"اختلاف فطری ہے، رکاوٹ نہیں — اصل رکاوٹ استحصالی قیادت ہے”

انسانوں کے مابین نظریاتی اختلافات دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک اصولی اور دوسرا فروعی۔ لیکن اس کے باوجود انسانوں میں بہت سے اتفاقات بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً مختلف نظریات رکھنے والے انسانوں کے جسمانی اعضا جیسے آنکھ، کان، دل، خون اور دماغ سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ انسان نظریاتی اختلافات کے باوجود چونکہ جسمانی ساخت میں مشترک ہیں، اس لیے انسانی جسم کے علاج وغیرہ کے لیے ہمیشہ مشترکہ کوششیں کی گئی ہیں۔ کبھی کسی نے دوسرے انسان کے ساتھ صرف نظریاتی اختلاف کی وجہ سے اس طرح اختلاف نہیں کیا کہ وہ اسے کینسر کی دوا بنانے سے روکے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظریاتی اختلافات خواہ کتنے ہی شدید کیوں نہ ہوں، وہ انسانوں کے درمیان مشترکہ مسائل کے حل میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ اور اگر کوئی شخص یا قوم ان مشترکات کے دائرے میں بھی نظریاتی اختلافات کو رکاوٹ بناتی ہے تو وہ یا تو جہالت کی انتہا پر ہے یا مفاد پرستی میں فساد کا امام بن چکی ہے۔

ذرا غور کیجیے: جس طرح ہمارے جسم اور اعضا مشترک ہیں، اسی طرح امن، پانی، صحت، خوراک اور ماحولیات بھی ہم سب کے لیے مشترک ہیں۔ لیکن ان معاملات میں ہمارا رویہ ایسا نہیں جو مشترکہ ہونا چاہیے، بلکہ ان کے حوالے سے ہمارے نظریاتی اختلافات اتنے شدید ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے آپ، اپنے بچوں، والدین اور بہن بھائیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، صرف اس لیے کہ ہماری نظریاتی تسکین ہو جائے۔

اگر اس دور کو "عصرِ جاہلیت” نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ اس قسم کے ناروا نظریاتی اختلافات کے پیچھے یا تو وہی جاہلانہ رویہ کارفرما ہوتا ہے جو انسان کو ابن جہل(ابو جہل مناسب نہیں لگا اس لیے ابن لکھا) بنا دیتا ہے، یا پھر ایسا شخص محض اپنی انا، مفاد پرستی اور فساد کی وجہ سے ایک معاشرتی بیماری کے صورت میں نمودار ہوا ہے۔

ہمارے ہاں لبرلز، سیکولرز، قوم پرست، عاشقان خان اور مذہبی طبقات میں یہی رویے شدت سے دیکھنے کو ملتے ہیں — اور حیرت ہے کہ کچھ دانشور ان نوجوانوں کو باشعور تعلیم یافتہ بھی کہتے ہیں!

یاد رکھیے، نظریاتی اختلاف عقل و علم کی بنیاد پر ہوتا ہے، لیکن مذکورہ بالا اختلافات جہالت یا فساد پر مبنی ہیں۔
جب علم و عقل باقی نہ رہیں تو نظریاتی اختلاف، ذاتی اختلاف بن جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں نظریاتی اختلاف کا نام محض اپنوں کی ذہنی و جذباتی توہین اور دوسروں کی بےعزتی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کی مثال چائیے تو اسلام کی تعلیمات جیسے جہاد، پردہ، قصاص اور حدود کے حوالے سے عصری تعلیم یافتہ لوگوں کے رویوں کو ملاحظہ کریں —ان کے اعتراضات دیکھیں ،بہیودہ قسم کی مثالیں دیکھیں اگرچہ یہ لوگ ان تعلیمات کی "ا” "ب” بھی نہیں جانتے۔ یہ دراصل ذاتیات، جہالت اور فساد ہیں، نظریاتی اختلاف ہرگز نہیں۔

اسی طرح اصولی نظریاتی اختلاف کی بجائے ہمارے ہاں نعرہ ہوتا ہے: "میری پارٹی کا فساد زندہ باد، تمہاری کا مردہ باد!” جبکہ اصل نظریاتی اصول تو یہ ہوتا کہ فساد جہاں بھی ہو، اس کی مخالفت کی جائے۔

لہٰذا ہمارے ہاں سیاسی اختلافات بھی درحقیقت نظریاتی نہیں بلکہ ذاتی، شخصی، مفاد پرستی اور شخصیت پرستی پر مبنی ہیں۔ یہی حال مذہبی اور قوم پرست گروہوں کا ہے، جن کے اختلافات بھی ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، جنہیں ہم گالیوں کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ اختلافات قوم کے لیے نہیں، بلکہ ذاتی اور گروہی تشہیر کے لیے ہیں۔ اگر یہ نظریاتی ہوتے تو ان میں سنجیدگی اور دلیل ہوتی، نہ کہ جہالت اور گالی گلوچ۔

بدترین حال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارے لیڈروں کی جہالت، تعصب اور خود پرستی کی نشاندہی کرے تو ہم اُلٹا اُسے گالیاں دیتے ہیں۔

یہ ہمارے حالات کی سنگینی ہے کہ ہم اپنے دشمن کو ہیرو اور اپنے خیرخواہ کو بدترین گالیاں دیتے ہیں۔

میں اُن تمام لوگوں کو دعوتِ فکر دیتا ہوں جو مختلف گروہوں سے منسلک ہیں کہ میری ان گزارشات کی روشنی میں اپنے اور اپنے لیڈروں کے رویوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔ اگر آپ کو ان رویوں میں جہالت، ذاتی مفاد پرستی، شخصیت پرستی اور انا پرستی نظر نہ آئے تو میں معذرت چاہتا ہوں۔

ورنہ آپ کو یہ ضرور سمجھ آ جائے گا کہ ہمارے دماغوں کو مفلوج، کانوں کو بہرا، اور آنکھوں کو اندھا کر دیا گیا ہے۔ وہ لیڈر یا گروہ جنہیں آپ اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، حقیقتاً آپ اور آپ کے خاندان کے دشمن ہیں، اور جنہیں آپ قوم کا خیرخواہ کہتے ہیں، وہ درحقیقت قوم کو مزید پستی میں دھکیل رہے ہیں۔

اگر آپ کسی لیڈر کی بدانتظامی، مہنگائی، بےروزگاری، یا کرپشن کے دفاع کے لیے استعمال ہو رہے ہیں تو خود فیصلہ کیجیے: کیا آپ "ابو العقل” ہیں یا "بیوقوفوں کے امام”؟

اس سے بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح ہوتا ہے کہ ہمارے مسائل کے حل نہ ہونے کی بنیاد ہمارے ناروا، جاہلانہ، معتصبانہ، فرقہ پرستانہ، شخصیت پرستانہ اور پارٹی پرستانہ رویے ہیں۔ مسائل کے درست رخ میں حل کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہم اپنے رویوں کو بدلیں، اور رویوں کے بدلنے کے لیے ہمیں معقولیت کی طرف آنا ہوگا، اصولی بنیادوں پر کسی بات کو قبول یا رد کرنے کی طرف آنا ہوگا، سیاست کو اس کے اصل اصطلاحی مفہوم کے ساتھ کرنا ہوگا، اور اسے نفرت، خود پسندی، ذاتی پسند و ناپسند کے دائرے سے نکال کر اپنے، اپنے بچوں، قوم، ملک اور عوام کے مسائل کے حل کے رخ پر ڈالنا ہوگا۔

یقین کریں، ہمارے اکثر سیاسی، سماجی اور قومی راہنماؤں نے ہمیں آپس کی نفرتوں کا شکار کیا ہے اور ہم اسی نفرت میں وہ اصولی باتیں ہی بھول گئے جو ملک، قوم اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اگر کوئی امن کے لیے جلسہ کرتا ہے اور وہ ناکام ہوتا ہے، تو دوسرے کو خوشی ہوتی ہے کہ شکر ہے ناکام ہوا۔ کیا یہ رویہ صاف ظاہر نہیں کرتا کہ ہمیں قوم کے مسائل سے کچھ بھی لینا دینا نہیں بلکہ صرف اپنے پسندیدہ شخص یا پارٹی کو آگے دیکھنا چاہتے ہیں؟ فرض کرو کہ کسی اور کا جلسہ کامیاب ہوتا ہے، امن کے لیے، اور اس کے نتیجے میں قوم کو کچھ ریلیف ملتی ہے، تو کیا یہ ہمارا فائدہ نہیں؟ ہمارے بچوں کا فائدہ نہیں؟ اسے تعصب، ذاتی اختلاف اور جاہلیتِ خالصہ کے سوا اور کیا کہا جائے؟

اسی طرح اگر ایک حکمران مہنگائی زیادہ کرتا ہے اور کوئی اس کے خلاف احتجاج کرتا ہے، کوئی عوام پر حکمرانوں کے معاشی بوجھ کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، تو وہاں ہم انہی حکمرانوں کی مہنگائی کو سپورٹ کرتے ہیں، ان کے حق میں ان لوگوں کے خلاف بولتے ہیں جو اگر اپنے مہم میں کامیاب ہو جائیں تو ہمیں بھی سکھ کا سانس میسر آئے، ہمارے بچے بھی سردی اور گرمی میں کپڑے خرید سکیں، مگر افسوس کہ ہم ایسے حالات میں انہیں لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں جن کی مہم سے ہمیں ممکنہ طور پر فائدہ مل سکتا ہے۔ کیا اسے کوئی ناروا نفرت،اپنے ذات اور بچوں کے ساتھ ظلم کے علاوہ بھی کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے؟
اور اگر ہمیں کسی نے یہ باور کرایا ہو کہ تمہارے مسائل کے حل کا یہی راستہ ہے جو ہم نے اپنایا ہے، تو بڑی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہم نے ایسے شخص کو اپنا خیر خواہ سمجھا ہے، جسے صرف نفسیاتی استحصال کے طریقوں کا فن آتا ہے۔ وہ کوئی سیاسی، سماجی یا مذہبی رہنما نہیں ہو سکتا۔

بہرحال، اگر ہم اپنے رویوں کو بدل کر معقولیت کی طرف آئیں، سیاست کے اصل مقصد کی طرف آئیں، تو ہم باہم نظریاتی اختلافات کے باوجود آپس میں بیٹھ سکتے ہیں اور مشترکہ مسائل پر مشترکہ مؤقف اور جدوجہد کر سکتے ہیں، کیونکہ جو لوگ ضد اور جہالت کے اختلاف کے روادار نہیں بلکہ نظریاتی اختلاف کے قائل ہوتے ہیں، وہ دوسروں کی بات کو دلیل سے قبول بھی کرتے ہیں اور اپنی بات دلیل سے منوا بھی سکتے ہیں۔ مگر ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ نظریاتی ہونا اپنے پیچھے علمی پس منظر رکھتا ہے؛ سنی سنائی کہانیاں، گالیاں، پروپیگنڈے نظریات نہیں بنا سکتے۔

یہ تو ضمنی بات درمیان میں آئی، عرض یہ کیا جا رہا تھا کہ نظریاتی لوگ اختلاف کے باوجود آپس میں بیٹھتے ہیں، ایک دوسرے کے مؤقف کو سنتے ہیں، قبول بھی کرتے ہیں اور رد بھی، مگر علم کی روشنی میں۔ اسی طرح ان کے مابین نظریاتی اختلافات مسائل کے حل کے لیے باہم تعاون کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔

یہاں خصوصاً میں حالیہ حالات کے تناظر میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے حالات کو مثال بنا کر پیش کرتا ہوں۔ کیا اگر یہاں کے تمام سماجی، سیاسی اور مقامی راہنما ایک میز پر بیٹھیں تو مسائل کو حل نہیں کر سکتے؟ کیا اتنے سنگین مسائل کے حل کے لیے ہم نظریاتی اختلافات کے ہوتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے؟ کیا نظریاتی ہونے کی صورت میں ہمارا کسی نکتہ پر متفق ہونا عین منطقی بات نہیں؟ یقینا ایسا ہی ہے کہ نظریاتی لوگ مشترکہ مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کاوشوں پر بھی اکٹھے ہوتے ہیں، اور قوم و عوام کی خاطر خیر خواہانہ اور مخلصانہ مکالمے کے ذریعے مسائل کے حل کے حوالے سے ایک مؤقف پر متفق بھی ہو سکتے ہیں۔
اس قسم کے اتفاق و اتحاد کے لیے ہمارے مسائل کچھ بھی نہیں۔ پشتو میں کہا جاتا ہے: “اتفاق تہ غرونہ ہم ہیچ نہ وی”۔

آخر میں عوام، سیاسی، قومی اور سماجی راہنماؤں اور خصوصا نوجوانوں سے گزارش ہے کہ ہم بہت ذلیل ہو چکے ہیں، ہم ایک دوسرے کے رویوں سے معاشی، سماجی امن الغرض ہر حوالے سے متاثر ہو رہے ہیں، ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جا رہا ہے۔ہم ایک ہی سماج کے لوگ ہیں میرے بیٹے کی آوارگی تیرے چاردیواری کو گراتی ہے اور تیرے دھماکے سے میرا مکان متاثر ہوتا ہے۔

خدا کے لیے اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں، سیاست کو مسائل کے حل کے ٹول کے طور پر استعمال کریں۔ مسائل کے حل کے اسی ٹول کو مسائل کے گھمبیر بنانے کا ذریعہ نہ بنائیں ، سیاست سے نفرتیں نہ پھیلائیں، بلکہ مسائل کو حل کریں۔

یہی وہ راہ ہے جو ہمیں اس فکری انتشار، سیاسی انتشار، سماجی زوال، اور شخصی و گروہی تعصبات کے دلدل سے نکال سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر ہم صرف اپنے سیاسی لیڈروں، مذہبی رہنماؤں یا گروہی مفادات کی محبت میں، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک اندھیرا چھوڑ جائیں گے — ایک ایسا اندھیرا جس میں سوچنے والے دماغ، محسوس کرنے والے دل، اور دلیل سے بات کرنے والے زبانیں گم ہو چکی ہوں گی۔

اس لیے اگر ہم واقعی قوم، ملک، اپنے بچوں اور اپنی آئندہ نسلوں سے خیر خواہی چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہم خود کو بدلیے۔ اپنے تعصبات، جذباتی وابستگیوں اور شخصیت پرستی کو ایک طرف رکھیے اور معقولیت، دلیل، فہم و فراست اور علم کو اپنائیے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک بہتر قوم، ایک بہتر معاشرہ، اور ایک باوقار سیاسی و فکری نظام قائم ہو سکتا ہے۔

اختتاماً، میں پھر یہی عرض کروں گا کہ:
نظریاتی اختلافات انسانوں کو دشمن نہیں بناتے، جہالت، انا اور تعصب دشمنی کو جنم دیتے ہیں۔

اگر ہم علم، عقل، دلیل اور خیر خواہی کے ساتھ اختلاف کریں، تو یہی اختلاف ترقی کی سیڑھی بن جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم گالی، بہتان، تذلیل اور اندھی تقلید کے ساتھ اختلاف کریں، تو وہی اختلاف تباہی کا سبب بنتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے