جنگ پھیل رہی ہے — انسانیت دہانے پر!

دنیا آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف موسمیاتی تبدیلیوں کی سنگینی ہے، اور دوسری طرف عالمی طاقتوں کی ہوسِ اقتدار۔ ہر سمت دھواں ہے، ہر جانب دھماکوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے، زمین کی گرم ہوتی فضا میں صرف سورج ہی نہیں جھلسا رہا، انسان بھی ایک دوسرے کو بھسم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

موسمی شدت یا فطرت کی بغاوت؟

آج ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ، آسٹریلیا — سب شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں درجہ حرارت 50 کے قریب جا پہنچا ہے، گرم لُو نے شہریوں کو دن کے اوقات میں گھروں میں قید کر دیا ہے۔ راتوں کی ٹھنڈک بھی تپش کے گیت گاتی ہے۔ اگرچہ ماہرین اسے ’’ماحولیاتی تبدیلی‘‘ کہتے ہیں، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ فطرت سے چھیڑ چھاڑ خود انسان نے کی ہے۔ جنگلات کا صفایا، کارخانوں کا دھواں، ایندھن کا بے دریغ استعمال، اور صنعتی ترقی کی اندھی دوڑ نے فطرت کو باغی بنا دیا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ: امن سے محروم خطہ

فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آئے روز نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں، اور بزرگوں کی لاشیں اُٹھتی ہیں۔ اب اسرائیل ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے، امریکی میڈیا کی رپورٹس چیخ چیخ کر خبردار کر رہی ہیں کہ جنگ کا نیا باب لکھا جا رہا ہے۔ امریکہ نے عراق سے اپنا سفارتی عملہ نکال لیا ہے اور مشرق وسطیٰ میں جنگی جہازوں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔ مسلمان ملکوں کے ہوائی اڈے، ان جنگی عزائم کے لیے پلیٹ فارم بن چکے ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کئی مسلم حکمران امریکی مفادات کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ وہ امریکیوں کو اڈے بھی فراہم کر رہے ہیں، ان کی مالی معاونت بھی کرتے ہیں، اور عالمی اسٹیج پر ان کی ترجمانی بھی۔

اسرائیل صرف فلسطین نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں قدم جمانا چاہتا ہے۔ یو اے ای میں اسرائیلی شہریوں کی جائیدادوں کی خریداری اسی صہیونی منصوبے کی کڑی ہے جو 90 سال قبل فلسطین میں آزمودہ گیا تھا۔

روس یوکرین تنازع: یورپ کی سانسیں بند

روس اور یوکرین کی جنگ ایک طویل اور خونریز باب اختیار کر چکی ہے۔ یوکرینی تنصیبات پر روس کے حملے شدت اختیار کر چکے ہیں جبکہ مغرب روس پر پابندیاں لگا کر اور اسلحہ دے کر جلتی پر تیل ڈال رہا ہے۔ برطانیہ اس جنگ میں ایک ممکنہ ہدف بن چکا ہے، اور خدشہ ہے کہ اگر جنگ کا دائرہ مزید پھیلا تو پورا یورپ اس کی زد میں آ جائے گا۔

جنوبی ایشیا: بارود کی فضا

جنوبی ایشیا کی فضا بھی کشیدہ ہے۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے زیرِ سایہ پالیسیاں بن رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو، پاکستان کے خلاف آبی جارحیت، اور عالمی قوتوں کے اشارے پر ممکنہ جنگی اقدامات ایک بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ بھارت کی معیشت اسلحہ پر کھڑی ہے، اور وہ عالمی منڈی میں اسلحہ بیچنے والے ممالک کے لیے نیا میدان جنگ بننے کو تیار ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کے پانی کا تنازعہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ ادھر چین کا واٹر بینک "تبت” علاقے پر مکمل کنٹرول ہے۔ اگر بھارت نے کسی مغربی اشارے پر بنگلہ دیش یا پاکستان کی طرف پیش قدمی کی، تو چین خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بھارت کے اندر علیحدگی پسند تحریکیں پہلے ہی سرگرم ہیں، چین کی مداخلت سے یہ تحریکیں اتنی زور پکڑ سکتی ہیں کہ ہندوستان کا نقشہ از سرِ نو بننے لگے۔

ایٹمی خطرات: انسانیت کے لیے لمحۂ فکریہ

دنیا کی بیشتر جنگی قوتیں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں: روس، چین، بھارت، پاکستان، اسرائیل، اور امریکہ سمیت کئی ممالک۔ اگر موجودہ کشیدگیاں مکمل جنگ میں تبدیل ہوئیں تو یہ صرف روایتی جنگ نہیں ہو گی — یہ تباہی کی وہ داستان ہو گی جسے تاریخ بھی سمیٹنے سے قاصر ہو گی۔ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال انسانی تہذیب کو کئی صدیوں پیچھے دھکیل دے گا۔

پھیلتی جنگ، محدود ہوتا انسان

یہ جنگ صرف میدانوں میں نہیں ہو رہی — یہ ہر دل، ہر گھر، ہر سوچ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ تیسری عالمی جنگ کی بازگشت تیز ہو رہی ہے، عالمی طاقتوں کی چالیں تیز ہو گئی ہیں، مگر اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی ادارے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

دنیا کو امن، انصاف اور اعتدال کی ضرورت ہے۔ اگر یہ جنگ واقعی پھیلتی ہے، تو یہ صرف ایشیا اور یورپ کا مسئلہ نہیں ہو گا، بلکہ اس کی لپیٹ میں افریقہ، امریکہ، اور دنیا کے تمام براعظم آ جائیں گے۔ تباہی کی یہ آگ سب کو جلا کر راکھ کر دے گی۔

یہ تجھے وقت بتا دے گا! ذرا صبر تو کر!

آج جو خاموش تماشائی ہیں، کل وہ خود اس کھیل کے مہرے بنیں گے۔ وقت سب کچھ بتائے گا، مگر جب تک وقت بتائے گا، تب شاید سننے والے ہی نہ بچیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے