ایمان کا مکان اور ارکانِ اسلام — ایک فکری و عملی تجزیہ

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ، وَحَجِّ الْبَيْتِ”
(صحیح بخاری، حدیث: 8)
ترجمہ: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: (1) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، (2) نماز قائم کرنا، (3) زکات دینا، (4) بیت اللہ کا حج کرنا، اور (5) رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

جیسے مکان انسان کے لیے محض چھت یا دیواروں کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ یہ اس کی حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے، لیکن یہ حفاظت صرف جسمانی نہیں بلکہ انسانی وقار کی بھی ہوتی ہے۔ انسان کی کچھ ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر حال میں پوری کرنی ہوتی ہیں، جیسے کھانا، پینا، سونا، جاگنا اور قضاء حاجت وغیرہ۔ لیکن اگر ان تمام ضرورتوں کی ادائیگی کھلے میدان میں یا سب کے سامنے ہو تو جسم تو شاید بچ جائے، مگر انسان کا وقار مجروح ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ انسان محض جسم رکھنے والا ایک جاندار بن کر رہ جاتا ہے، اس میں باقی وہ شے ختم ہو جاتی ہے جسے اصل انسانیت کہا جاتا ہے۔ مکان اس لیے نہیں ہوتا کہ صرف سانس لینے کی جگہ دے، بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ انسان اپنے وقار کو بھی محفوظ رکھ سکے۔ اگر کوئی شخص مکان رکھتا ہو مگر اس کا استعمال صرف جان بچانے کے لیے کرے، اور اپنے وقار کی حفاظت نہ کرے، تو وہ مکان ایک خالی ڈھانچہ ہے، اور وہ انسان ایک خالی وجود۔

ایمان کا معاملہ بھی بعینہٖ ایسا ہی ہے۔ اسلام ایک مکمل عمارت ہے جو انسان کے ایمان کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ عمارت محض خیالی نہیں بلکہ اس کے اپنے اجزاء ہیں، جیسے ایک مکان اینٹوں، سیمنٹ، ریت اور لکڑی سے بنتا ہے، ویسے ہی اسلام کی عمارت بھی توحید، نماز، روزہ، زکات اور حج جیسے ارکان سے بنتی ہے۔ اور ان ارکان کو نہ انسانوں نے طے کیا ہے، نہ کسی فقیہ، مفسر یا مفکر کی رائے سے بنے ہیں، بلکہ ان اجزاء کو خود خدا نے متعین کیا ہے۔

فرمانِ الٰہی ہے:
"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ”
(سورہ احزاب: 36)
ترجمہ: ’’کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ فرما دیں تو پھر بھی اسے اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے۔‘‘
ان میں کوئی کمی یا بیشی ممکن نہیں، اور نہ ہی ان کا کوئی متبادل ہو سکتا ہے۔ جو شخص یہ سمجھے کہ عبادات کا مقصد صرف روحانی سکون ہے اور اسے اپنی مرضی سے کوئی بھی شکل دی جا سکتی ہے، وہ گویا ایک ایسی عمارت کھڑی کر رہا ہے جس کی بنیاد ہی خدا کے مقرر کردہ ستونوں پر نہیں ہے۔

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید عیسائی راہبوں کی مثال دیتا ہے، جو دین میں خودساختہ عبادات اور رہبانیت ایجاد کر بیٹھے تھے:

"وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ”
(سورۃ الحدید: 27)
ترجمہ: ’’اور رہبانیت تو انہوں نے خود ایجاد کی، ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔‘‘
یہی سبب تھا کہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہی میں ڈالا، کیونکہ اللہ کے دین میں اپنے طور پر عبادات گھڑنا دین کا انکار ہے، اطاعت نہیں۔

یہ ارکانِ اسلام اگر مکمل طور پر ادا کیے جائیں تو ایمان کو اندر سے محفوظ رکھتے ہیں، جیسے ایک مکمل مکان انسان کو گرمی، سردی، دھوپ، بارش، درندوں اور چوروں سے محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن اگر ان ارکان کو ترک کر دیا جائے، یا ان میں سے کسی کو نکال دیا جائے تو اسلام کی عمارت میں رخنے پڑ جاتے ہیں۔ دیوار گر جائے، چھت میں سوراخ ہو، یا دروازہ نہ ہو، تو مکان ہونے کے باوجود انسان محفوظ نہیں رہتا۔ اسی طرح اگر نماز چھوڑ دی جائے، روزہ ترک کر دیا جائے، زکات نہ دی جائے، حج کو اہمیت نہ دی جائے، تو ایمان کا اندرون شیطان، نفس اور دنیا کی آفتوں کے لیے کھلا میدان بن جاتا ہے۔

ایمان کا دعویٰ اگرچہ زبان سے موجود ہو، اور دل میں کسی حد تک عقیدہ بھی ہو، لیکن اگر اس کے لیے نماز، روزہ، زکات، حج جیسے ارکانِ اسلام سے ایک مکمل عمارت تعمیر نہ کی جائے تو یہ ایمان عملاً غیر محفوظ ہوتا ہے۔ ایسا شخص اگرچہ "مومن” کہلائے، مگر اس کا ایمان ان دروازوں اور دیواروں سے محروم ہوتا ہے جو اسے روحانی درندوں، نفسانی حملوں اور شیطانی وسوسوں سے بچاتے ہیں۔ وہ ایمان ایک کھلے میدان میں بےیار و مددگار پڑا ہوتا ہے، جس پر ہر لمحہ حملہ ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"العَهْدُ الذي بينَنا وبينَهم الصلاةُ، فمَن ترَكَها فقد كفَرَ”
(سنن ترمذی، حدیث: 2621)
ترجمہ: ’’ہمارے اور ان کے درمیان عہد نماز ہے، جس نے اسے چھوڑا، اس نے کفر کیا۔‘‘
اور فرمایا:
"من ترك الصلاة متعمدًا فقد برئت منه ذمة الله”
(مسند احمد، حدیث: 23992)
ترجمہ: ’’جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی، اس سے اللہ کی حفاظت کی ذمہ داری ختم ہو گئی۔‘‘
جیسے مکان کی دیواریں انسان کو چوروں سے بچاتی ہیں، ویسے ہی نماز انسان کو بے حیائی اور برائی سے بچاتی ہے۔
جیسا کہ قرآن میں ہے:
"إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ”
(سورہ عنکبوت: 45)
ترجمہ: ’’یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘

روزہ اسے نفس کی غلامی سے نکالتا ہے، زکات اسے بخل سے پاک کرتی ہے، اور حج اسے اخلاص اور اتحاد سکھاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں اسلام کی عمارت کے وہ بنیادی اجزاء ہیں جو ایمان کو نہ صرف محفوظ رکھتے ہیں بلکہ اسے زندگی بخشتے ہیں۔

جس طرح انسان مکان کے بغیر ہر وقت درندوں، خوف، سردی، بارش اور دیگر خطرات کا نشانہ بن سکتا ہے، اسی طرح جو شخص اپنے ایمان کے لیے ان ارکانِ اسلام کے ذریعے حفاظتی عمارت نہیں بناتا، وہ اپنے ایمان کو ہر وقت شیطانی وسوسوں، نفسانی خواہشات اور دنیاوی حملوں کی زد پر چھوڑ دیتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اگر جسم کے تحفظ کے لیے مکان نہ رکھیں تو فوراً اس کی فکر کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کسی وقتی کیمپنگ یا سفر میں ہوں تو سب سے پہلے خیمہ نصب کرتے ہیں تاکہ جسم محفوظ رہے۔ مگر افسوس، جب ایمان بغیر عمارت کے کھلے آسمان تلے، حفاظت کے بغیر پڑا ہو، تو ہمیں اس کی پروا تک نہیں ہوتی۔ نہ دیوار کی فکر، نہ چھت کی، نہ دروازے کی۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ کھلا ہوا ایمان ہر لمحہ گناہوں کی بارش، شہوتوں کی دھوپ، کفر کے جھکڑ اور شیطان کے حملوں میں گھرا رہتا ہے۔

یہی ارکانِ اسلام کی اصل اہمیت ہے۔ انہیں ترک کرنا یا نظر انداز کرنا، ایمان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ جیسے مکان کے بغیر زندگی کا تحفظ ممکن نہیں، ویسے ہی ارکانِ اسلام کے بغیر ایمان کا تحفظ بھی ممکن نہیں۔ جو ایمان کے لیے مکان نہیں بناتا، وہ ایمان کے باقی رہنے کی ضمانت بھی نہیں دے سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے