چند روز قبل پاک فوج کی ایک 21 روزہ ورکشاپ سے فارغ التحصیل دوستوں سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگے "بڑے صاحب” نے ان کو بتایا ہے کہ "پی ٹی آئی irrelevant ہو چکی ہے” اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ بچے کچے پی ٹی آئی والوں کو جب بھی مشاورت کے لیے بلایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ "خان کو رہا کرو”، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ زیر بحث مسئلے پر اپنی رائے دیں تو وہ پھر یہی دہراتے ہیں کہ "پہلے خان کو رہا کرو”، اس لیے بحیثیت پارٹی ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔
میں نہ کوئی سیاسی تجزیہ کار ہوں، نہ فوجی حلقوں میں رسائی رکھنے والا باخبر صحافی، اور نہ ہی مجھے پی ٹی آئی یا عمران خان کے نام نہاد سیاسی نظریات سے کوئی اتفاق ہے، لیکن گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی مقبولیت دیکھتے ہوئے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو irrelevant سمجھنے والے "احمقوں کی جنت” میں رہتے ہیں۔
میرے نزدیک اس کی چند وجوہات ہیں، جو کہ میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
بحیثیت ہیلتھ رپورٹر میرا پی ٹی آئی سے واسطہ اس وقت پڑا جب ڈاکٹر ظفر مرزا کو اسپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر فار ہیلتھ بنایا گیا۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کو میں غائبانہ طور پر کافی عرصے سے جانتا تھا لیکن کووڈ کے زمانے میں جب انہوں نے وفاقی وزارت صحت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ پبلک ہیلتھ کے بہترین ماہر اور پی ٹی آئی کے ملٹی کلر گولے گنڈے میں ایک ایماندار اور ماہر شخصیت ہیں۔
اگرچہ ڈاکٹر ظفر مرزا کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں تھا، مگر پی ٹی آئی کے لانے والوں نے انہیں اس قابل سمجھا کہ وہ وزارت صحت کی سربراہی کریں اور انہوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔ یہ اور بات ہے کہ عمران خان کی کابینہ کے بھانت بھانت کے وزیروں اور مشیروں نے انہیں ناکام کرنے کی پوری کوشش کی اور آخرکار انہیں کابینہ سے نکلوانے میں کامیاب ہو گئے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کے بعد وزارت صحت کی سربراہی پاکستان بلکہ دنیا کے نامور ماہرِ صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کو سونپی گئی، جو کہ اگرچہ بظاہر پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ نہیں تھے، لیکن انہوں نے جس طرح کووڈ اور اس کے بعد وزارت صحت چلائی، میں نہیں سمجھتا کہ شاید ان سے بہتر کوئی ایکسپرٹ کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی موجود ہوگا۔ یقینا ان کے کچھ فیصلے متنازعہ بھی ثابت ہوئے لیکن اس میں ان کی نیت کا کوئی قصور نہیں تھا اور وہ پاکستان کی تاریخ کے چند ایماندار ترین وزیروں میں سے ایک تھے۔
صحت سے ہی وابستہ چند اور نام جو کہ پی ٹی آئی سے وابستہ تھے، ان میں سینیٹر ڈاکٹر ہمایوں مہمند قابلِ ذکر ہیں، جو کہ ابھی بھی سینیٹر ہیں اور باوجود اس کے کہ ان کا اپنا ایک پرائیویٹ اسپتال بھی ہے، میں نے انہیں ایک بہترین شخصیت کے طور پر دیکھا ہے جنہوں نے اپنی تمام تر ایمانداری کے ساتھ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کی سربراہی کی اور بہترین فیصلے کیے۔
صحت سے ہی وابستہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی استادوں کی استاد پروفیسر مہر تاج روغانی کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ پروفیسر روغانی بچوں کے علاج کی ماہر ہیں اور ان کے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں شاگرد اس وقت ملک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی بطور سینیٹر صحت کے شعبے میں اصلاحات کی بہت کوشش کی، مگر انہیں اپنوں اور پرایوں دونوں نے ناکام بنانے کی تمام تر کوششیں جاری رکھیں۔
پی ٹی آئی سے وابستہ صحت کے شعبے کا ایک اور روشن ستارہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر ہیں، جن کی اس ملک نے قدر نہیں کی لیکن دنیا ان کی معترف ہے، اور اس وقت وہ GAVI (جو کہ دنیا بھر میں ویکسین فراہم کرنے کا عالمی ادارہ ہے) کی سربراہ کے طور پر کام کر رہی ہیں اور دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں بچوں اور انسانوں کی جان بچانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
یقیناً پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی بہت بہترین، ایماندار اور قابل لوگ ہوں گے، لیکن میں یہاں پر جائزہ لینا چاہتا ہوں ان شخصیات کا جنہیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومتوں نے صحت کے شعبے میں ہم پر نازل کیا۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو چلتا کرتے ہی ایک مخلوط حکومت بنی اور میری توقعات کے بالکل برعکس، پاکستان پیپلز پارٹی کے سب سے "پڑھے لکھے اور قابل ایم این اے” عبدالقادر پٹیل کو وفاقی وزیر صحت لگا دیا گیا، جن کی وزیر صحت بننے کی واحد قابلیت میری نظر میں یہ تھی کہ وہ ڈاکٹر عاصم حسین (جنہیں ایم کیو ایم کے دہشتگردوں کے علاج کے کیس میں فٹ کیا گیا) کے شریکِ جرم قرار دیے گئے تھے۔
عبدالقادر پٹیل نے وزارتِ صحت میں جو تباہیاں کیں، اس کے لیے صرف ایک جملہ کافی ہے جو کہ پاکستان کے سب سے بڑے پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ نے کہا اور اب وہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ:
"عبدالقادر پٹیل نے وفاقی وزارت صحت کو پٹیل پاڑا بنا دیا تھا۔”
مخلوط حکومت جب ختم ہوئی اور نگران حکومت میں انہی لوگوں اور ان کے لانے والوں نے جس شخصیت کو نگران وزیر صحت بنایا، ان کا حال یہ تھا کہ آخری دنوں میں سیکریٹری صحت نے انہیں چپڑاسی کی سہولت سے بھی محروم کر دیا تھا اور ان کے کردار کو محض ایک نمائشی وزیر کا درجہ دے دیا گیا تھا۔
اس کے بعد باری آئی موجودہ حکومت کی، جس نے ایک طویل عرصے تک وزیر صحت ہی نامزد نہیں کیا تھا اور وزیراعظم شہباز شریف خود وزارتِ صحت کے نگران رہے، جبکہ وزارت صحت کو عملی طور پر سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ملک مختار بھرتھ کو سونپا گیا، جو کہ اس وزارت کے لیے بہترین چوائس تھے۔ یہ اور بات ہے کہ انہیں وزیر کے بجائے ایڈوائزر کا درجہ دیا گیا جن کے پاس قطعی طور پر کوئی اختیارات نہیں تھے۔
اب آتے ہیں موجودہ وزیر صحت کی طرف، جن کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے اور دنیا انہیں مصطفیٰ کمال کے نام سے جانتی ہے، جنہیں کراچی والے ان کی میئر شپ کے دور میں "مصطفیٰ کھدال” بھی کہا کرتے تھے۔ مصطفیٰ کمال کا صحت سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عبدالقادر پٹیل کا تھا، اس لیے یہ بھائی صاحب بھی عبدالقادر پٹیل کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جلد ہی یہ اپنے اتحادی پیپلز پارٹی کے پیش رو سے "صلاحیتوں اور کارکردگی” میں کوسوں آگے نکل جائیں گے۔
اسی طرح موجودہ حکومت نے سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے صحت کی سربراہی دارالصحت اسپتال کے مالک، ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عامر چشتی کے حوالے کی ہے، جبکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کی سربراہی جناب رمیش کمار کے پاس ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ دونوں کے اپنے بزنس ہیں، اور ان کی ان کمیٹیوں کی سربراہی کرنا صریحاً "کانفلکٹ آف انٹرسٹ” کے زمرے میں آتا ہے۔
یہاں میں ایک اور چیز واضح کرتا چلوں کہ اسلام آباد کی ہیلتھ کیئر ریگولیٹری اتھارٹی ایک بہترین ریگولیٹر تھی، لیکن موجودہ حکومت کے آتے ہی ڈپٹی پرائم منسٹر جناب اسحاق ڈار نے اپنے پیر بھائی یا پیر صاحب، ڈاکٹر ریاض شہباز جنجوعہ، جو کہ ایک اسپتال اور میڈیکل کالج کے مالک ہیں، انہیں اس کے بورڈ کا چیئرمین بنا دیا، جس کے بعد اب یہ اتھارٹی پرائیویٹ اسپتالوں کی ریگولیٹر نہیں بلکہ ان کی "باندی” بن کر رہ گئی ہے اور غریب مریضوں کا جو استحصال پرائیویٹ اسپتال اور ادارے کر رہے ہیں، انہیں کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔
یقیناً یہ صرف ایک وزارت کا حال ہے، اور اس سے یہ اندازہ قطعاً نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی کا دورِ حکومت گورننس کے لحاظ سے بہت بہتر تھا اور موجودہ حکومت کی گورننس بہت بری ہے، لیکن آپ اس کو چاول کی دیگ کا ایک دانہ سمجھیے۔
یقیناً اس حکومت کی معاشی ٹیم عمران خان کی معاشی ٹیم سے بہت بہتر ہے، کچھ دیگر شعبوں میں بھی اس حکومت کی کارکردگی، خصوصاً پنجاب کی حکومت، عمران خان کے بزدار "وسیم اکرم پلس” سے بہت بہتر ہے۔
لیکن پچھلے الیکشن میں پی ٹی آئی کو ملنے والے ووٹ اور اس حکومت کے اکثر شعبوں میں اقربا پروری، اتحادیوں کی بلیک میلنگ کے باعث صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ہونے والے کمپرومائزز اس حکومت کو مزید غیر مقبول اور پی ٹی آئی کو اور اس کے بیانیے کو مضبوطی عطا کر رہے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کو بھی ختم سمجھا گیا تھا، لیکن وہ عشروں تک عوام کے دلوں میں رہی، حتیٰ کہ اس کی سربراہی جناب آصف علی زرداری صاحب کے پاس آئی، اور اب وہ صرف سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔ بلکہ یوں سمجھیے کہ سندھ میں بھی اسے مصنوعی سانس دے کر زندہ رکھا گیا ہے تاکہ سندھ کو کنٹرول کیا جا سکے۔
یہاں میں اس طویل تحریر کو جناب صدر مملکت آصف زرداری کے ایک قول پر ختم کرنا چاہتا ہوں، جب انہوں نے فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
"آپ لوگ تین سال یا زیادہ سے زیادہ چھ سال تک آتے ہیں، اور اس کے بعد آپ کی پالیسی بدل جاتی ہے، جبکہ ہم یہاں پر عشروں سے ہیں اور ہم نے یہیں پر رہنا ہے۔”
تو دوستو! کہنا یہ ہے کہ عمران خان جیل میں رہے، آزاد ہو جائے یا ہر فانی انسان کی طرح انتقال کر جائے، اس کی ذات کا کرشمہ اسے کئی عشروں تک زندہ رکھ سکتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب آپ ہمارے اوپر عبدالقادر پٹیل، مصطفیٰ کمال اور اسی نوعیت کی اعلیٰ شخصیات مسلط کرتے رہیں گے۔