امن کی نعمت، جنگوں کی مصیبت اور سفارت کاری کی اہمیت

اے انسان! تُو جو تخلیق کائنات کا سب سے حسین شاہکار ہے، جو فکر و فن کے پیکر میں ڈھلا ہے، تُو کیسے اپنی ہی دنیا کو تباہی کے حوالے کر سکتا ہے؟ دیکھو، ہر صبح کی پہلی کرن امن کی نوید لے کر آتی ہے۔ پرندوں کی چہچہاٹ، ندیوں کی سرسراہٹ، پھولوں کی مہک، پتوں کی لہک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب بزبان حال فطرت کی جانب سے انسان کو امن کا پیغام ہے۔ کیا ہم زمین پر اس بے مثال خوبصورتی کو جنگ کے شعلوں میں جھونک دیں گے؟

جنگ صرف پتھر اور دھات کا ٹکراؤ نہیں، بلکہ انسانوں کا قتل، خوابوں کی تردید، محبتوں کی تذلیل، اور تہذیبوں کی توہین بھی ہے۔ ہر گولی جو چلتی ہے، وہ کسی ماں کے دل کو چھلنی کر دیتی ہے۔ ہر بم جو پھٹتا ہے، وہ کسی باپ کا خواب، کسی مصور کی تصویر، کسی بچے کے مستقبل اور کسی جوان کے عزائم کو بھی خاک میں ملا دیتا ہے۔ کیا ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی ہی زمین اور اپنی ہی تاریخ کو خون سے لت پت کر دیں گے؟

جنگ کے مقابلے میں امن صرف ایک سیاسی اصطلاح نہیں، بلکہ یہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ امن میں زندگی ہے، امن میں خوشحالی ہے، امن میں ترقی ہے، امن میں سکون ہے اور امن ہی میں سب کے لیے تحفظ کی ضمانت ہے۔ جب ہم امن کی بات کرتے ہیں، تو ہم صرف جنگ بندی کی درخواست نہیں کر رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ ہم انسانیت کی عمومی بقا اور ارتقاء کی آرزو بھی کر رہے ہیں۔ امن وہ موسیقی ہے جو دلوں کو جوڑتی ہے، وہ رنگ ہیں جو ثقافتوں کو گوندھتے ہیں، امن تعمیر کی وہ کہانی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ جنگ ہر چیز کو کھا جاتی ہے، جب کہ امن ہر چیز کو جنم دیتا ہے۔

دنیا بھر میں آج کل کئی خطے جنگ و جدل کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون بہہ رہا ہے، شہر کے شہر ویران ہو رہے ہیں، پوری پوری آبادیاں فنا کے گھاٹ اتر رہے ہیں، ایسی وحشتیں برتی جا رہی ہیں جن کا کبھی انسان نے تصور بھی نہیں کیا تھا، جہاں معصوم بچوں اور نہتے لوگوں کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں صرف ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ جنگوں کی آگ پر ٹھنڈی میٹھی سفارت کاری کا پانی ڈالا جائے۔ سفارت کاری وہ بے مثال فن اور پلیٹ فارم ہے جو کہ جنگیں ختم کر کے امن کی بنیاد رکھتا ہے، جس کے ذریعے دشمنی کے گہرے گھاؤ بھرے جا سکتے ہیں اور جس کے ذریعے مختلف خطوں میں خوشحالی، آزادی اور تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

سفارت کاری کا بنیادی مقصد تنازعات کو گفت و شنید کے ذریعے سلجھانا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن معاملات کو طاقت کے بل پر حل کرنے کی کوشش کی گئی، وہ مزید پیچیدہ ہو گئے جبکہ دوسری طرف، جہاں مذاکرات اور سفارت کاری کو موقع دیا گیا، وہاں دیرپا امن قائم ہوا۔ بیسویں صدی کے آغاز اور وسط میں بعض اقوام نے منفی جذبات اور عزائم سے متاثر ہو کر دو عظیم جنگیں لڑنے لگی لیکن پانچ پانچ سال کے بعد، بے تحاشا نقصانات پر ان کے پاس، مذاکرات کے میز پر آنے کے علاؤہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ تو رہا معاملہ دو عظیم جنگوں کا لیکن اقوام عالم ہر دور اور خطے میں جنگیں چھیڑنے کے بعد، ہمیشہ مذاکرات اور سفارت کاری کے لیے محتاج رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ویسٹ فیلیا کا امن معاہدہ 1648 میں ہوا اور اس سے یورپ کی تیس سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔ اس طرح کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 1978 میں ہوا جس نے مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کروائی، اس طرح گڈ فرائیڈے معاہدہ 1998 میں ہونے لگا جس نے شمالی آئرلینڈ میں دہائیوں پر محیط تنازعے کو ختم کیا۔ یہ تمام مثالیں ثابت کر رہی ہیں کہ اگر مخلصانہ سفارتی کوششیں کی جائیں، تو جنگوں کا خاتمہ بہر صورت ممکن ہوتا ہے۔

سفارت کاری کیسے جنگوں کو روک سکتی ہے؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ جب متحارب فریقین ایک میز پر بیٹھتے ہیں، تو رفتہ رفتہ ان کے درمیان مختلف غلط فہمیاں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس طرح اکثر و بیشتر جنگوں کی وجہ وسائل کا حصول یا علاقائی تنازعات ہوتے ہیں، جنہیں سفارت کاری کے ذریعے منصفانہ طور پر بانٹا جا سکتا ہے مطلب یہ کہ قبضے جمانے کی بجائے باہمی شراکت داری سے مختلف معاشی، تجارتی اور صنعتی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور سفارت کاری کے ذریعے مختلف سیٹک ہولڈرز ایک دوسرے پر اعتماد کرنا سیکھتے ہیں، جس سے تناؤ کم اور تعاون کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس طرح موثر سفارت کاری میں اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر عالمی ادارے ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

آج دنیا میں فلسطین، کشمیر، یوکرین، میانمار اور دیگر خطوں میں بڑے پیمانے پر خونریزی بلکہ بربادی کا عمل جاری ہے۔ ان تمام علاقوں میں فوری طور پر سفارتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر فلسطین اور اسرائیل صرف دو ریاستی حل اور مذاکرات سے ہی اس تنازعے کا مستقل حل پا سکتے ہیں۔ اس طرح روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے بغیر امن کا قیام ممکن ہی نہیں۔ اس طرح بھارت اور پاکستان کو سفارتی سطح پر بات چیت کرنا ہوگی تب کہیں جا کر جنوبی ایشیا میں تناؤ، کشیدگیوں، دشمنیوں اور جنگوں کا سلسلہ رک سکتا ہے ورنہ ہر کچھ وقفے کے بعد ایسے حالات اور واقعات جنم لیں گے جو کہ دونوں ملکوں کو مدمقابل لا کر کھڑا کر دیں جس کا تازہ ترین مظاہرہ دنیا نے چند روز ہی قبل دیکھ لیا۔

جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ نت نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ دنیا کو اب اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ سفارت کاری ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو کہ انسانیت کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی رہنما اپنی انا اور مفادات سے بالاتر ہو کر امن اور سلامتی کے لیے مخلصانہ کوشش کریں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بھر میں جاری جنگوں کی آگ پر ٹھنڈی میٹھی سفارت کاری کا پانی فراوانی سے ڈالا جائے، تاکہ آنے والی نسلیں امن اور خوشحالی کی فضا میں سانس لے سکیں۔

آئیے، ہم سب بطور فرد اور قوم یہ عہد کریں کہ نفرت کی آگ کو بہر صورت بجھائیں گے۔ اپنے الفاظ کو تلوار نہیں، محبت کا ہتھیار بنائیں گے۔ اختلافات کو بہتری کا ذریعہ سمجھیں گے، کمزوری اور تباہی کا نہیں اور یہ کہ اپنے ہر قدم، ہر لفظ، ہر عمل کو امن کی تعمیر کے لیے وقف کریں گے کیونکہ جنگ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بجز ایک خالی زمین، ایک خالی دل، اور ایک خالی مستقبل کے باقی کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے