آج کا ابو جہل

جو دماغی حالت اس وقت بھارت کے نام نہاد شاعر جاوید اختر کی ہے، یہی حالت اگر کسی کی جسمانی طور پر ہو تو لوگ اسے آبادی سے دور، جنگل میں چھوڑ آتے ہیں۔ بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ جسم میں کیڑے پڑ جاتے ہیں، تعفن اٹھتا ہے، آبلوں سے پیپ اور خون رسنے لگتا ہے، جزام اور کوڑھ سے بدتر حالت ہو جاتی ہے۔

بالکل یہی کیفیت اس کے دماغ کی ہے۔ یہ ایک ایسا ذہن ہے جس میں لفظ زندہ نہیں رہتے، خیالات سڑتے ہیں، اور افکار بدبو دینے لگتے ہیں۔

اگر وہ دماغی طور پر درست ہوتا، اگر وہ واقعی پڑھا لکھا ہوتا، اگر وہ صحیح معنوں میں انٹلیکچوئل ہوتا، اگر وہ کوئی علمی شخصیت ہوتا، اگر ادب سے اس کا کوئی سچا تعلق ہوتا—تو کیا وہ خدا کو نہ پہچان پاتا؟
خالقِ کائنات سے انکار کوئی نئی بات نہیں، مگر جب انکار جہالت کے کوڑے دان سے اٹھ کر آتا ہے تو وہ صرف ناپسندیدہ ہی نہیں، بلکہ قابلِ رحم ہو جاتا ہے۔

جو شخص دماغی، ادبی، علمی طور پر صفر ہے، بیمار ہے، تعفن زدہ ہے—اس سے آپ اور کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟

جاوید اختر نہ شاعر ہے، نہ فلسفی، نہ مفکر۔ وہ فقط فلمی مکالمہ نویس ہے، جس کی روح فلمی اسکرپٹس میں کھپ چکی ہے اور جس کی "شاعری” رقص گاہوں کے شور میں دفن ہو چکی ہے۔

افسوس تو ان پر ہے جو اس بیماری کو سر پر لا بٹھاتے ہیں، اس کے قدم چومتے ہیں، اس کے ہر زہر کو امرت سمجھ کر پیتے ہیں۔ فیض احمد فیض کی صاحبزادی اور نواسے کو اگر جاوید اختر کی اور فیض کی شاعری میں فرق کرنا نہ آیا، تو یہ صرف ذوق کا افلاس نہیں، ادبی دیوالیہ پن بھی ہے۔

کہاں فیض کی بغاوت جو انسانی وقار، طبقاتی انصاف، اور آزادی کی خوشبو سے لبریز تھی—اور کہاں یہ فلموں کے لیے جنس زدہ گانے لکھنے والا۔ اس کی شاعری سے بہتر اشعار تو ہمارے ہاں ٹرکوں اور بسوں پر لکھے ہوتے ہیں—کم از کم ان میں سچائی، ہنر، اور عوامی جمالیات تو ہوتی ہے۔

(عدیل ہاشمی کو جاوید اختر کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور ہذیان گوئی پر آواز اٹھانی چاہیے اور اس کے قدموں میں لپٹ لپٹ کر بیٹھنے کی پاکستانیوں سے معذرت کرنی چاہیے)

جاوید اختر کا دل اور دماغ بند ہیں، اور وہ اندھیرے راستے پر ٹامک ٹوئیاں مارتا، لڑکھڑاتا، گرتا پڑتا چلا جا رہا ہے۔

یہ وہ شخص ہے جو تہذیب کے جسم پر سیکولرزم کا جعلی کمبل ڈال کر بے حیائی کی تھرتھراہٹ کو ترقی کا نام دیتا ہے۔ یہ وہ ہے جو مذہب کو نشانہ بناتا ہے، لیکن مذہب سے نابلد ہے۔
اسے نہ اسلام کی روح کا پتہ ہے، نہ کسی اور مذہب کی حرمت کا۔ وہ صرف ایک شوریدہ ذہن شخص ہے جو ہر روشنی کو بجھانے کی کوشش میں خود جل کر راکھ ہو رہا ہے۔

اگر مرنے سے پہلے قدرت نے اس کے نصیب میں ہدایت لکھی ہے، تو بہت اچھی بات ہے اور خوشی کی بات ہے۔
اور اگر ایسا نہیں ہے، تو یہ ایسے ہی اندھیرے راستوں پہ ٹھوکریں کھاتا، اندھوں، گونگوں اور بہروں کی طرح چلتا رہے گا۔

اور ہم؟ ہم اسے دیکھتے رہیں گے… اس کے الفاظ کے تعفن سے منہ موڑ کر، مگر دل میں یہ دعا لیے کہ شاید کبھی کوئی جھونکا آئے… جو اسے جگا دے، یا کم از کم خاموش کر دے۔

"مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ۔
صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ۔”
ترجمہ:
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پھر جب اس نے اس کے اردگرد کو روشن کر دیا، اللہ نے ان کا نور لے لیا اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا، جہاں وہ کچھ نہیں دیکھتے۔
وہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ واپس نہیں آئیں گے۔
(سورۃ البقرہ، آیت 17–18)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے