چھوٹے لوگوں کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنا قد بلند کرنے کے لیے عالی مقام لوگوں کی دستار پر حملہ کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سستی شہرت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ایک صاحبہ (جن کو میں بھی نہیں جانتا) نے معروف صحافی، تجزیہ نگار، منفرد اینکر پرسن، مدیر اور ان سب پر مستزاد ایک نرم دل اور سلیم الفطرت انسان سہیل وڑائچ پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی اور ان کی ذات پر بے بنیاد تبصرہ کرکے اپنے کسی آقا کو خوش کرنے کی سعی کی۔
مدت ہوئی، میں نے مشہور شخصیات (جن کو میں نے قریب سے دیکھا) ان پر کتاب لکھنے کا سوچا تھا اور ان شاءاللہ لکھوں گا۔ اس کا پہلا باب سہیل وڑائچ کے ساتھ “ایک دن” ہونا تھا۔ طالب علمی کے زمانے سے بہت ساری مشہور و معروف شخصیات کے ساتھ نشست و برخاست رہی۔ عالی مقام کہلانے والوں میں چھوٹے لوگ بھی دیکھے اور عام کہلانے والوں میں عالی مقام بھی۔
ان میں سیاست دان، صحافی، بیوروکریسی سب شامل ہیں۔
میں اس وقت ایک مقدس مقام پر ہوں، لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ عہدِ موجود کے صحافیوں میں سب سے بلند پایہ انسان سہیل وڑائچ ہے۔
انسانیت سب سے پہلی اور اہم چیز ہے۔
اگر آپ ایک اچھے انسان ہی نہیں تو آپ کچھ بھی نہیں ہو سکتے۔
حدیث کا مفہوم ہے کہ کسی کے بارے میں رائے دینی ہو تو اس کے لیے تین شرائط ہیں:
آپ نے اس کو طیش کے عالم میں دیکھا ہو،
اس کے ساتھ لین دین کیا ہو،
یا اس کے ساتھ سفر کیا ہو۔
صوبہ ہزارہ تحریک کے دوران میں نے سہیل وڑائچ کے ساتھ دو دن کا سفر کیا۔ اسلام آباد سے ایبٹ آباد کا سفر کیا، رات دیر سے ایبٹ آباد پہنچے، موسم بھی سرد تھا، عالی مہمان کی شان کے مطابق رہنے کا بندوبست بھی نہیں تھا، لیکن مجال ہے جو ایک لفظ بھی شکایت کا کہا ہو۔
میں ایک “عالی مرتبت” صحافی کے تجربے سے سخت گھبرایا ہوا تھا کہ ایک دفعہ جب ان کو اپنا کالم فیکس کرنا تھا اور فیکس مشین دستیاب نہیں ہو رہی تھی تو انھوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ اگر میرا کالم آج نہ گیا تو زمین الٹ پلٹ ہو جائے گی۔
راستے میں کھانے کے لیے رکے، میں نے بہتیری کوشش کی کہ پیسے میں دوں، لیکن سہیل وڑائچ نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ پیسے وہ خود دیں گے، اور آپ تب میزبان تصور ہوں گے جب آپ کا علاقہ ہو گا۔
مزاج دھیما، لیکن بات اپنی۔
سننی ہر بات، لیکن نظریے پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔
جب جس وقت جو بات کہنی ہو، برملا کہہ دیتے ہیں اور ذرّہ برابر لحاظ نہیں کرتے۔
کچھ عرصہ قبل کہا، اور درست کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہیں، اور یہ اس وقت کہا جب وہ اقتدار میں تھیں۔
باوجود تلاشِ بسیار، ان دو دنوں اور اس کے بعد بے شمار ملاقاتوں میں، مجھے سہیل وڑائچ میں کوئی ظاہری نقص نہیں ملا۔
میں نے بہت سوں کو دیکھا کہ وہ ذرا سی بات پر اپنے عملے کو سخت برا بھلا کہتے ہیں، لیکن میں نے سہیل وڑائچ کو اپنے عملے کو ڈانٹتے نہیں دیکھا۔
کوئی بات سمجھانی بھی ہو تو بہت پیار سے سمجھاتے، اور ہر ملنے والے کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔
تفصیل تو ان شاءاللہ پھر لکھوں گا،
لیکن خلاصۂ کلام یہ ہے کہ
سہیل وڑائچ ایک بلند پایہ اور نرم دل انسان ہیں۔
ملک کی اسکرین پر نمایاں تقریباً تمام صحافیوں کے ساتھ میں نے سفر کیا ہے اور ان کو قریب سے دیکھا ہے، اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ
سہیل وڑائچ ان میں سب سے اچھے انسان اور اپنے شعبے سے انصاف کرنے والے ہیں۔