تازگی جو ہمیں گاؤں سے ملی

یہ طے ہوگیا تھا کہ اتوار کی صبح دس سے گیارہ بجے کے درمیان ناہید حسین کی طرف جائیں گے۔ناہید حسین (مرد)جو کہ میرا ایم فل اردو میں کلاس فیلو رہ چکا ہے۔یوں تو کلاس فیلو کا رشتہ بہت خوبصورت ہے لیکن جب یہ دوستی میں بھی بدل جائے تو اس کی میٹھاس اور بڑھ جاتی ہے۔

محبتوں میں بہت رس بھی ہے مٹھاس بھی ہے
ہمارے جینے کی بس اک یہی اساس بھی ہے

میں نے اوپر ناہید کے ساتھ بریکٹ میں “مرد” بھی لکھا ہے تو اس کی ایک ظاہری وجہ یہ ہے کہ ناہید کا نام لیتے ہی ذہن میں کسی طرحدار خاتون کا سراپا گھومنے لگتا ہے جبکہ ہمارے نیلے پرکشش آنکھوں والے وجیہہ ناہید حسین حضرات میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ایک بار کلاس میں ایسی صورت حال پیش آئی کہ جب وہ غیر حاضر تھے تو ڈاکٹر محمد عباس صاحب نے حاضری لیتے ہوئے کہا کہ “ناہید آج نہیں آئی ہے” جس پر پوری کلاس ہنس پڑی اور بتایا کہ ہاں سر “ناہید صاحب آج نہیں آئے ہیں”۔اس میں صرف ہمارے ناہید صاحب کے نام کا ہی قصور نہیں ہے بلکہ زینت،عصمت،کوثر وغیرہ جیسے ناموں کے ساتھ بریکٹ میں جنس “مرد یا عورت” لکھنا ہی پڑتاہے بلکہ میں تو ایسے نام موبائل میں محفوظ کرتے ہوئے بھی بریکٹ کا اضافہ کرتا ہوں تاکہ “سند رہے اور بوقت کال پریشانی سے بچ سکوں”۔

ناہید حسین کا شمار اُن اسکالرز میں ہوتا ہے جس میں مطالعے کی عادت کے ساتھ سننے کی زبردست صلاحیت موجود ہے اس لیے اگر یہ کسی ایسے پُرگو شاعر کو میسر آجائے تو ایک دن میں پورا دیوان یا پورا مجموعہ سنا سکتا ہے اور شاعر صاحب یہ کہہ کر رخصت ہوں گے:

کہنے سننے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے
سو مرے دوست اجازت مجھے رخصت کیا جائے

اور ظاہر ہے یہاں ناہید کو اُن سے ایک شکوہ یہ ہوسکتا ہے کہ :

کس زمانے میں مجھ کو بھیج دیا
مجھ سے تو رائے بھی نہ چاہی مری

ناہید حسین یونیورسٹی میں بریک اور کلاس ختم ہونے کے بعد اتنی تیزی اور جلدی سے کینٹین پہنچتا تھا جیسے یہ بھی اُس کے نصاب کا حصہ ہو اور وہاں پر ادبی محفل جم جاتی تھی ۔قرطبہ کی کینٹین ہمارے لیے پاک ٹی ہاؤس کا درجہ رکھتی تھی کیونکہ وہاں ڈاکٹر ستارلواغری،اسد محمود صاحب اور ڈاکٹر زبیر شاہ صاحب کی موجودگی میں دیر تک مختلف ادبی موضوعات پر ہلکے پھلکے انداز میں بحث جاری رہتی تھی۔کبھی کبھار شاعر ڈاکٹر سورج نرائن اور ڈاکٹر ستارلواغری کی نوک جھونک سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل جاتا جو اُس وقت پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔بات نکلے گی بہت دور تلک جائے گی کے مصداق میں بھی حال کو بھول کر ماضی قریب کے دریچے میں جھانکنے لگا۔

یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں
سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی

ناہید حسین نے بڑی محبت سے دعوت دی اور ادبی مبالغے سے کام لیتے ہوئے اپنے گاؤں کی ایسی منظرکشی کی کہ ڈاکٹر زبیرشاہ صاحب نے فوراً اتوار کو وہاں جانے کی حامی بھری ۔میں نے بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی کہ اس میں کافی دقت کا سامنا ہوگا کسی کو جب کہیں گے کہ “ناہید” کی طرف جارہے ہیں تو وہ کیا سوچیں گے لیکن اُنھوں نے ایک نہ مانی ۔اُدھر وادئی تیراہ سے نکل کر باڑہ میں محصور ہمارے کلاس فیلو اور ہنس مکھ دوست عمران مائل آفریدی نے بھی شاید اس آفر کو نجات کا ذریعہ سمجھا اور اتوار کو صبح نو بجے میرے گھر کے دراوزے پر دستک دی ۔میں نے آنکھیں ملتے ہوئے اُس کا استقبال کیا اور شکوہ کیا “یار تہجد کےوقت پر پہنچ گئے ہو “اُس نے ہمیشہ کی طرح قہقہہ لگایا۔جب ہم یہاں سے بی آرٹی میں نکلے تو زبیرشاہ صاحب دو بار ہماری شکایت ناہید کو لگا چکے تھے۔

آنے میں سدا دیر لگاتے ہی رہے تم

راستے میں عمران نے ناہید کو فون پر بتایا کہ ہم زبیر شاہ صاحب کا انتظار کررہے ہیں۔وہ کنفیوز ہوگیا اور کہا عجیب بات ہے وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور آپ اُن کا۔۔۔یوسفی صاحب نے کیا خوب کہا ہے “ لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید صرف سچائی ہوتی ہے-“

جب ہم زبیرشاہ صاحب کے پاس رینگ روڈ پہنچے تو وہ 45منٹ سے زائد انتظار کا مزا چکھ چکے تھے۔

ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے

زبیر شاہ صاحب نے بیٹھتے ہی عمران آفریدی کو آڑے ہاتھوں لے لیا اور میں یہ سوچ کرقہقہے لگاتا رہا کہ کہیں توپ کا رُخ میری طرف نہ ہو۔جمیل چوک سے کوئی تیرہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہم اُرمڑ بالا (خاری قلعہ )پشاور میں ناہید حسین کے پاس پہنچ گئے۔ناہید نے ہمیں تنگ گلی سے گزار کر حجرہ عبدالستار میں پہنچا دیا ۔ہم سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان تنگ گلیوں میں اتنے شاندار اور وسیع وعریض حجرے کی ہمیں توقع ہی نہیں تھی۔اس کا رقبہ نو کنال بتایا ۔عمران آفریدی نے کہا یہ حجرہ نہیں بلکہ “خاری قلعہ” ہے۔آم ،انجیر،آلوچے ،دیوداراور دوسرے سایہ دار وپھلدار درختوں سے اٹا ہوا اور کئی وسیع اور خوبصورتی سے تراشے ہوئے دیدہ زیب چمن اور اُس کے کناروں پر لگے گولڈن گرنٹا کی قطاریں کسی خوبصورت پارک کا منظر پیش کررہی تھیں۔میں حیران تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر صفائی کا انتظام کیسے ہوتا ہوگا ؟جس پر بتایا گیا کہ اس کے لیے اپنے مالی رکھے گئے ہیں یقیناً وہ “نام دیو “مالی ہی ہوں گے جو فرض شناسی سے کام کرتے ہوں گے۔حجرے کے اندر گئے تو لکڑی کے کام سے مزین حجرہ بڑی مہارت اور خوبصورتی سے سجایاگیاتھا۔وہاں ہمارے دوست ایم فل ریاضی اسکالربلال احمد جس کو ہم ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں پولیس آفیسر عبدالستار اور ناہید کے بھائی سلمان خان اور رشتہ داروں نے ہمارا استقبال کیا۔

یہاں کھانا کھایا اور نمازظہر کے بعد ہمارے ایک اور دوست و ایم فل اردو اسکالر سجید خان برکی کی طرف روانہ ہوگئے۔چند کلومیٹر نہر کے کنارے سفر کرکے اور اُس سے فون پر رابطے میں رہ کر ہم اُرمڑ میانہ میں اُس کے پاس پہنچ گئے ۔گرمی زوروں پر تھی لیکن مجھے چائے کی طلب محسوس ہورہی تھی ۔میں نے میزبان سے چائے کا مطالبہ کیا جو تمام دوستوں مع سجید نے نامنظور قرار دیا۔میں نے “حق مہمان نوازی”کا استعمال کرتے ہوئے یہ مطالبہ منوالیا اور اُس کے بعد باغات کی طرف نکل پڑے۔

گھنے اور سایہ دار چھتناروں کے بیچ پگڈنڈی پر پیدل چلتے ہوئے گرمی کااحساس جاتا رہا ۔آلوچوں سے لدھے پھندے باغ میں پہنچ کر ہر ایک دانے دانے پر اپنا نام تلاشتا رہا اور درخت سے اُتار کرکھاتا رہا۔زبیر شاہ صاحب کا نام شاید زیادہ دانوں پر درج تھا اس لیے وہ اس معاملے میں پیش پیش رہے اور مجھے بھی اُکساتے رہے۔

پرندہ جانب دانہ ہمیشہ اڑ کے آتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا

اُرمڑ پشاور کے آلوچے پورے خیبرپختونخوا میں بہت مشہور ہیں ۔آلوچوں کےباغ سے نکل کر سبزیوں میں پہنچ گئے ۔جہاں وسیع رقبے پر کریلے،ٹماٹر،مرچ،توریاں اور دوسری سبزیاں جوبن پرتھیں۔مجھے پہلی بار علم ہوا کہ اُرمڑ کے لوگوں کی آمدن انہیں باغات اور زمینوں سے ہے۔واقعی بڑی زرخیز زمینیں ہیں اور نہری پانی نے اسے سونا اُگلتی زمین بنا دیا ہے۔میں سوچنے لگا کہ اگر جنوبی اضلاع کی زمینوں کو پانی مل جائے تو وہ پورے خیبرپختون خوا کو گندم سے مالامال کرسکتے ہیں۔باغات کے درمیان بنی ہوئی جونپڑی نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور موبائل کے کیمرے کھل گئے۔مجھے یہ جگہ پریم چند کے افسانے کا لوکیل لگا۔باغات میں چند گھنٹے پرندوں کی چہچاہٹ اور سایہ دار بلکہ پھلدار درختوں کے بیچ سکون سے کٹ گئے۔زبیرشاہ صاحب محبتوں کے وار سب پر باری باری کرتے رہے جو اکثر سجید پر بھاری پڑ جاتے اور قہقہوں سے باغ گونج اُٹھتا۔باغات سے واپسی پر سجید نے ٹھنڈے شربت سے تواضع کیا اور آلوچوں کے وہ دانے جن پر بعد میں کھانے کے لیے نام درج تھے وہ کار کی ڈگی میں رکھ دئیے۔وہاں سے اُرمڑ پایاں اور میانہ کے سنگم پر سرسبز میدان میں ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے ۔تین اطراف سے درختوں میں گھرا یہ میدان ڈھلتے سورج میں بڑا رومان پرور تھا۔ ناہید حسین کی منظرنگاری جس کو میں ادبی مبالغہ سمجھ بیٹھا تھا وہ حقیقت نکلی ۔یہ اس میدان علاقے کے لوگوں کے لیے بیٹھنے اور محفلیں جمانے کے لیے بڑی نعمت ہے۔

یہاں زبیر شاہ صاحب سے ہم نے افسانا سنانے کا تقاضا کیا جو انھوں نے قبول کیا اور ہم حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اور اُن کا تازہ افسانہ “لذت ناتمام” سننے لگے۔اتفاقاً اُس افسانے کے مناظر ہمیں اردگرد نظر آرہے تھے اس لیے اُس کی تاثیر بڑھنے لگی ۔پشتون روایات میں نسل درنسل دشمنیوں پرمبنی یہ افسانہ خوبصورت تصویر کشی اور جاندار مکالموں پر مشتمل تھا۔زبیرشاہ صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ کینوس کے اندر اُتر کرلکھتے ہیں ۔وہ لفظیات برتنے کا قرینہ جانتے ہیں۔اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ جلد منظرعام پر آنے والا ہے۔افسانے پر اچھی بحث ہوئی جس میں خاص طورپر پشتون روایات وثقافت موضوع بحث رہی ۔اب وقت رخصت تھااور ہم ان خوشگوار لمحات کو یادوں میں ڈھالنے کا مصمم ارادہ کرچکے تھے۔اس لیے ناہید حسین اور سجیدبرکی کا شکریہ اداکیا کہ:

اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا
مگر تمہاری طرح کون مجھ کو چاہے گا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے