دیامر میں اگر کوئی صدیوں سے چراغ علم و حکمت روشن کیے ہوئے ہے تو وہ ہمارے جید علمائے کرام ہیں۔ یہی وہ صاحبان بصیرت ہیں جنہوں نے نہ صرف ملت کے شیرازے کو بکھرنے سے بچایا بلکہ ایک اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر مظلوم و محکوم متاثرین ڈیم کے حقوق کی بازیابی کی ایک بے مثال تحریک کا سنگ بنیاد رکھا۔ جہاں سیاست دانوں کے خدوخال دھندلا گئے وہاں علمائے کرام نے حوصلے صداقت اور استقامت کی نئی تاریخ رقم کی۔
دیامر کے باسیوں کو اگر آج معاہدہ 2025 کی صورت میں امید کی کوئی کرن نظر آ رہی ہے، تو وہ انہی علماء کی شبانہ روز مساعی کا ثمر ہے۔ وہ حقوق، جو کبھی عارضی مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے کبھی غیر مدبر انتظامی فیصلوں کی نذر ہوئے اور کبھی واپڈا کے مغرور و متکبر افسران کی انا پرستی نے ان پر خاک ڈال دی آج ایک باقاعدہ تحریری معاہدے کی شکل میں لوٹنے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں۔۔۔
افسوس کہ قیادت جن کے ذمہ تھی انہوں نے ہمیشہ مفاداتی سیاست کو قومی خیر کے بلند تر مفادات پر ترجیح دی۔ ڈیم کمیٹیوں کی تشکیل تو کی گئی، مگر یہ کمیٹیاں ایک دن بھی عوامی فلاح کے ایجنڈے پر کاربند نہ ہو سکیں۔ اگر ان کمیٹیوں کے ارکان واقعی مخلص ہوتے تو 18,000 ایکڑ اراضی محض مفت میں واپڈا کو نہ دیتے۔ اگر ان میں رتی برابر دیانت داری ہوتی تو چولھا 40102 کی بنیاد پر عوام کے حقوق کو گروی رکھ کر فہرستوں میں خرد برد نہ کرتے نہ ہی اصل حقداروں کو ویری فکیشن کے بغیر محروم رکھتے۔۔۔
ستم بالائے ستم یہ کہ جب شفافیت کا تقاضا کیا گیا تو انہی انتظامی عناصر نے جیل کی دھمکیاں دے کر غیر قانونی فہرستوں کو رات کی تاریکی میں منظور کروایا۔ اگر یہ سب اہل اختیار واقعی دیامر کے خیرخواہ ہوتے تو 6 کنال زرعی اراضی کو گمشدہ کی فہرست میں شامل کر کے اسے محض ایک تکنیکی غلطی قرار نہ دیتے۔ نہ ہی سینکڑوں نوجوانوں کے لیے مختص ملازمتوں، کمیونٹی بینیفٹ منصوبوں (CBMs) اور دیگر مراعات کو ہضم کر جاتے۔۔۔
دیامر کے عوام کو اب ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ان سیاسی دکانداروں سے فاصلہ اختیار کریں جنہوں نے برسوں صرف وعدوں کے چراغ جلا کر اندھیرے بیچے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے علماء کی بے لوث قیادت کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ یہی وہ علماء ہیں جنہوں نے لگاتار چار ماہ تک سرد و گرم موسم، حکومتی دباؤ واپڈا کی تندخوئی اور سیاسی مفاد پرستوں کی سازشوں کو للکار کر 18,000 ایکڑ اراضی کی کمپنسیشن، 6 کنال زرعی اراضی کی واپسی، اور تقریباً 8000 چولھوں کی منظوری جیسے سنگین مسائل کو مرکز توجہ بنایا۔
اب جبکہ معاہدہ 2025 عوام کے ہاتھ میں آ چکا ہے، لازم ہے کہ اس کی ہر شق کی نگہبانی کے لیے ایک ہمہ جہت، بااختیار اور مؤثر عملدرآمدی ٹیم تشکیل دی جائے۔ میری تجویز ہے کہ علمائے کرام اس مقصد کے لیے ایک عملدرآمدی ورکنگ گروپ کی بنیاد رکھیں۔ یہ گروپ نہ صرف معاہدے کی تمام دفعات پر عملدرآمد کا نگران ہو بلکہ متاثرین کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہ کر ان کے مسائل کا فوری حل بھی یقینی بنائے۔
یہ ورکنگ گروپ متاثرین کے مفادات کا محافظ بن کر سامنے آئے، تاکہ کوئی انتظامی افسر کوئی واپڈا اہلکار، اور کوئی مصلحت پسند سیاسی فرد دوبارہ متاثرین کے اعتماد کو مجروح نہ کر سکے۔ اس گروپ کی حیثیت محض ایک تنظیمی سیٹ اپ نہیں، بلکہ ایک ضمیر کی آواز ہو جو ہر شق کو آئینی، قانونی اور اخلاقی بنیادوں پر نافذ کرنے کی عملی صورت بنے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ ہر معاہدہ محض ایک دستاویز نہیں ہوتا، وہ قوموں کے عزائم، قربانیوں اور جدوجہد کی علامت بھی ہوتا ہے۔ معاہدہ 2025 دیامر کے عوام کی ایک اجتماعی کوشش اور یکجہتی کا مظہر ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس معاہدے کو زندہ رکھیں، یا ایک بار پھر مصلحتوں کی کوٹھری میں دفن کر دیں۔
اس مقام پر یہ تسلیم کرنا اخلاقی دیانت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان و ٹیم نے متاثرین کے حق میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ ان کی بروقت مداخلت اور علمائے کرام کی حمایت نے وفاقی حکومت اور واپڈا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے ایک قائد کی حیثیت سے نہ صرف علماء کی تجاویز کو وزن دیا بلکہ ان مطالبات کو باقاعدہ معاہدے کی صورت میں نافذ بھی کروایا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اجتماعی حقوق کی جدوجہد میں وقتی اختلافات معمول کی بات ہوتے ہیں، مگر قیادت کا خلوص اور عوام کا اعتماد جب ایک صفحے پر آ جائے تو بڑی سے بڑی قوتیں بھی جھکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ دیامر آج ایک تاریخی موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر ہم نے اس موقع کو بھی گنوا دیا تو شاید اگلی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کریں گی۔
لہٰذا -افواہوں کی گرد سے نکل کر یکجہتی کی شاہراہ پر قدم رکھیں۔ علمائے کرام کی قیادت میں ایک منظم اور مؤثر حکمت عملی ترتیب دیں، تاکہ دیامر کے مظلوم عوام کو ان کا جائز حق ملے اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک باوقار، خوددار اور بااختیار دیامر کی بنیاد رکھی جا سکے۔۔