نکاح سچی محبت کا دروازہ

محبت کیا ہے؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ہر دور میں مختلف انداز سے جواب دیا گیا، مگر اس کا اصل مفہوم ہمیشہ تلاش طلب رہا ہے۔ محبت محض ایک جذباتی کیفیت یا وقتی کشش کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک گہرا روحانی، ذہنی اور جذباتی رشتہ ہے جو انسان کے دل سے نکل کر اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

جب انسان اپنی زندگی کے ایک خاص مرحلے میں داخل ہوتا ہے، تو وہ اپنے جیسے ہم مزاج، ہم خیال اور اپنے احساسات کو دوسروں میں تلاش کرتا ہے۔ یہی تلاش اکثر دوستی اور بعض اوقات محبت کا سبب بن جاتی ہے۔ اس مرحلے میں انسان کو محبت کرنے والے دوست اور سب سے اہم زندگی بھر کے لیے مخالف جنس سے اپنا ہم سفر ساتھی درکار ہوتا ہے جو اسے سمجھے، اپنائے، اور نکاح کر کے اس کے ظاہر و باطن سے جڑ جائے۔

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بھی محبت کو ایک اعلیٰ اور پاکیزہ جذبے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

قرآن کریم میں نکاح اور میاں بیوی کے درمیان محبت کو ایک عظیم نعمت اور اللّٰہ تعالیٰ کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ اس رشتے میں محبت، سکون، رحمت اور مودّت کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
”اور اس (اللہ) کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔“ (الروم)

یہاں اللّٰہ کریم میاں بیوی کے رشتے کی روحانی، جذباتی اور نفسیاتی اہمیت کو واضح کرتے ہیں، جہاں محبت (مودّت) اور رحمت بنیادی عناصر ہیں۔ قرآن کریم میں نکاح کو صرف جسمانی یا قانونی بندھن نہیں بلکہ ایک روحانی، جذباتی، اور سماجی رشتہ قرار دیا گیا ہے، جس کی بنیاد سکون، محبت، مودّت اور رحمت پر ہے۔ اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے۔

’’میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، جو میری سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔ (بخاری)

نکاح بذاتِ خود اطاعت اور عبادت ہے، نکاح کا ایک بڑا مقصد پرہیزگاری اور تقویٰ ہے۔ محبت کو نکاح میں بدلنے کی وجہ اس کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ سکون وآرام اور راحت کا ذریعہ ہے۔ نکاح سنت ِ انبیاء ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

چار چیزیں انبیاء کرام (علیہم السلام) کی سنت میں سے ہیں:حیاء ،خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح‘۔ (ترمذی)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب نکاح کیا تو اس وقت موسیٰ علیہ السلام کے پاس کچھ بھی نہیں تھا ، بلکہ صرف آپ علیہ السلام کا خوب صورت کردار ہی نکاح کی وجہ بنا۔ آپ علیہ السلام کی سیرت کے اس پہلو سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچا رشتہ محض مال و دولت پر نہیں بلکہ کردار، امانت اور دیانت پر قائم ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس مال و دولت نہ ہونے کے باوجود ان کا رشتہ اس بنیاد پر قائم ہوا کہ وہ ایک با کردار ، نیک، سچے اور دیانت دار انسان تھے۔

آج کے معاشرے میں جب کسی لڑکی کے لیے رشتہ آتا ہے، تو اکثر اوّلین ترجیح لڑکے کی ظاہری خوب صورتی، مال داری یا معاشی اسٹیٹس ہوتی ہے۔ اسی طرح لڑکے بھی اکثر خوبصورت چہرہ یا گھرانے کی حیثیت کو اوّلین بنیاد بناتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ:

کیا یہ چیزیں محبت کہلاتی ہیں؟

کیا ظاہری کشش (Physical Attraction)، جذباتی وابستگی (Emotional Attachment) یا مالی مفاد (Financial Interest) کو محبت کا نام دیا جا سکتا ہے؟

ہمارے معاشرے میں تین قسم کی ”محبتیں“ زیادہ رائج ہیں:

1: ظاہری کشش (Physical Attraction):

اس میں انسان صرف دوسرے کے حسن، جسمانی ساخت یا انداز سے متاثر ہو کر محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔ مگر جب وہ خوبصورتی وقت کے ساتھ ماند پڑتی ہے، تو محبت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی حسن گیا، تو محبت بھی گئی۔

2: جذباتی وابستگی (Emotional Attachment):

اس محبت میں انسان صرف اس وقت تک خوش ہوتا ہے جب تک دوسرا اس کے جذبات کی تسکین کا ذریعہ بنا رہے۔ جیسے ہی جذباتی تسکین میں کمی آتی ہے، محبت کی بنیاد بھی ہلنے لگتی ہے۔ یعنی خود غرضی پر مبنی وابستگی، جو خودی ختم ہونے پر بکھر جاتی ہے۔

3: مالی مفاد (Financial Interest):

اس قسم کی محبت میں رشتہ صرف دولت، جائیداد، تنخواہ یا معاشی سیکیورٹی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ جیسے ہی مالی مشکلات آئیں، محبت بھی دم توڑ دیتی ہے۔

ان تینوں اقسام کی کمزوری یہ ہے کہ یہ وقتی ہوتی ہیں، اور ان کی بنیاد کمزور ہوتی ہے۔ جب بنیاد ختم ہوتی ہے، تو رشتہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ در اصل محبت ہی نہیں ہیں بلکہ مفاد کہہ سکتے ہیں۔ اسلام نے ہمیں جو محبت سکھائی ہے وہ خالص، بے لوث اور اللہ کے لیے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مفہوم): جب تم کسی سے رشتہ کرو تو اس کے دین و تقویٰ کو ترجیح دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو نقصان اٹھاؤ گے۔

ایک اور حدیث کا مفہوم ہے:

محبت کرو صرف اللّٰہ کے لیے، اور دشمنی کرو بھی اللہ ہی کے لیے۔ یہی وہ بنیاد ہے جو محبت کو مضبوط بناتی ہے۔

جو لوگ کسی کی سیرت، نیک کردار، روحانیت اور خلوص سے محبت کرتے ہیں، وہی دراصل سچی اور دیرپا محبت کے قابل ہوتے ہیں۔ ایسی محبت وقت، حالات، روپ، جسم، مال اور جذباتی اتار چڑھاؤ سے متاثر نہیں ہوتی، بلکہ یہ محبت روح سے روح کا رشتہ بناتی ہے، مخالف جنس کو نکاح میں تبدیل کر کے ایک خوبصورت بندھن میں بندھ جاتی ہے، جو وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتی ہے۔ جب کہ اس دنیا میں انسان کے کئی ہم عمر ، دوست بھی ہوتے ہیں ، اور وہ مزید دوست بھی بناتا ہے۔ جو خوشی ، غمی میں ، ہر مشکل وقت میں بھی انسان کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو شخص آپ سے محبت کا دعوے دار ہے کیا وہ واقعی آپ سے محبت کرتا ہے؟ تو آپ کچھ سوالات سامنے رکھتے ہوئے ان کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔

1: جو محبت آپ نے کی ہے، یا کوئی آپ سے محبت کا دعوے دار ہے کیا وہ محبت آپ کو اللّٰہ تعالیٰ سے قریب کر رہی ہے یا اللّٰہ تعالیٰ سے دور کر رہی ہے۔ اس سوال کا جواب آپ کو صحیح اور غلط کا فرق بتا دے گا۔

2: کیا جو شخص آپ سے محبت کرتا ہے وہ آپ کی حدود کا احترام کرتا ہے۔ ؟ مثال کے طور پر آپ سے کوئی شخص محبت کرتا ہے تو آپ نے اس پہ کوئی حدود و قیود لگا دی ہیں کہ آپ نے میری ان حدود کا خیال رکھنا ہے۔ کیا وہ عمل کرتا ہے یہ سوال اور اس کا جواب بھی اہم ہے۔

3: نصیحت و اصلاح کا جذبہ: کیا وہ شخص آپ کی اصلاح کا خواہاں ہے یا صرف دنیاوی لذت و خوشنودی کا طالب ہے؟ حقیقی محبت کرنے والا شخص امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا جذبہ رکھتا ہے۔

4: حفظِ نفس اور معاونت برِ خیر: کیا وہ آپ کی عزتِ نفس، مقاصدِ حیات اور دینی و دنیاوی کامیابی کے لیے معاون و مددگار ہے؟ محبت فی اللّٰہ میں انسان دوسرے کی روحانی اور عملی ترقی کا خواہاں ہوتا ہے، نہ کہ اس کی ذات کو دبا کر اپنے مفادات حاصل کرنے والا۔

محبت، اگر صرف وقتی تسکین، جسمانی کشش یا دنیاوی مفادات تک محدود ہو، تو وہ محبت نہیں بلکہ ایک فریبِ نظر ہے، جو وقت کے تھپیڑوں میں بہہ جاتا ہے۔ اگر محبت اللّٰہ کے لیے ہو، دین و تقویٰ کی بنیاد پر ہو، رضائے الٰہی اور اسلام کی وفاداری پر استوار ہو، تو یہی محبت ”محبت فی اللّٰہ“ کہلاتی ہے، جو نہ صرف اس دنیا میں روحانی سکون کا باعث بنتی ہے بلکہ آخرت میں بھی نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اس دن (قیامت کے دن) دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے، سوائے پرہیزگاروں کے۔“ (الزخرف: 67)

یاد رہے یہی زندگی وہ امتحان کی جگہ ہے جہاں ہمیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہم کس بنیاد پر محبت کرتے ہیں؟ کیا وہ محبت ہمیں اللّٰہ کے قریب کر رہی ہے یا اس کی نافرمانی کی طرف؟ کیا وہ شخص جسے ہم نے دل دیا، وہ ہمارے دین، ہماری عزتِ نفس اور ہماری روح کی پاکیزگی کا محافظ ہے یا صرف جذبات کا کھلا کھلونا بنا رہا ہے؟

یاد رکھیے! مرد و عورت کے لیے نکاح ایک مقدس رشتہ ہے، اور مرد و عورت کی سچی محبت اسی دروازے سے گزرتی ہے۔ اگر محبت سچی ہے، تو وہ نکاح کی صورت اختیار کرے گی، ورنہ وہ صرف خواہشات کا کھیل ہے۔

لہٰذا، اپنے جذبات کو ایمان کی روشنی میں پرکھیں، اپنی وابستگیوں کو شریعت کی کسوٹی پر تولیں، اور یاد رکھیں کہ سچی محبت وہی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو، اور جو ہمیں گناہ سے نکال کر تقویٰ، حیا، اور قربِ الٰہی کی طرف لے جائے۔ فیصلہ کیجئے! کیا آپ کی محبت آپ کو جنت کے راستے پر گامزن کر رہی ہے؟ اگر ہاں، تو وہ محبت نعمت ہے۔ اگر نہیں، تو وقت ہے کہ خود کو سنواریں، کیونکہ جو محبت اللّٰہ تعالیٰ کے لیے ہو، وہی محبت دائمی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے