اور آرام:
رات کا کھانا ہلکا پھلکا ہو۔ رات کو ثقیل کھانا کھائیں نہ ہی دیر سے کھائیں (مثلاً دال، سبزی، چاول یا چکن ہو اور کھانا موجودہ دنوں کے حساب سے آٹھ بجے کے آس پاس ہو)۔ کھانے کے بعد دس پندرہ منٹ کی چہل قدمی ضرور کریں۔ اس وقت قدرتی طور پر موڈ خوش گوار رہتا ہے اس لیے ہلکے پھلکے موضوعات پر اہل خانہ کے ساتھ گپ شپ کرنا سود مند ہوتا ہے۔ رات کے وقت مطالعہ بھی زیادہ بہتر انداز میں ذہن کا جزو بن جاتا ہے۔ اس کے بعد بروقت آرام کے لیے لیٹ جائیں اور دیر تک جاگنے سے گریز کریں یہ ذہن اور جسم دونوں کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔
2. عبادات اور تسبیحات:
مغرب اور عشا کی نمازیں بروقت ادا کریں، مغرب کے بعد مسنونہ تسبیحات کا اہتمام کریں یہ بہترین اثرات کے حامل ہیں۔ اللہ سے مخاطب ہونے کے لیے صبح اور شام کے اوقات بہترین ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی دعاؤں کا زیادہ تر اہتمام ہمیشہ ان دو اوقات میں فرمایا ہے۔ دعاؤں کے علاؤہ بھی آپ خدا سے بہت سارے معاملات شریک کر سکتے ہیں مثلاً اپنے جذبات، احساسات اور مقاصد و اہداف وغیرہ اور یوں اس کی تائید و حمایت پا سکتے ہیں مختصر یہ کہ اللہ کو ہر معاملے میں آن بورڈ رکھیں وہ بڑا مہربان ہے وہ آپ کے ذہن، وقت اور ہمت میں بے تحاشہ برکتیں شامل کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔
3. ذاتی ترقی:
روزانہ کوئی نہ کوئی کتاب ضرور مطالعے میں رکھیں یا کوئی بھی مفید آن لائن کورس کریں، آج کل ہزاروں ایسے کورسز دستیاب ہیں جن کا دورانیہ کم سے کم اور فائدہ زیادہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح ہر گزرتے دن، ذہن میں اگلے دن کی منصوبہ بندی کیا کریں۔ سب سے زیادہ حساس اپنے وقت اور مقاصد کے حوالے سے رہیں۔
4. خاندانی رابطہ:
گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر روزمرہ کے معاملات پر ضرور بات چیت کیا کریں۔ یہ نہ صرف ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے انتہائی مفید عمل ہے بلکہ درپیش معاملات یا مسائل میں خوش اسلوبی حل پانے میں مددگار ہے۔ میں نے بے شمار مرتبہ مختلف معاملات اور مسائل میں اپنے گھر والوں کو یوں مخاطب کیا ہے کہ اس بارے میں آپ کی عقل کیا کہتی ہے اور یقین کریں ان کی عقل نے چند لمحوں میں میری مشکل آسان کردی ہے۔ آج کل پیشہ وارانہ امور میں استغراق اور سوشل میڈیا کے بہت زیادہ استعمال نے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کو ایک دوسرے سے بیگانہ سا کیا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک رجحان ہے اور اعتدال ہی اس کا واحد حل ہے۔
سونے سے پہلے (10:00 بجے سے 10:30 بجے تک)
گہری نیند کی ضروریات:
رات ہوتے ہی موبائل فون کا استعمال بند کریں۔ وضو کریں اور وضو کے بعد کچھ اذکار اور دعاؤں کا اہتمام رکھیں اس سے پرسکون نیند آنے میں مدد ملتی ہے۔ اس طرح سونے کے وقت کی دعائیں یاد کر کے دہرائیں۔ یہ بہترین مشغلہ ہے۔
ہفتہ وار اضافی سرگرمیاں (توازن کے لیے)
جمعہ کے دن خصوصی اہتمام سے مسجد جا کر خطبہ سنیں اور عمل کے ارادے سے اس کو سمجھیں اور ہاں خاندان کے ساتھ خصوصی وقت گزاریں۔ اس طرح ہفتے میں ایک دن فیملی آؤٹنگ (پارک یا کسی پرسکون جگہ) ضرور کریں۔ اس طرح ماہانہ بنیاد پر کسی غریب یا مستحق خاندان کی مدد کریں۔
صفائی ستھرائی
صفائی ستھرائی نہ صرف شخصی خوبصورتی کو بڑھاتی ہے بلکہ یہ صحت اور تندرستی کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔ روزمرہ کی صفائی ستھرائی کا معمول بیماریوں سے بچاؤ، جسمانی تازگی اور ذہنی سکون فراہم کرتا ہے۔
روزانہ نہائیں یا کم از کم جسم کو صاف پانی سے دھوئیں۔صابن/باڈی واش کا استعمال کریں اینٹی بیکٹیریل صابن سے جسم کے تمام حصوں (بغلوں، گردن، پیروں اور حساس اعضاء) کو اچھی طرح صاف کریں۔ اس طرح اگر روزانہ نہاتے ہیں تو ہلکا شیمپو استعمال کریں، ورنہ ہفتے میں دو تین بار شیمپو ضرور کریں۔ اس طرح دن میں دو بار دانتوں کو ضرور برش کریں، دانتوں کی صفائی و تندرستی پر خصوصی توجہ دیں۔ اس طرح ماہانہ، دو ماہی یا سہ ماہی ڈینٹسٹ سے چیک اپ کروائیں اور میٹھی اشیاء کا استعمال کم کریں۔ عین یہی توجہ کانوں کو دیں۔ اس طرح کھانے سے پہلے، باتھ روم استعمال کرنے کے بعد اور باہر سے آنے پر صابن سے ضرور ہاتھ دھوئیں۔ اس طرح ناخن صاف اور چھوٹے رکھیں کیونکہ ان کے نیچے جراثیم جمع ہو سکتے ہیں۔
ہینڈ کریم لگایا کریں تاکہ جلد خشک نہ ہو۔ اس طرح روزانہ پیر دھوئیں۔ اس طرح ناخن تراش کر صاف رکھیں، بالوں کا بھی خصوصی صفائی ستھرائی اور صحت و تندرستی کا خیال رکھیں۔ مناسب وقفے سے دھوئیں اور باقاعدگی سے تیل لگائیں۔ ایک تجربہ کار صاحب سے سنا ہے کہ بالوں کے لیے سرسوں کے تیل زیادہ بہتر کوئی نسخہ موجود نہیں۔ اس طرح روزانہ صاف کپڑے پہنیں، خاص طور پر جرابے یا موزے روزانہ تبدیل کریں۔ بیڈ شیٹس اور تولیے بھی ہفتے یا دو ہفتے میں ایک بار ضرور بدلیں۔ اس طرح گھر، دفتر اور کام کی جگہ کو لازماً صاف ستھرا رکھیں تاکہ نہ صرف سکون اور آسودگی میسر رہے بلکہ رنگ بہ رنگ جراثیم سے بچا جاسکیں۔ یاد رکھیں ذاتی صفائی ستھرائی کی عادات اپنا کر نہ صرف بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے بلکہ ایک باوقار، پرکشش، مرغوب اور تروتازہ شخصیت کا تاثر قائم کیا جا سکتا ہے۔ برادران عزیز صحت مند زندگی کے لیے صفائی کو اپنی روزمرہ روٹین کا لازمی حصہ بنائیں۔
خصوصی نوٹس:
گرمیوں کے ایام میں پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال جبکہ سردیوں میں گرما گرم غذائیں نوش جان کریں۔ فروٹ اور ڈرائی فروٹ گھر ضرور لائیں خواہ یہ کچھ مشکل ہی کیوں نہ ہو، شاپنگ میں کتابیں بھی شامل رکھیں، سبز چائے، سبز مرچ، لیموں، ادرک لہسن کھیرے وغیرہ سے گھر خالی نہ ہونے دیں۔ اس طرح شام کے بعد غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں، خاص طور پر خواتین اور بچے۔ اس طرح سماجی رسم و رواج کا احترام کریں، لیکن اس عمل میں غیر ضروری دباؤ سے ضرور بچیں۔
عمومی زندگی میں مخلص بنیں، معتدل رہیں، نرمی سے بولیں، محبت سے تعلقات نبھائیں، حقیقت پسندی سے سوچیں، برابری کی سطح پر معاملات چلائیں اور محنت سے اپنے فرائض منصبی بجا لائیں، بے صبری، جارحانہ انداز اور ناشائستہ رویوں سے بہر صورت مجتنب رہیں یقین کریں زندگی آپ کے لیے ایک شیریں پھل جیسی ہو جائے گی جس میں خوشی بھی ہوگی اور کامیابی بھی، عزت بھی ہوگی اور آسودگی بھی، محبت بھی ہوگی اور حفاظت بھی، سکون بھی ہوگا اور امید بھی، مقصد بھی ہوگا اور روح مقصد بھی۔