کچھ لوگ زمین کا نمک ہوتے ہیں۔ زمین کا حسن و رنگینی ان کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور سارا جہان اس نمک سے فیض یاب ہوتا ہے ۔ پروفیسر خورشید احمد بھی برصغیر کا نمک تھے، جس سے صرف برصغیر ہی نہیں پورا جہاں فیض یاب ہوا، خورشید صاحب نے اس جہان رنگ و بو میں اس طرح اپنی انفرادیت برقرار رکھی جس طرح گھی کا ایک قطرہ سمندر میں اپنی انفرادیت برقرار رکھتا ہے۔
پروفیسر صاحب کی وفات کی خبر سنی تو اس وقت میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کے ہمراہ علماء کرام کے ایک اجلاس میں تھا، میں نے جب یہ خبر سنائی تو سب نے نے تعزیت کا اظہار کیا، وزیر مذہبی امور نے ان کے بارے میں بہت اچھے کلمات کہے اور سب کو بتایا کہ ۱۹۹۰ ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت نے جب سودی معیشت کی بجائے اسلامی نظام معیشت رائج کرنے کی بات کی تو پارلیمانی گروپ سے اس ضمن میں تجاویز مانگی گئیں، اس وقت کی پارلیمنٹ میں بہت سارے علمائے کرام اور ماہرین موجود تھے ، اس حوالے سے بہت سارے سیشن اور اجلاس منعقد کیے گئےلیکن ماسوا ایک بندے کے کوئی بھی ٹھوس تجاویز نہ پیش کر سکا۔ اور وہ بندہ پروفیسر خورشید صاحب تھے۔مجلس میں سے ایک عالم صاحب نے ایک دو نام پیش کیے جو فی الواقع اس وقت سکہ بند علماء لیڈر ہیں لیکن سردار محمد یوسف نے انکار کر دیا اور کہا کہ پروفیسر خورشید صاحب کے علاوہ کوئی قابل ذکر نہیں جس نے اس قدر جامع ، مربوط اور قابل عمل تجاویز پیش کی ہوں۔
خورشید صاحب کو یک طرفہ طور پر تو ہم اسکول کے زمانے سے ہی جانتے تھے لیکن اسی طرح کہ جیسے خورشید فلک کو سب جانتے ہیں لیکن وہ کسی کو نہیں جانتا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان سے محبت مجھے خرم مراد مرحوم کی کتاب لمحات کے مطالعے کے بعد ہوئی
وہ تو وہ ہے، تمھیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوب نظر تو دیکھو
خرم مراد، پروفیسر خورشید، پروفیسر عفور احمد،قاضی حسین احمد، سید منور حسن اس مادی دنیا سے پرے اور دور کے لوگ تھے، لگتا تھا کہ وہ اس دنیا کے لوگ ہی نہیں ہیں۔
لمحات جب چھپی تو ہم طالب علم تھے اور زیادہ تر؛ کتب مانگ تانگ کے مطالعہ کرتے تھے لیکن برادرمحبوب الہی کو ہم نے کہا کہ یہ کتاب خرید کے مطالعہ کرنی ہے۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے کہ متعدد مرتبہ مطالعہ کے باوجود تشنگی رہتی ہے۔ خرم مراد مرحوم سے ہماری کوئی ملاقات نہ ہو سکی لیکن آج بھی ایسا لگتا ہے کہ ان سے ہمارا بچپن کا تعلق ہے۔ البتہ ڈاکٹر حسن صہیب مراد مرحوم سے بہت قربت والا تعلق رہا، ڈاکٹر حسن اپنے والد مرحوم کا پرتو تھے، بیک وقت استاد، عالم، منتظم، ماہر تعلیم اور ان گنت خوبیوں کے مالک، ان کے ہونہار فرزند ابراہیم حسن مراد اپنے شاندار علمی، مذہبی ورثے کا نہ صرف تحفظ کیے ہوئے ہیں بلکہ اس میں اضافہ کر رہے ہیں۔
پروفیسر خورشید صاحب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈیویلوپمینٹ کے ریکٹر رہے اور حسن اتفاق ہے کہ خرم مراد کے پوتے ابراہیم حسن مراد اج کل اس کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر ہیں۔
پروفیسر خورشید مرحوم اور خرم مراد مرحوم کو اگر یہ کہا جائے کہ یک جان اور دو قالب تھے تو شاید بے أ ہو گا۔
زمانہ طالب علمی سے ہی اللہ نے ان کو بیش تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہوا تھا ۔اور انھوں نے ان صلاحیتوں کا خوب خوب استعمال کیا۔قریب ۳۲ برس کی عمر میں ان کی ذاتی لاہبریری میں ۲۰ ہزار کتب موجود تھیں۔ اسی زمانے میں انھوں نے” اسلامی نظریہ حیات” لکھی، تب وہ کراچی یونیورسٹی میں لیکچرر تھے۔ ایک ایک کتاب کا جائزہ لیں تو بات بہت دور تک جاتی ہے۔ لیکن اس کا پیش لفظ جو اس وقت کے شیخ الجامعہ اشتیاق حسین قریشی نے لکھا وہ بھی پروفیسر خورشید کی شخصیت کا پرتو ہے۔ شیخ الجامعہ نے لکھا ”
ہم اپنے مسلم طلبہ کو بلاتفریق مذھب اسلام کی تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ ہم کسی مذہب کی فقہ کی تعلیم انھیں نہیں دیتے۔ ہم اسلام کا درس دینا چاہتے ہیں۔ ہم طلبہ کے دل میں اسلام سے محبت کی آگ سلگانا چاہتے ہیں۔
ہم ان کی شمع ایمان کو فروزاں کرنا چاہتے ہیں۔ فروعی مسائل وہ خود سمجھ کر حل کر لیں گے۔ اسی مقصد کے لیے یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ اللہ اس کوشش کو قبول فرمائےاور اس کو سعادت تاثیر عطا فرمائے۔ ”
ایک نو آموز لیکچرر کی کتاب کا ایسا پیش لفظ اور لکھنے والا شیخ الجامعہ، اللہ اللہ، کہاں سے لے کر آئیں ایسے لکھنے والے، اور کہاں سےلائیں ایسے شیخ الجامعہ،
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
آج کی جامعات میں کیا ہو رہا ہے، ہے کوئی ایسا پروفیسر اور ایسا شیخ الجامعہ، جہاں سے دین اور ملک کی خدمت کرنے والوں کو تیار ہونا تھا وہاں سے محض روبوٹ تیار ہو رہے ہیں۔
پروفیسر خورشید کی سینکڑوں جامد اور لاکھوں زندہ تصانیف ہیں۔اور یہ عمل مسلسل جاری ہے۔پروفیسر خورشید وفاقی وزیر توانائی، ڈپٹی چیرمین پلاننگ کمیشن اور PIDE کے ریکٹر بھی رہے۔ ان کی سب سے نمایاں خوبی ادارہ اور افراد سازی تھی۔ خرم مراد مرحوم کے ساتھ مل کر اسلامک فاونڈیشن لسٹر کی بنیاد رکھی۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز کی بنیاد رکھی اور یہ ادارے آج ایک تناور درخت ہیں۔ خالد رحمن نے IPS کو بہترین خطوط پر ترقی کی جانب گامزن کیا۔ گزشتہ سال جانے کا اتفاق ہوا اور یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ ادارہ روز افزوں ترقی کر رہا ہے اور اپنی فیلڈ میں نمایاں ترین کام کر رہا ہے۔
Ideas کے نام سے ہر سال کراچی میں جو دفاعی پروگرام ہوتا ہے۔ اس کی تیاری میں ان کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ الھم زد فرد ۱۹۸۵ سے لے کر ۲۰۱۲ تک سینٹ کےممبر رہے۔ اور اس دوران انھوں نے اسلامی نظام معیشت، دستور، ملکی ترقی اور معاملات میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
صحافیوں کے حقوق کے حوالے سے پروفیسر خورشید وہ پہلے فرد ہیں جنھوں نے اس حوالے سے ایک جامع بل پیش کیا۔ پہلے ذکر ہو چکا کہ سود کے خاتمے کے حوالے سے جامع اور مربوط متبادل آئینی پروگرام پیش کیا۔ اللہ کرے کہ اس پر عمل درآمد ہو جائے۔ ان کی گفتگو ایسی ہوتی تھی جیسے کوئی ریکارڈر ہو، مدلل اور ٹو دی پوائنٹ، ایک ایک لفظ موتیوں میں تولنے والا، شاید ۱۹۸۹ کی بات ہے، تب صرف ایک چینل تھا پی ٹی وی، معیشت کے حوالے سے بے نظیر حکومت پر بہت تنقید ہو رہی تھی, اس حوالے سے حکومت نے ٹی وی پر نوید قمر اور پروفیسر خورشید صاحب کے درمیان ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا۔ نوید قمر کے ساتھ کتابوں کا ایک انبار بھی تھا۔ پروفیسر خورشید خالی ہاتھ اور زرخیز دماغ کے ساتھ تھے۔ تب ہم ابتدائی اسکول میں تھے۔ موضوع کی تو کچھ خاص سمجھ نہیں آ سکی لیکن یہ پروفیسر خورشید صاحب نے جب بولنا شروع کیا تو نوید قمر خود اور ان کی ساری کتابیں گنگ ہو گئیں۔ اور پروگرام درمیان میں ہی شاید ختم ہو گیا۔
جتنا عرصہ وہ سینٹ میں رہے، اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ تمام اطراف کے کے رہنماء اور سینیٹرز ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔
ان کی وفات پر سینٹ میں وفاقی وزیر قانون نے جو قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر خورشید ایک ممتاز معیشت دان، نامور اسلامی اسکالر اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار سیاستدان تھے۔انھوں نے جو علمی ورثہ منتقل کیا ہے اس کے پاکستان پر دیرپا اثرات رہیں گے۔
پروفیسر خورشید محض ایک دانشور اور مصنف ہی نہیں تھے بلکہ میدان عمل کے بھی شہسوار تھے۔ جہاں انھوں نے کتابیں لکھیں وہاں وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک عام ورکر اور ناظم اعلی متحدہ پاکستان رہے، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر رہے۔اور دونوں جگہ ان کی سوچ اور فکر کی گہری چھاپ اور دور رس اثرات ہیں۔
یہاں پر آپ کی وہ زندہ تصانیف ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں موجود ہیں۔ ۱۹۸۹ میں جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع عام منعقدہ مینار پاکستان لاہور میں سابق امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ اسلامی انقلاب کی بات کرتے ہیں اگر اسلامی حکومت آ گئی تو آپ کے پاس پروفیسر خورشید کے علاوہ اور ہے کون۔
پروفیسر خورشید ایک زمانے میں ہمارے لیے خورشید فلک تھے اور پھر اس فکر کی برکت سے ہمیں ان کی قربت کا شرف بھی حاصل رہا۔اور ان کو قریب سے دیکھنے سے پتہ چلا کہ پروفیسر صاحب جتنے اعلی پایہ کے دانشور، مبلغ، معلم، مصنف ہیں اس سے زیادہ اعلی پایہ کے انسان ہیں۔ انتہائی نفیس، نرم دل، مہربان اور شفیق بزرگ تھے۔ مجھے ایسی کوئی بات یاد نہیں کہ ان کو ملاقات کا کہا ہو، کسی پروگرام کے لیے کہا ہو یا کچھ اور، اور انھوں نے انکار کیا ہو، کسی فرد کا پتہ اس کے ساتھ کام کرنے والوں سے بھی پتہ چلتا ہے۔ ہمارے مشفق اور مہربان راءو اختر صاحب ایک طویل عرصہ تک ان کے ساتھ بطور معتمد رہے۔ سب کے ساتھ انتہائی شفقت اور مہربانی سے پیش آتے تھے اور وہ پروفیسر صاحب سے بھی انتہائی خوش اور مطمئن رہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان مشرف کی قید سے رہا ہوہے تو امیر جماعت اسلام آباد میں نہیں تھے، میں نے پروفیسر صاحب کو فون کیا کہ ابھی ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے ہاں جانا ضروری ہے کہ ان کو مبارک باد دی جائے، پروفیسر صاحب نے بیرون شہر شاید سفر کے لیے نکلنا تھا، ایک لمحے کو تامل کیا اور پھر فوری کہا کہ آپ میرے گھر آ جائیں وہاں سے ساتھ چلے جائیں گے۔ پھر راستے میں دوبارہ کال کی کہ راستے سے گلدستہ بھی لے آئیں لیکن اگر کوئی مشکل نہ ہو ، مجھے کیا مشکل ہونا تھی۔ میری لیے ہر طرح سے سعادت ہی تھی۔ سو میں نے لے لیا.
اس طرح ہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے گھر پہنچے وہاں کافی رش تھا اور کسی کو اندر بھی نہیں جانے دیا جا رہا تھا، لیکن پروفیسر صاحب کا نام سنتے ہی ہمیں فوری طور پر اندر بلا لیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب گرم جوشی سے ملے، ہمارے ساتھ بالکنی میں آ کر باہر کھڑے لوگوں اور صحافیوں کو ہاتھ ہلایا، پھر ہم اندر چلے گئے اور کافی دیر تک ڈاکٹر کے پاس رہے۔ ڈاکٹر صاحب پروفیسر صاحب کو خورشید بھائی کہ کر پکار رہے تھے۔ ان کے انداز سے محبت اور پیار جھلک رہا تھا۔ پروفیسر صاحب اور ڈاکٹر صاحب کے خاندان کی آپس میں رشتہ داری بھی ہے۔
کشمیر کے عالمی سطح کے رہنماء عبدالرشید ترابی کی صاحب زادی کا نکاح جناب قاضی حسین احمد مرحوم نے پڑھایا۔
مقید کشمیری حریت جناب یسین ملک بھی اس مجلس میں موجود تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کی شادی تھی۔ انھوں نے مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میری خواہش ہے کہ میر نکاح بھی قاضی حسین احمد پڑھائیں، قاضی صاحب نے اتفاق کر لیا۔ لیکن عین وقت میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کا وفد ان سے ملنے لاہور آ گیا۔ اور انھوں نے آنے سے معذرت کر لی۔
میزبان کی خواہش پر میں نے ہنگامی طور پر پروفیسر خورشید صاحب کو درخواست کی کہ میزبان کی خواہش ہے کہ آپ اس شادی میں شرکت فرمالیں۔ اور انھوں نے مان لیا۔ اور پھر ہم ساتھ ہی اس اہم اور تاریخی شادی میں شریک ہوئے۔
۲۰۱۳ میں الیکشن کے چھوڑ آئے کے پی کے میں مخلوط حکومت بننی تھے۔ جناب سراج الحق اسلام آباد پہنچے تو کہا کہ پروفیسر خورشید صاحب کو ملنا ہے۔ہم پہنچے تو جہاں تپاک سے استقبال کیا وہاں چھوٹتے ہی کہا کہ یہ میں کیا خبریں دیکھ رہا ہوں کہ آپ وزارتوں کے پیچھے بھاگ رہے۔ جہاں پیار تھا وہاں دوٹوک بات کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔
چھوٹا منہ بڈی بات، تحدیث نعمت کے طور پر عرض ہے روزنامہ جنگ میں کلر صفحات کے انچارج ہمارے دوست ندیم صاحب تھے، ان کی ڈیمانڈ ہوتی تھی کہ بعض مواقع اور ضرورت کے تحت پروفیسر خورشید صاحب کے مضامین ارسال کیا کریں لیکن پرابلم یہ تھی کہ پروفیسر صاحب کے پاس وقت نہیں تھااور ان کی ڈیمانڈ مسقل جاری رہتی تھی، پھر پروفیسر صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ مجھے اپنے پاس بلایا اور تمام اہم نکات اور ضرورت باتیں لکھوا دیتے اور ہم ان کے الفاظ اور فرمودات کو تحریر کی شکل دے دیتے۔ ظاہر ہے اس میں وہ مولوی مدن والی بات کہاں سے لاتے، لیکن ندیم صاحب (روزنامہ جنگ)، خوش ہو جاتے۔ اب وہ اخبار اور مدیر بھی نہیں رہے جو اس طرح کے بزرگوں سے لکھواتے ، اب چیزیں کمرشلا ہوچکی ہیں اور لوگ کالم بھی باخبر ذرائع والے ہی پرھتے ہیں۔
پروفیسر صاحب کا ایک اہم ترین کام یہ ہے کہ انھوں نے صرف طے شدہ کام نہیں کیے بلکہ انھوں نے وہ کام کیے جن کی تحریک کو ضرورت تھی، جہاں انھوں نے سمجھا کہ کوئی خلا ہے یا کسی جگہ پر منصوبہ بندی اور عملی کام کی ضرورت ہے وہ آگے ہوتے اور اس کام کو بہت اچھے طریقے سے کر دیتے۔
یہ سطور لکھتے ہوئے میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا سفر کر رہا ہوں۔ تو پروفیسر صاحب کے سعودی عرب سے تعلق کو بیان کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
پروفیسر خورشید صاحب ۱۹۷۶ سے ۱۹۸۳ تک کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ مشیر رہے۔ ۱۹۷۸ سے عالمی مرکز برائے اسلامی اقتصادیات کی سپریم ایڈوائزری کونسل کے ممبر رہے۔
۱۹۸۰ میں آپ کو سعودی عرب نے آپ کی اسلامی اقتصادیات پر کام کے پیش نظر شاہ فیصل ایوارڈ سے آپ کو نوازا۔
پروفیسر خورشید وہ شخصیت تھے جو ” جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے، کے مصداق ان کے تعلقات پوری دنیا کی اسلامی شخصیات سے تھا، ملائیشیا کے موجودہ وزیراعظم انور ابراہیم سے ان کا گہرا تعلق تھا۔
۱۹۳۲ میں دہلی سے طلوع ہونے والا خورشید ۲۰۴۵ اپریل میں لسٹر میں اپنے رب کے حضور پیش ہو گیا۔
سورج اپنی تمام تر تمازتوں کے ساتھ نصف النہار کو پہنچا اور پھر مغرب میں غروب ہو گیا۔ لیکن اس کی پھیلاہی گئی روشنی سے قیامت اس راہ پر گزرنے والے قافلے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔