شادی ہے یا بنیے کی دکان؟؟

"لڑکے کا ذاتی مکان ہونا چاہیے، تبھی زندگی سکون سے گزرے گی۔”
لڑکی کے والد نے اپنے مخصوص پُروقار انداز میں کہا، جیسے کسی جائیداد کی بولی لگ رہی ہو۔

لڑکے کے والد نے ذرا مسکرا کر کہا،
"جناب، ابھی تو لڑکا عملی زندگی میں قدم رکھ رہا ہے۔ ایک سال پہلے ہی تعلیم مکمل کی ہے اور ملازمت شروع کی ہے۔ مکان فوراً کہاں سے آ جائے گا؟ وقت لگے گا، لیکن ان شاء اللہ بنا لے گا۔”

لڑکی کے والد نے ناگواری سے سر ہلایا،
"دیکھیے جناب، آج کل کی زندگی میں تحفظ بہت ضروری ہے۔ بغیر ذاتی مکان کے تو لڑکی کو بھی عدم تحفظ کا احساس رہے گا۔”

چند لمحوں کی خاموشی کے بعد لڑکے کے والد نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا،
"ماشاءاللہ آپ کا مکان بڑا خوبصورت ہے، کب بنایا آپ نے؟”

لڑکی کے والد نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے فخر سے کہا،
"تین سال پہلے، ریٹائرمنٹ کے بعد جب کچھ پیسہ ہاتھ آیا تو یہ گھر بنایا۔”

"اور اس کے علاوہ بھی کوئی مکان ہے آپ کا؟” لڑکے کے والد نے پوچھا۔

"نہیں، یہی ایک ہے۔”

اس پر لڑکے کے والد نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ کہا،
"تو جناب، آپ نے خود پوری زندگی کرائے کے گھروں میں گزار کر ساٹھ برس کی عمر میں ایک گھر بنایا، اور آپ چاہتے ہیں کہ میرا بیٹا، جو ابھی کام کا آغاز کر رہا ہے، فوراً ذاتی مکان کا مالک ہو؟”

پھر وہ تھوڑا سنجیدہ ہوئے اور بولے،
"مجھے افسوس ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ آپ رشتہ نہیں، کوئی بزنس ڈیل کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہم رشتے میں محبت ڈھونڈتے ہیں، معاہدہ نہیں۔ آپ کا وقت ضائع کیا، معذرت چاہتا ہوں۔ خدا حافظ۔”

یہ کہہ کر وہ اٹھے اور خاموشی سے کمرے سے نکل گئے۔

اور ایک وقت یہ بھی تھا… کہ دلہن رخصت ہو کر نئے گھر آئی، تو دلہا کے والد نے اُسے پاس بٹھا کر نرمی سے کہا:
"بیٹا، یہ جو نئی لڑکی آئی ہے یہ نازک ہے، نئی ہے، انجان ہے۔
ممکن ہے اسے چولہے کا سلیقہ نہ آتا ہو،
کبھی ہانڈی جل جائے، کبھی گھی چھلک جائے…
مگر تم نے اُسے ڈانٹنا نہیں، شرمندہ نہیں کرنا۔
حوصلہ دینا، ساتھ دینا… وقت لگے گا، مگر سیکھ جائے گی۔
اور بیٹے یاد رکھنا، سلیقہ سکھانے کا سب سے خوبصورت طریقہ محبت ہوتا ہے۔”

لیکن آج کل کے معاشرے میں شادی ایک مقدس بندھن نہیں رہی، بلکہ ایک طرح کا "پروجیکٹ” بن چکی ہے، جس میں والدین سفاکی کے ساتھ قصابوں کی طرح دونوں طرف سے لسٹ بنا کر بیٹھے ہوتے ہیں مکان، گاڑی، تنخواہ، شہر، معیار، گھریلو سہولیات، خاندانی پس منظر، اور جانے کیا کچھ۔

یہی وجہ ہے کہ نہ رشتے میں وہ پہلے جیسا احترام باقی رہا، نہ وہ پاکیزگی۔
اب تو جیسے "دُلہا” اور "دُلہن” کی جگہ "خریدار” اور "بیچنے والا” بیٹھا ہوتا ہے۔
محبت، ایثار، وفا، صبر، برداشت یہ سب الفاظ کسی پرانی لغت کے دیوان میں قید ہو چکے ہیں۔

لڑکیوں کے والدین بیٹیوں کو ایسے تیار کرتے ہیں جیسے وہ سسرال میں کسی قبضہ گروپ کی نمائندہ ہوں۔
ہر چیز میں "میرا حق”، "میری مرضی”، "میری آزادی” کا نعرہ لگاتے ہوئے بیٹیاں جب کسی دوسرے گھر میں داخل ہوتی ہیں، تو وہاں پہلے سے موجود نظام کو چیلنج سمجھتی ہیں۔
نتیجہ؟ ایک گھر بنتا نہیں، ٹوٹ جاتا ہے۔

دوسری طرف، لڑکوں کے والدین بھی کچھ کم نہیں۔
وہ بہو کو نوکرانی سمجھتے ہیں، توقع رکھتے ہیں کہ وہ خاموشی سے ہر بات مانے، شکایت نہ کرے، تھکنے کا ذکر بھی نہ کرے۔ اور اگر کرے تو "ناشکری” کے تمغے سے نواز دی جائے۔

کیا اس سب کی ذمہ دار صرف نوجوان نسل ہے؟ نہیں۔
یہ "ٹریننگ” تو والدین ہی دے رہے ہیں۔
کبھی بیٹی سے کہا گیا کہ سسرال میں صبر کرو؟
کبھی بیٹے سے کہا گیا کہ بیوی کو عزت دو؟

اور پھر جو شادیاں ہو رہی ہیں، دیکھ کر لگتا ہے کسی ہندو خاندان کی شادی ہے۔
شادی کا آغاز لوگوں کے سامنے دلہن اور دلہا کے ناچنے اور تھرکنے سے ہو رہا ہوتا ہے۔
خاک برکت ہوگی ایسی شادی میں؟

پہلے شادیاں توکل پر ہوتی تھیں، دل سے دل جڑتے تھے۔
لوگ مل کر گھر بناتے تھے، ایک دوسرے کا سہارا بنتے تھے۔
خالی ہاتھ شادی ہوتی، لیکن برکت سے بھری ہوتی۔
آج ہاتھ میں سب کچھ ہے، دل خالی ہیں، گھروں میں برکت نہیں۔

محبت اب وہ مظلوم سی چیز ہے جو جہیز کے صندوق میں دب جاتی ہے۔
ایثار وہ پرندہ ہے جس کے پر رسم و رواج کی قینچی سے کاٹ دیے گئے ہیں۔
اور دعا؟ وہ شاید صرف نکاح کے خطبے میں ہی باقی رہ گئی ہے۔

یہ سب کچھ بدلا کیسے؟
کیا اس تبدیلی کا ذمہ دار صرف میڈیا ہے؟
یا ہمارا لالچی معاشرہ، جو ہر رشتے کی قیمت لگاتا ہے؟
یا ہم نے خود ہی اپنی اقدار کو فروخت کر دیا ہے؟

جواب شاید سب کے پاس الگ الگ ہو، لیکن حقیقت ایک ہی ہے:
جب رشتہ نفع و نقصان کے ترازو میں تولا جائے گا،
تو نہ محبت بچے گی، نہ عزت، نہ رشتہ۔

ہم تھوڑی دیر کو رک جائیں اور سوچیں،
اپنے بچوں کو رشتے نبھانے کا ہنر سکھائیں،
انہیں بتائیں کہ مادی چیزوں کی بنیاد پر معیار نہیں بنتے۔
انہیں سمجھائیں کہ عزت کا پیمانہ پیسہ نہیں، کردار ہے۔

دونوں طرف سے والدین اپنے بچوں کو بہترین سوچ دیں، تاکہ
گھروں کی وہی پرانی خوشبو واپس آ سکے
جہاں سادگی تھی، لیکن محبت بے انتہا تھی۔
جہاں فرنیچر کم تھا، لیکن دل بڑے تھے۔
جہاں مکان کرائے کا تھا، لیکن گھر "اپنا” تھا
آپس میں ایک رشتہ تھا دل کا، دعا کا، وفا کا۔
آنکھوں میں شرم تھی، لحاظ تھا،
بڑوں سے بات کرتے ہوئے لہجہ نرم تھا، نظریں جھکی ہوئی تھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے