ناول ” لوگ کیا کہیں گے”پر تبصرہ

"ضمیر، روایت اور معاشرت کے ملبے تلے دبی انسانیت کی تلاش”

میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک طالب علم ہوں، لیکن ادب سے میرا تعلق دل کی زمین سے اگنے والے اس بیج کی مانند ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک سایہ دار شجر میں ڈھلنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگرچہ میری تعلیمی کی راہیں سائنسی و تکنیکی علم کی طرف جاتی ہیں، لیکن فطرت کا ایک پہلو مجھے بارہا ان کہی کہانیوں، بےزبان جذبات، اور گہرے سماجی تضادات کی طرف کھینچ لاتا ہے۔ یہی جذبہ مجھے اردو ادب کی طرف لے آیا، اور اسی جذبے کے تحت میں نے کامران احمد کے ناول "لوگ کیا کہیں گے” کا مطالعہ کیا—جو بظاہر ایک کہانی ہے، لیکن درحقیقت معاشرتی جبر، مذہبی تضاد، خاندانی روایتوں، اور ذاتی حریت کے مابین ایک جنگ کی داستان ہے۔

یہ مضمون اسی ناول پر مبنی ایک فلسفیانہ و سماجیاتی تجزیہ ہے جو سوالات سے جنم لیتا ہے اور سوالات ہی پر تمام ہوتا ہے—کیونکہ جو ادب سوال نہ اٹھائے، وہ صرف تفریح ہوتا ہے، بصیرت نہیں۔

کیا انسان واقعی آزاد ہے؟ کیا معاشرہ ہمارا محافظ ہے یا ہمارا قید خانہ؟ کیا روایت مذہب کی آڑ میں صرف کمزوروں کو کچلنے کا ہتھیار بن چکی ہے؟ اور کیا محبت، جو دلوں کا رشتہ ہے، واقعی مذہب، ذات اور دولت کے فصیلوں سے ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہے؟

کامران احمد کا ناول بظاہر تین یونیورسٹی کے دوستوں احمد، حسن اور علی کی کہانی ہے، لیکن درحقیقت یہ تین کردار تین مختلف معاشرتی زاویوں کا نمائندہ ہیں۔ احمد ایک مالدار سنی گھرانے کا چشم و چراغ ہے، جو ایک غریب شیعہ لڑکی سارہ سے محبت کرتا ہے؛ حسن، ایک خوشحال مگر روایت پسند خاندان سے ہے جو سلمہ نامی ایک غریب لڑکی کو چاہتا ہے؛ اور علی، جو مذہبی رجحان رکھنے والا نوجوان ہے، ایک عیسائی لڑکی مریم کی محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تینوں کہانیاں الگ ہیں، مگر جبرِ معاشرہ اور رویوں کی سختی انہیں ایک ہی محور پر لے آتی ہے۔

احمد کی کہانی اس نکتے پر ضرب لگاتی ہے کہ مذہب اور فرقہ واریت کس طرح محبت کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتے ہیں۔ جب ایک شیعہ لڑکی سے محبت کرنے پر احمد کو اپنے ہی والد کی طرف سے طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو قاری سوال کرتا ہے: کیا فرقے کی بنیاد پر محبت کو رد کر دینا، دینِ اسلام کی اصل روح سے میل کھاتا ہے؟

حسن اور سلمہ کا قصہ طبقاتی تقسیم پر ایک تلخ تبصرہ ہے۔ جب حسن کے والد راشد، جو بظاہر ایک شفیق انسان ہیں، سلمہ کو "غریب گھرانے” کی بنا پر رد کر دیتے ہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں انسان کی قدر صرف اس کے مالی درجے سے کی جاتی ہے؟ حسن کا باپ بعد میں اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ معاشرتی سوچ بدلی جا سکتی ہے—اگر ضمیر جاگ جائے۔

علی اور مریم کی کہانی مذہبی عدم رواداری کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ علی کے والدین، جو نسبتاً معتدل اور سمجھدار دکھائے گئے ہیں، اس رشتے کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ مریم کے ذریعے مصنف نے وہ سارے تضادات عیاں کیے ہیں جو بظاہر اسلامی تعلیمات کے سائے میں پلتے ہیں مگر دراصل انہی تعلیمات کے خلاف ہوتے ہیں۔ مریم کی گفتگو، جس میں وہ اسلام کی سچائی اور اس پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں کی منافقت کو بے نقاب کرتی ہے، ناول کا سب سے قوی اخلاقی و فکری گوشہ ہے۔

ناول کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہاں کردار صرف بولتے نہیں، سوچتے بھی ہیں۔ ہر کردار کا اپنا ایک باطنی کرب ہے، جو صرف مکالموں کے ذریعے نہیں بلکہ ان کے عمل، خاموشیوں، اور اندرونی تضاد کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ نفسیاتی پہلو ناول کو محض ایک داستان نہیں، بلکہ ایک زندہ تجربہ بناتا ہے۔

احمد کا والد، جو سوسائٹی کی رائے کو ہر شے پر مقدم رکھتا ہے، ایک علامت ہے اُس ذہن کی جو "لوگ کیا کہیں گے” کے خول سے باہر نہیں آ سکتا۔ اور یہی خول اصل قید ہے، جو ہر کردار کی راہ میں حائل ہے۔

ناول میں کئی موقعوں پر مذہب کا حوالہ آیا ہے—لیکن جس انداز میں مذہب کو برتا گیا ہے، وہ محض رسمی نہیں بلکہ تنقیدی بھی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ناول ایک آئینہ ہے جو ہمیں وہ چہرہ دکھاتا ہے جو ہم خود دیکھنا نہیں چاہتے۔

خاتمے کی طرف آتے ہوئے جب احمد اپنے والد کو کہتا ہے کہ "میں نے سارہ سے شادی کر کے کوئی غیر اسلامی کام نہیں کیا،” تو یہ جملہ ناول کا نچوڑ بن جاتا ہے۔ مذہب کا حوالہ، دلیل کے طور پر آتا ہے نہ کہ بطور ہتھیار۔ اور جب مریم آخر میں کہتی ہے کہ "اب میں سچائی پر عمل کرنا چاہتی ہوں لیکن اس گھر میں رہ کر نہیں کر سکتی،” تو قاری چونک اٹھتا ہے۔ کیا مذہب کی سچائی صرف کتابوں میں ہے یا معاشرتی رویے بھی اس کا حصہ ہیں؟

اختتام اگرچہ کچھ کرداروں کی تبدیلی کی نوید دیتا ہے، لیکن سوال وہیں رہ جاتے ہیں:

کیا معاشرہ واقعی بدل رہا ہے یا صرف کرداروں کے مکالمے نرم ہو گئے ہیں؟

کیا سچائی پر چلنے کا خواب صرف مریم جیسی کرداروں تک محدود ہے؟

کیا ہم میں سے ہر احمد، حسن یا علی اپنے اپنے "لوگ کیا کہیں گے” سے آزاد ہو سکتا ہے؟

یہ ناول ایک صدا ہے ان سب کے لیے جو سماج، مذہب، اور ذات کے بیچ پِس رہے ہیں۔ اور یہ تحریر میری ایک کوشش ہے کہ میں اُس صدا کو مزید بلند کر سکوں—کیونکہ اگر سوال زندہ ہیں، تو شاید ہم بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے