خدارا! خلوص سے محبت کرنے والوں کی ناقدری نہ کریں

کائنات کی ہر شے محبت کے سائے میں پروان چڑھتی ہے۔ پھولوں کی مہک ہو یا پرندوں کی چہک، دریا کی روانی ہو یا صحرا کی تپش، درختوں کا سایہ ہو یا زمین کی زرخیزی، صبح کی رونق ہو یا شام کی سرشاری سب کے سب ایک نادیدہ محبت کے طفیل زندہ ہیں۔ مگر انسان، جو اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، وہی اکثر و بیشتر محبت کے اس مقدس جذبے کو پامال کر دیتا ہے۔ خاص طور پر ان بے لوث لوگوں کی قدر نہیں کرتا جو بلا شرکتِ غیرے، خلوصِ دل سے محبت کرتے ہیں۔ یہ وہ مسیحا ہوتے ہیں جو دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، مگر خود اپنے گھاؤ چھپائے پھرتے ہیں۔

خلوص ایک ایسی دولت ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ یہ وہ جوہر ہے جو انسان کو فرشتوں کے قریب کر دیتا ہے۔ خلوص سے محبت کرنے والے لوگ کبھی دکھاوے کی دنیا نہیں بناتے۔ ان کے الفاظ اور اعمال میں یکسانیت ہوتی ہے۔ وہ محبت کو سودا نہیں بناتے، نہ ہی اسے تول کر دیتے ہیں۔ ان کا دیا ہوا ایک معمولی سا پیار بھی سونے کے پہاڑ سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔ مگر افسوس! آج کے دور میں ایسے لوگوں کو کم ہی پہچانا جاتا ہے۔ جب تک وہ ساتھ ہوتے ہیں، ان کی عظمت کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا، اور جب وہ چلے جاتے ہیں یا پھر کسی وجہ سے خود کو سمیٹ لیتے ہیں تو پھر احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کچھ کھویا۔

چالیس سال سے اوپر کی زندگی میں اپنے معاشرے کی جن علتوں کا سب سے زیادہ مشاہدہ کیا ہے ان میں سے ایک ناقدری کی علت بھی ہے۔ گھر گھر، گاؤں گاؤں، بستی بستی اور شہر شہر انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں سے ناقدری کا تجربہ روز ہوتا ہے، بار بار ہوتا ہے اور بات بات پر ہوتا ہے۔ کیا ستم ہے کہ ہر آن محبت کرنے والے گرد و پیش میں دیکھتے ہیں لیکن ان کی قدر نہیں کرتے، آس پاس میں محنت مشقت کرنے والے دوڑ دھوپ کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی عزت نہیں کی جاتی، ہر جانب مختلف صورتوں میں شفقت و مہربانی سے پیش آنے والے پائے جاتے ہیں لیکن ان کے اعتراف کرنے والے آپ کو اس طرح نظر نہیں آئیں گے۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ سب دراصل ناقدری اور ناشکری کی وہ مریضانہ ذہنیت ہے جو لوگوں نے بڑے پیمانے پر اختیار کی ہے۔

تاریخ کے اوراق ایسے لاکھوں دلوں کے قصوں سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے بے پناہ محبت دی، بے انتہا خدمت کی مگر بدلے میں کچھ نہیں پایا۔ وجاہت اور قابلیت کے جوہر سے مالامال حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ہی بھائیوں نے کنویں میں پھینک دیا، اس طرح جرآت مندی اور غیرت مندی سے بھرپور شخصیت کے مالک حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بستی والوں نے بھاگنے پر مجبور کیا، اس طرح تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے سال ہا سال حق و صداقت اور خلوص و محبت کا درس دیا لیکن قوم کو کما حقہ سمجھ نہیں آیا، اس طرح سقراط اور افلاطون کی ناقدری بھی اپنے زمانوں کے لوگوں نے کھل کر کی، اس طرح عدل کی پہچان حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سخاوت کی دریا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علم کے دروازے حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایسے مقدس ہستیوں کو زہر آلود اور نفرت آلود تلواروں سے کاٹیں گئیں۔ یہ سب سیدھا سادہ ناقدری کے بدترین شاخسانے ہیں۔

یہ رویے انسانوں کے لیے حد درجہ شرم ناک ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ ہمارے ساتھ قدر و منزلت اور پیار و محبت کا سلوک رواں رکھنے والے خود ہماری ناقدری اور بے توجہی کا نشانہ بنے رہے۔ ہم انہیں درست طریقے سے یاد رکھیں نہ ہی ان کا اعتراف کریں۔ ہم ان کے ذریعے طرح طرح سے محظوظ و مسرور ہوں لیکن معترف اور قدر دان ثابت نہ ہو۔ ہم فائدہ اٹھانا تو جانیں لیکن یہ جاننے کی کوشش کبھی نہ کریں کہ اپنے محسنوں سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ جب ان کا وجود ہماری زندگی سے نکل جاتا ہے، تب ہم ان کی کمی محسوس کرتے ہیں، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

انسانی فطرت میں ایک عجیب طرح کا تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ چیز زیادہ چاہتے ہیں جو ہمیں میسر نہیں، اور جو ہمیں باآسانی مل جائے، اس کی قدر نہیں کرتے۔ خلوص سے محبت کرنے والے لوگ چونکہ سب کچھ غیر مشروط کرتے ہیں، لامحدود دیتے ہیں اس لیے ہم انہیں اپنا حق سمجھ لیتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ تو ہمارے ساتھ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے، لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوتی ہے۔ ہر محبت کا ایک حساب ہوتا ہے، اور اگر اسے تسلیم نہ کیا جائے تو ایک نہ ایک دن وہ خاموشی سے ختم ہو جاتی ہے۔

اگر آپ کی زندگی میں کوئی ایسا شخص ہے جو بغیر کسی لالچ کے آپ سے محبت کرتا ہے، تو اس کی قدر کیجیے۔ اس کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ ہو سکتا ہے، وہ آپ پر کبھی ناراض نہ ہو، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کا دل نہیں دکھتا۔ ہو سکتا ہے، وہ آپ کی بے رخی پر چپ رہے، مگر عین ممکن ہے اس کی آنکھیں آپ کی بے حسی اور لاپرواہی کا ماتم کر رہی ہوں۔

خدارا، خلوص سے محبت کرنے والوں کو ٹھوکر مت ماریں۔ ایسے لوگوں کا وجود زندگی کا فخر ہوتا ہے، دلوں کا سکون بھی اور اطمینان کا سب سے بڑا ذریعہ بھی۔ یہ وہ ہیرے ہیں جو صرف ایک بار ملتے ہیں۔ اگر انہیں کھو دیا تو پھر شاید زندگی بھر کوئی اور ایسا نہ ملے جو اتنی مخلصانہ محبت دے۔ یاد رکھیں، محبت کا تقاضا صرف لینا نہیں، دینا بھی ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ امر واقعہ کہ دنیا میں محبت کرنے والے کم ہوتے ہیں، اور جو ہوتے ہیں، ان کی قدر کرنے والے اور بھی کم ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے