چترال کے بے آب و گیاہ پہاڑوں میں تین سرسبز و شاداب وادیاں بستی ہیں اور ان میں ایک ثقافت، ایک تہذیب اور ایک مخصوص روایات کا امین قبیلہ رہتا ہے۔ اس کو کیلاش قبیلہ کہتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہ صرف پاکستان اور پاکستان میں صرف چترال میں پائے جاتے ہیں۔ چترال میں بھی محض تین وادیوں تک محدود ہیں اور ان تین وادیوں میں بھی یہ اقلیتی گروہ ہے۔ تین صدیوں تک چترال میں حکمرانی کرنے والا یہ قبیلہ آج بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔
بچا کھچا کالاش قبیلہ ہر سال اپنا مذہبی اور ثقافتی تہوار جوش و خروش سے مناتا ہے۔ اس سال جنگی ماحول نے بین الاقومی اور ملکی سیاحوں کو آخر تک روکے رکھا تاہم ایک بڑی تعداد پھر بھی چلم جشٹ تہوار دیکھنے آئی۔ اس تہوار کو آمدِ بہار کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔
کالاش قبیلہ اپنی قدیم روایت کے مطابق کئی ایک تہوار مناتا ہے تاہم ان میں سب سے مشہور چلم جشٹ، اُچل اور چترماس ہیں۔ چلم جوشی یا چلم جشٹ میں تین روز بھرپور انداز میں تقریبات ہوتی ہیں۔ جشن کا آغاز دودھ پلائی رسم سے ہوتا ہے۔ پہلے دن یعنی 14 مئی کو کالاش لڑکیاں اپنے روایتی رنگ بہ رنگ اور زرق برق لباس پہنے، ہاتھوں میں دودھ کا کاسہ، کٹورا، بالٹی اٹھائے ٹولیوں میں مویشی خانوں کے سامنے جمع ہو جاتی ہیں۔ ایک لڑکا گلے میں ڈھول ڈالے آتا ہے اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ لڑکیاں ناچتی گاتی کیلاش رقص کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کو دودھ پیش کر رہی ہوتی ہیں۔ پہلے دن کی تقریبات جلد ختم ہو جاتی ہیں اور جشنِ طرب وادی بمبوریت کے بالائی علاقے میں اختتام پزیر ہوتی ہے۔ البتہ دوسری کیلاش وادی "رومبور ” میں ریل پیل زیادہ ہوتی ہے۔
دوسرے دن وادی کے وسط میں اہتمام ہوتا ہے۔ دن دو بجے کالاش مرد اور خواتین ہاتھوں میں اخروٹ کی ٹہنیاں لہراتے ہجوم کی صورت "چاؤ” میں داخل ہوتے ہیں اور کیلاش رقص شروع ہو جاتا ہے۔ یہ عصر تک جاری رہتا ہے۔ تیسرے دن یہ رسم وادی کیلاش کے پست مقامات میں منائی جاتی ہے اور یوں 16 مئی کو ان کی آخری عید ہوتی ہے مگر جوش و جذبہ، رونقیں اور رنگینیاں ایسی جو اپنی عیدین کے پہلے دن بھی دیکھنے کو نہیں ملتیں۔
وادی کیلاش اپنے ہاں لندن کا Hyde Park ہے۔ اور اس کے کچھ مخصوص مقامات ایک خاص تناظر میں Speaker’s Corner کا کام کرتے ہیں۔ چترالی لوگ سال بھر اس کوئے ملامت کو جاتے ہیں اور فرسٹیشن نکال آتے ہیں۔وادی میں داخل ہوتے ہی اونچے سُروں میں موسیقی پہاڑوں سے ٹکرانے لگتی ہے۔ وادی کے وسط یا بالائی حصے میں ندی کنارے پڑاؤ ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور دور چلتے ہیں۔ ملکی، غیر ملکی اور مقامی، سب اس طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ پیرِ مغاں مردِ خلیق ہے یا پھر جذب و شوقِ خیالِ گُل و کیفِ صہبائے کالاش، یہ وادی زیارت گاہِ خاص و عام اور اہلِ دیر و حرم ہے۔ انہیں وادیوں اور اس کے باسیوں کی مخصوص تقافت، تہوار، رسم و رواج اور زندگی کے طور طریقے، ایک طرف انہیں سب سے الگ اور جداگانہ رنگ میں پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف پورے علاقے کو ایک تشخص اور پہچان دیتے ہیں۔ شیخ حرام کہے یا حلال، اس مینائے غزل میں ذرا سی باقی ہے۔