جنسی بے راہ روی کی وبا اور اس کے سدباب کا فطری ذریعہ

عصر حاضر میں انسانی معاشروں کو مغرب و مشرق اور جنوب و شمال میں جن وباؤں نے ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھے ہیں ان میں جنسی بے راہ روی، پرتشدد رویوں کا فروغ، دھوکہ دہی کا عمومی ارتکاب، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر غیر فطری تقسیم و تفریق اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روگردانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انہیں خرابیوں کی وجہ سے انسان، انسان کے لیے حد درجہ خطرناک بن چکا ہے۔ صبح و شام چار دانگ عالم میں انہیں جراثیم سے پیدا ہونے والے حادثات اور واقعات قابو میں آ رہے ہیں نہ ہی ان کا کوئی سدباب نظر آ رہا ہے۔ روز انسان دکھ اٹھا رہا ہے، مایوسی کا منہ دیکھ رہا ہے، تناؤ کے لپیٹ میں جا رہا ہے، اچانک وباؤں کا نوالہ بن رہا ہے اور ایک دوسرے کو بے دردی سے کاٹ رہے ہیں لیکن افسوس اپنی اصلاح پر آج کا انسان آمادہ نظر نہیں آ رہا۔ نوع بہ نوع مسائل اور ان کے سنگین نتائج بے تحاشہ ہیں اور ہم سب کی نظر میں بھی لیکن سردست ہم جنسی بے راہ روی اور اس سے پیدا ہونے والے بحرانوں کا پند و نصیحت کے تناظر میں جائزہ لے رہے ہیں تاکہ نہ صرف اس حوالے سے معاشرے میں عمومی احساس جاگ جائے بلکہ اس کے سدباب کے حوالے سے خالق کائنات نے جو ذریعہ تخلیق و تجویز کیا ہے اسے عمومی رجوع کا بھی ماحول بن جائے۔

انسان کی سب سے بڑی کرامت اور فضیلت اس کے باکردار ہونے میں ہے۔ باکردار فرد کہ جس کو دیکھنے سے، دیکھنے والوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے، جہاں بیٹھے تو باوقار آئے، اس طرح سماج میں معاملات کے دوران اس پر اعتماد ہو، اس کے کہے ہوئے لفظوں کا پاس و لحاظ ہو، اس طرح ایک بندہ عمومی زندگی میں خوش اخلاق ہو، بات چیت کے دوران خوش گفتار ہو، محفلوں کی جان ہو، دوستوں میں محبوب و مرغوب ہو، گھر اور گاؤں میں سکون و تسلی کا سامان ہو، جس کی صداقت اور امانت پر قسم کھانا آسان ہو اور جس کی شرافت و نفاست گرد و پیش میں سب کے لیے راحت کا سامان ہو۔ یہ بلند مقام صرف اور صرف باکردار ہونے کے ساتھ مشروط ہے۔ جہاں کردار وہاں یہ مقام اور جہاں اس کردار سے متصادم رویے وہاں ایک رسوا کن انجام جس میں کوئی عزت ہوتی ہے نہ شرافت، اعتماد ہوتا ہے نہ اطمینان، پاس و لحاظ ہوتا ہے نہ کوئی وقار اور انسان بظاہر انسان لیکن کردار کے حوالے سے نرا حیوان محسوس ہوتا ہے جس سے سب خطرہ محسوس کرتے ہیں اور کوئی بھی اس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

کردار کو آگ جنسی بے راہ روی سے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے متعلقہ فرد کی پوری شخصیت کا احاطہ کر لیتی ہے اور یوں اس انجام سے دو چار ہوتا ہے جہاں خالق و مخلوق دونوں اس سے بے زار ہوتے ہیں۔ جنسی بے راہ روی کی علت، پاک اور فطری راستے کو چھوڑ کر ناپاک اور غیر فطری راستوں کو اختیار کرنے سے لاحق ہوتی ہے اور یوں اس علت میں مبتلا انسان نما حیوان دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا۔ یہ جو اخلاق کا جنازہ نکلتا ہے، یہ جو کردار کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ جاتی ہے، یہ جو خاندان کے خاندان ٹوٹ جاتے ہیں، یہ جو لوگوں کے سینے نفرت کے تنوروں میں بدلتے ہیں، یہ جو بے حیائی کے سیلاب میں انسان ڈوب رہے ہیں، یہ جو نوجوان تاریک راہوں کے مسافر بن جاتے ہیں، یہ جو جنسی تناؤ نے لوگوں کو اندھے اور بہرے بنائے ہیں، یہ جو لڑکیاں گھروں سے بھاگ رہی ہیں، یہ جو نوجوان جا بجا بے دردی سے قتل ہو رہے ہیں یہ جو ہر طرف اندھیرے چھائے ہوئے ہیں ان تمام تر بحرانوں کی پشت پر صرف اور صرف ایک ہی سبب ہے اور وہ سبب ہے جنسی بے راہ روی کا۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ "وہ لوگ جو معاشرے میں بے حیائی پھیلانے کے لیے خواہشمند اور کوشاں رہتے ہیں تو یاد رکھیں ان کے لیے اس دنیا میں رسوا کن انجام اور آخرت میں درد ناک عذاب مقدر ہے”۔ بے راہ روی کا راستہ روکنے کا صرف ایک ہی پاک اور فطری ذریعہ ہے اور وہ ہے شادی، آئیے ایک صحت مند، مطمئن، شفاف، محفوظ اور بااعتماد زندگی کے لیے شادی کی اہمیت و افادیت پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

شادی خالق کائنات کا حکم، حضرات انبیاء کرام کی سنت، نسل انسانی کی بقاء کا ذریعہ، انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا، اجتماعی رشتوں کی جڑ، طویل ترین انسانی تاریخ کا سبق، سکون و اطمینان کا بہت بڑا وسیلہ اور شرف و کرامت کا ازلی و ابدی راستہ ہے۔ کوئی بھی صحت مند، عقل مند، ذمہ دار اور باکردار بندہ شادی سے کسی صورت مستغنی نہیں ہو سکتا۔ زندگی، فطرت اور معاشرے کے ایک دو نہیں بے حد و بے شمار تقاضے ایسے ہیں جنہیں شادی کا فرض نبھائے بغیر پورا ہونا ممکن ہی نہیں۔ بندے کو بچپن میں والدین، جوانی میں ساتھی اور بزرگی میں بچے چاہیے کیونکہ اس کے بغیر زندگی کا گزرنا ممکن ہے نہ ہی خوش گوار ہونا۔ یہ پورا "سٹرکچر” شادی کا مرہون منت ہے۔ شادی ہے تو یہ سب کچھ ہے اور شادی نہیں تو یہ سب کچھ ممکن ہی نہیں۔ شادی انسانی معاشرے میں سب سے بنیادی اور اثر انداز رشتوں میں سے ایک ہے۔ قانون اور مذہب نے شادی کی حیثیت اور اہمیت مسلمہ بنانے میں اگر چہ ٹھوس کردار ادا کیا ہے لیکن اس کے علاؤہ شادی کے داعیے نے خود انسانی فطرت کی اتھاہ گہرائیوں سے سر اٹھایا ہے، شادی میاں بیوی کے درمیان ایک نہایت گہرے جذباتی، ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور سماجی تعلق کی عکاسی کرتی ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ اپنی زندگیاں شریک کرنے کا عہد و پیمان کرتے ہیں۔ یہ رشتہ میاں بیوی کے ساتھ ساتھ وسیع تناظر میں پورے سماج کی صحت، خوشی اور مجموعی فلاح و بہبود پر بھی نمایاں اثرات ڈالتا ہے۔

شادی بے شمار فوائد کا حامل ایسا رشتہ ہے جو کہ زندگی اور سماج کو مکمل، محفوظ، متوازن، صحت مند اور خوش گوار بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ شادی میں شامل مختلف جذباتی عوامل مطلوبہ قربت، صحبت، حمایت، سکون اور تحفظ کا اہم ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔ میاں بیوی نہ صرف مشکل وقت میں ایک دوسرے کے لیے ٹھوس سہارا بنتے ہیں بلکہ خوشی کے مواقع پر باہم گویا جذب ہو کر انہیں ساتھ مناتے بھی ہیں مزید برآں باہمی اعتماد و اعتبار اور افہام و تفہیم کا گہرا احساس بھی پیدا کر رہے ہیں۔ یہ بے مثال تعلق اور زندگی کی شراکت داری کا گہرا احساس اس وحشت ناک تنہائی، دل توڑنے والی افسردگی اور نوع بہ نوع مسائل سے پیدا ہونے والے اضطراب کو ختم کرنا صرف اور صرف میاں بیوی کے بس میں ہوتا ہے اور کسی کے بس میں قطعاً نہیں۔ شادی کا رشتہ اور پھر اس کا استحکام ذاتی اطمینان و خوشحالی اور اجتماعی فلاح و بہبود میں وہ حصہ ڈالتا ہے جو کہ کسی دوسرے ذریعے سے انجام دینا ممکن ہی نہیں۔ دوسرے شراکت دار مختلف وجوہ سے اکثر و بیشتر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں لیکن میاں بیوی نایاب ترین مثالوں کو چھوڑ کر ایک دوسرے کے کبھی مدمقابل نہیں آتے۔ میاں بیوی کا تعلق باہمی تعاون پر مبنی مخلصانہ، مشفقانہ اور دیرپا مقاصد کے حصول کے لیے درکار احساس کو فروغ دیتا ہے۔ یہ احساس انفرادی اطمینان اور اجتماعی اعتبار کے لیے بے حد ضروری ہے۔

شادی مالی، جذباتی، عملی اور سماجی مدد کے لیے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرتی ہے۔ میاں بیوی اپنے اپنے خاندان کے لیے مل کر وسائل جمع کرتے ہیں، مختلف ذمہ داریوں کو تقسیم کرتے ہیں اور روزمرہ کی زندگی میں در آنے والی پیچیدگیوں کا حل غیر مشروط حمایت، محبت، ہمدردی اور تعاون سے پا لیتے ہیں اور یہ کہ اپنی ضروریات کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ تو گھریلو سطح پر انفرادی فوائد ہیں ان کے علاؤہ، شادی کے مثبت اثرات اور وسیع تر مفاد پورے معاشرے تک دراز ہیں۔ مستحکم رشتے، صحت مند تعلقات اور پل پل روابط آگے چل کر، معاشرے کو درکار خاندانی اکائیاں تشکیل دینے میں بے حد اہم ہیں جہاں مخلصانہ محبت کرنے والے دو ماں باپ کے گھروں میں پرورش پانے والے بچے ان بچوں کی نسبت بہت زیادہ بہتر جسمانی اور ذہنی صحت، اعلیٰ تعلیمی کارکردگی اور زیادہ مثبت سماجی رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں جنہیں بوجوہ ماں باپ کا ساتھ میسر نہیں۔ خاندانی زندگی میں باہمی محبت، اعتماد، خلوص، تحفظ، وقار و اقدار اور ضروری رہنمائی و مددگاری کا سلسلہ نسل درنسل دراز ایک زیادہ مضبوط، مربوط اور باہم ہم آہنگ سماجی ڈھانچے میں مدد کرتا ہے۔

کوئی بھی سلیم الفطرت انسان اور سماج شادی کی ضرورت، اہمیت اور افادیت سے شاید انکار نہیں کر سکتا لیکن مسئلہ ہمیشہ مناسب وقت پر شادی نہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور یہ آگے چل کر بے شمار دوسرے مسائل کا سبب بنتا ہے جن میں سے ایک اہم مسئلہ جنسی بے راہ روی کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سٹیک ہولڈرز (نوجوان، والدین، مخیر حضرات اور حکومت) مل کر ایسا ماحول بنانے پر توجہ دیں جہاں لوگ مناسب وقت پر شادی کے لیے آمادہ اور تیار رہیں اور کوئی ایسی رکاوٹیں آڑے نہ آئیں جو کہ شادی کے عمل کو مشکل یا مؤخر بنانے کا سبب ہو۔ نوجوان تعلیم، ہنر اور روزگار جیسے معاملات میں غفلت اور تاخیر کا مظاہرہ نہ قطعاً کریں، بروقت تعلیم اور ہنر سے لیس ہو کر جاب یا کاروبار کا آغاز کریں، اس طرح قابل قبول پوزیشن ہو تو پھر مختلف خاندان رشتوں کے لیے غیر ضروری توقعات اور مطالبات نہ رکھیں اور مناسب رشتہ آئے تو بے جا ٹال مٹول سے کام نہ لیں، اس طرح اہل ثروت حضرات یا تنظیمیں اس مد میں عزیزوں اور مستحقین کی خصوصی مدد کریں اس کے علاؤہ حکومت لوگوں کو مناسب روزگار دلانا اپنی ذمہ داری سمجھ کر بنیادی ترجیحات میں شامل کریں تاکہ معاشی ذمہ داری کا خوف انہیں بروقت اپنے گھر بسانے سے نہ روکیں۔

کوئی مانیں یا نہ مانیں اور کوئی قبول کریں یا نہ کریں مختلف سماجی، معاشی، نسلی اور ذہنی رکاوٹوں نے شادی کے فریضے کو منعقد کرنا بے حد مشکل بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں جنسی بے راہ روی کی وبا جنگل میں آگ کی مانند پھیل رہی ہے جس سے کردار، صحت اور اعتماد سمیت بے شمار رشتے خطرات کے لپیٹ میں چلے گئے ہیں۔ معاشرہ، حکومت، مخیر حضرات، علماء اور دینی تحاریک سمیت سب مل کر شادی کے عمل کو آسان اور تیز بنا دیں تاکہ فطری تقاضوں کی تسکین کے لیے پاک اور فطری ذریعہ بروقت میسر آئے ورنہ زندگی کا یہ "خانہ” صرف پند و نصیحت اور تقریروں سے کبھی بھرنے والا نہیں۔ فاسٹ فوڈی خوراک سے لے کر انٹرنیٹ کے آزادانہ استعمال تک بے شمار ایسی چیزیں ہیں جنہوں نے مل کر جذبات میں سخت ابال لے آئی ہے اوپر سے شادی میں تاخیر پر تاخیر نے جو خلا پیدا کی ہے صاف بات یہ ہے کہ وہ جنسی بے راہ روی نے بھر دیا ہے۔ پیاس میں اگر پانی اور بھوک میں اگر خوراک کی فکر بروقت ہوتی رہتی ہے تو بھری جوانی میں شادی کی فکر اس شدت سے سب کو کیوں نہیں ہو رہی؟؟؟۔ یہ ایک حد درجہ غفلت اور لاپرواہی کا رویہ ہے جیسے ہم سب نے کمال بے حسی سے اپنا رکھا ہے اس رویے کو جتنی جلدی بدلے تو بہتر ہے ورنہ جو کچھ بھی گرد و پیش میں جاری ہے وہ بدتر نہیں، بدترین ہے اور اس کے نشانے پہ صرف لاابالی نوجوان ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے