لندن کے گھر ایسے کیوں ہیں

سفید دیواریں، نوک دار چھتیں، بیلوں سے لپٹے ہوئے دالان، چھوٹی کھڑکیوں والے کمرے، اور پرانے انداز کے مگر چھوٹے گھر۔ لندن کی گلیوں میں گھومتے وقت یہ مکان اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اور کسی اور زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔

لندن کے اکثر پرانے گھروں کا طرزِ تعمیر "Tudor Revival” یا "Arts and Crafts” تحریک سے متاثر ہے۔ یہ تحریکیں 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے آغاز میں سامنے آئیں، جب صنعتی انقلاب کی تیزی سے لوگ مشین سے بنے، ایک جیسے مکانات سے اُکتا گئے۔ ان کا رجحان واپس قدرتی، ہاتھ سے بنی چیزوں اور روایتی انگریزی طرزِ زندگی کی طرف مائل ہوا۔

یہ تحریک 1880 سے 1920 کے درمیان مقبول ہوئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مکانات قدرتی ماحول سے ہم آہنگ ہوں، ان میں مصنوعی پن نہ ہو۔ لکڑی، پتھر، اور اینٹ کے قدرتی رنگ اور ساخت کو نمایاں رکھا جاتا۔ کھڑکیوں، دروازوں، اور چھتوں میں سادگی اور نفاست کا امتزاج نظر آتا۔

یہ انداز اصل میں 16ویں صدی کے Tudor دور کی یادگار ہے، جہاں لکڑی کے شہتیری فریم، جھروکے دار کھڑکیاں اور مخصوص زاویے دار چھتیں عام تھیں۔ 20ویں صدی میں، خاص طور پر 1930 کی دہائی میں، انگلینڈ کے نواحی علاقوں میں جب بڑی تعداد میں مکانات تعمیر کیے گئے تو اسی طرز کو ایک بار پھر اپنایا گیا۔

یہ مکانات محض اینٹوں اور پتھروں کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ انگریزی تہذیب، تاریخ اور جمالیات کا عکس ہیں۔ ان کی تعمیر صرف رہائش کے لیے نہیں، بلکہ ایک خاص طرزِ زندگی کو اپنانے کا اعلان ہےوہ طرزِ زندگی جو سادگی، روایت اور فطرت سے ہم آہنگی پر مبنی ہے۔

لندن کے علاوہ، یہ طرزِ تعمیر انگلینڈ کے دوسرے شہروں جیسے برمنگھم، مانچسٹر، اور ایڈنبرا میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر برطانوی نواحی علاقے جہاں قدرتی ماحول زیادہ ہے، وہاں اس انداز کی عمارات آج بھی محفوظ ہیں اور ان کا حسن برقرار ہے۔

اسی طرزِ تعمیر کا اثر دنیا کے دیگر ممالک پر بھی پڑا، خاص طور پر امریکہ میں، جہاں 20ویں صدی کے اوائل میں Tudor Revival کا انداز بڑے پیمانے پر اپنایا گیا۔ امریکہ کے کئی علاقوں میں ایسے مکانات ملتے ہیں جن میں لکڑی کے شہتیری فریم، چھوٹے جھروکے، اور نوک دار چھتیں نظر آتی ہیں، جو اس طرز کی عکاسی کرتی ہیں۔ آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ممالک میں بھی اس طرز کے مکانات بنائے گئے، جو انگریزوں کی نسل کشی اور ثقافتی اثرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

"Arts and Crafts”
تحریک بھی عالمی سطح پر مقبول ہوئی، جہاں یہ نہ صرف عمارات بلکہ دستکاری، فرنیچر، اور فنونِ لطیفہ میں نمایاں نظر آئی۔ اس تحریک کا مقصد صرف خوبصورتی نہیں بلکہ سادگی اور ہاتھ کی کاریگری کو فروغ دینا تھا، تاکہ صنعتی دور کے مصنوعی اور یکساں اشیاء کی جگہ قدرتی اور منفرد چیزیں لائی جا سکیں۔

اس طرزِ تعمیر کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ماحولیاتی ہم آہنگی کی بات کرتا ہے۔ آج کے دور میں جب قدرتی ماحول کی حفاظت ایک عالمی مسئلہ ہے، تو "Arts and Crafts” اور "Tudor Revival” جیسی تحریکوں کی تعلیمات ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ انسانی رہائش کو قدرت کے ساتھ توازن میں رکھنا کتنا ضروری ہے۔

ان گھروں کی تمام تر خوبصورتی اور نفاست کے باوجود ہم پاکستانیوں کو خاص کر اٹک کے پنجابیوں کو چھوٹے ہی لگتے ہیں
اور ان کے اندر جاکر ہمیں ایک گھٹن کا احساس ہوتا ہے کیوں کہ ہمیں قدرت نے کھلے علاقوں کھلے دالانوں اور تا حد نظر پھیلے صحنوں سے نوازا ہے اور عادی بنایا ہے
کھڑکی بڑی نہ ہو تو ہمارا دم گھٹتا ھے اور برآمدے میں آٹھ دس دوست چار پانچ چارپائیوں پر نہ بیٹھے ھوں تو اکیلا پن محسوس ھونے لگتا ہے۔ ہم کہیں بھی رھیں ھمیں اٹریکٹ کچھ بھی کرے، لیکن اپناتے ھم اپنا ھی سٹائل ہیں۔

لے بھئی لندن تمھیں بھی دیکھ لیا

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے