تمباکو کنٹرول کی ضرورت اور محکمہ صحت کی عدم دلچسپی – ایک لمحۂ فکریہ

پاکستان میں تمباکو نوشی ایک سنگین صحت عامہ کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ہر سال ہزاروں قیمتی جانیں صرف تمباکو کے براہِ راست یا بالواسطہ استعمال کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہیں۔ مؤثر انداز میں دستاویزی شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار چھ سو سے زائد افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ان اموات میں تقریباً اکتیس ہزار افراد وہ ہوتے ہیں جو خود سگریٹ یا تمباکو استعمال نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے دھوئیں کا شکار ہوتے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کا سرطان، دل کے مہلک امراض، سانس کی دائمی بیماریاں، دمہ، فالج اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ مزید تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جو لوگ خود تمباکو استعمال نہیں کرتے، وہ بھی دوسروں کے دھوئیں یعنی ماحولیاتی آلودگی کے باعث جان لیوا امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ خواتین اور بچے خاص طور پر اس خطرے کا سامنا کر رہے ہیں، کیونکہ گھروں، دفاتر، تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر دھوئیں کا اثر ان پر براہ راست ہوتا ہے۔

پاکستان نے عالمی ادارۂ صحت کے فریم ورک کنونشن برائے تمباکو کنٹرول پر دستخط کر رکھے ہیں، جس کے تحت ملک نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ تمباکو کے استعمال کو کم کرنے، نوجوانوں کو اس سے دور رکھنے، اور غیر استعمال کنندگان کو اس کے نقصانات سے بچانے کے لیے مؤثر قانون سازی اور پالیسی سازی کرے گا۔ اس مقصد کے لیے ایک قومی سطح کی تمباکو کنٹرول حکمتِ عملی تشکیل دی گئی، جسے خیبر پختونخوا حکومت نے بھی اصولی طور پر تسلیم کیا ہے۔

صوبے میں ایک جامع صوبائی ایکشن پلان اور تمباکو کنٹرول روڈ میپ بھی دستیاب ہے، مگر اس پر عملدرآمد کا فقدان واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ کئی سال سے ایک اہم قانون، جس کا مقصد غیر تمباکو نوش افراد کی صحت کا تحفظ ہے، زیر التواء ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اس قانون پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، نہ ہی اسے اسمبلی سے منظور کرانے کی سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں۔

محکمہ صحت نے اگرچہ تمباکو کنٹرول کے لیے ڈویژنل سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی ہیں، لیکن یہ کمیٹیاں صرف نوٹیفکیشن تک محدود ہیں اور عملی طور پر غیر فعال ہیں۔ ان کمیٹیوں کو فعال بنانے، ان کے اجلاس باقاعدگی سے بلانے، اور ان کی رپورٹنگ کا مؤثر نظام بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی اصل ذمہ داری ادا کر سکیں۔ اس کے علاوہ، محکمہ صحت نے آج تک تمباکو کنٹرول کے لیے کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ (پی سی-ون) تیار نہیں کیا اور نہ ہی بجٹ میں کوئی رقم مختص کی گئی ہے۔ یہ غفلت ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

ایک اور بڑھتا ہوا خطرہ نوجوانوں میں نئی تمباکو مصنوعات کا فروغ ہے، جیسا کہ ویپ اور برقی سگریٹ۔ خیبر پختونخوا کے بازاروں، تعلیمی اداروں کے آس پاس، دکانوں اور آن لائن پلیٹ فارمز پر یہ مصنوعات باآسانی دستیاب ہیں۔ ان کا کوئی مؤثر کنٹرول نہیں ہے، اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی جامع پالیسی یا قانون موجود ہے۔ نوجوان نسل دھوکے میں آ کر ان مصنوعات کو “کم نقصان دہ” سمجھ کر استعمال کر رہی ہے، حالانکہ ان کا استعمال بھی دل، پھیپھڑوں اور دماغ کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ان مصنوعات کی تشہیر کو روکنے، فروخت کے مقامات کو محدود کرنے اور قانونی عمر کی حد کے نفاذ کے لیے فوری قانون سازی کی ضرورت ہے۔

تمباکو کنٹرول کی اہمیت کو نظر انداز کرنا صرف ایک پالیسی ناکامی نہیں بلکہ انسانی حقوق اور بنیادی صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔ ہر شہری کو صاف ہوا میں سانس لینے، بیماریوں سے بچاؤ، اور صحت مند زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ تمباکو کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کرنے سے ریاست اپنی عوامی فلاحی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر رہی ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ محکمہ صحت خیبر پختونخوا صرف کاغذی کارروائی سے آگے بڑھ کر مؤثر عملی اقدامات کرے۔ سب سے پہلے، ڈویژنل کمیٹیوں کو فعال کیا جائے، ان کے لیے باقاعدہ تربیت اور وسائل فراہم کیے جائیں، اور ان کی کارکردگی کی نگرانی کی جائے۔ دوسرے مرحلے میں، اسکولوں، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں تمباکو کے خلاف آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ نوجوان نسل کو اس کے نقصانات سے بچایا جا سکے۔

صوبائی اسمبلی اور حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ زیر التواء قانون کو فوری منظور کرے، نئی مصنوعات جیسے ویپ اور برقی سگریٹ پر پابندی لگائے، اور تمباکو کنٹرول کے لیے ایک مستقل فنڈ قائم کرے۔ تمباکو سے پاک معاشرہ صرف قانون سے نہیں، بلکہ ایک مشترکہ کوشش، قیادت، عوامی دباؤ اور شعور سے وجود میں آتا ہے۔

ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ تمباکو کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور حکومت کو عملی اقدامات پر مجبور کریں۔ بصورتِ دیگر، ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک بیمار، خطرناک اور زہریلا ماحول ورثے میں دے رہے ہوں گے۔ اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے