گزشتہ رات اسرائیل نے ایران پر تباہ کن فضائی حملہ کر کے خطے کو ایک خطرناک جنگ کی جانب دھکیلنے کی جسارت کی ہے۔ اس حملے میں اسرائیل نے ایران کے چیف آف آرمی سٹاف، پاسداران انقلاب کے سربراہ، پاسداران انقلاب کا ہیڈکوارٹر، سترہ جوہری تنصیبات اور بڑی تعداد میں اہم سائنسدانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے تازہ کاروائی میں دو سو جنگی طیاروں نے حصہ لیا جبکہ اسرائیلی میڈیا کے مطابق ردعمل میں ایران نے اسرائیل پر سو ڈرونز سے جوابی حملہ کیا تاہم ابھی تک کسی نقصان کے اطلاعات نہیں۔ یہ خطے کے امن اور استحکام کے لیے ایک خطرناک تصادم کا آغاز ہے۔ ہم اللہ سے خیر اور سلامتی کے لیے دعا گو ہیں اور اس بات کے شدید آرزو مند بھی کہ عالمی اور علاقائی سیاست جو بری طرح جنگ آلود ہوگئی ہے اللہ اسے امن و سلامتی کی جانب موڑ دے۔
عالمی سطح پر آج جو کشیدگی، تنازعات اور پے در پے جنگیں دیکھنے میں آ رہی ہیں، وہ انسانی تہذیب اور سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں۔ مشرق وسطی سے لے کر یورپ تک، جنوبی ایشیا سے لے کر براعظم افریقہ تک، ہر خطہ کسی نہ کسی تنازعے کی لپیٹ میں چلا گیا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی واحد راستہ بچا ہے جو انسانی سلامتی اور دیرپا امن کو یقینی بنا سکتا ہے، تو بلاشبہ وہ امن اور استحکام کی طرف عالمی سطح پر واپسی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ واپسی کیسے ممکن ہوگی؟
تنازعات کی جڑیں: وجوہات کیا ہیں؟
1. وسائل پر کنٹرول کی جنگ:
بظاہر سرخیاں جو بھی ہو لیکن اصل میں جنگوں کا بنیادی سبب وسائل پر کنٹرول کے لیے کشمکش ہی ہے مثلاً تیل، پانی، معدنیات اور تجارتی راستوں پر قبضے کے لیے جاری کشمکش نے اقوام عالم کو ایک دوسرے کے خلاف بڑے پیمانے پر کھڑا کر دیا ہے۔
2. جغرافیائی سیاسی مفادات:
عالمی طاقتیں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے کمزور ممالک کو مسلسل اپنا میدان جنگ بنا رہی ہیں اور کمزور ممالک کچھ کچھ حماقت اور بہت کچھ مجبوریوں کے تحت خوشی خوشی میدان جنگ بننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
3. مذہبی و نسلی تعصبات:
فرقہ واریت، قومیت اور نسلی تفاخر نے بھی معاشروں کو اندر اور باہر دونوں سے بری طرح تقسیم کر دیا ہے۔ لوگوں اور معاشروں میں مختلف اسباب سے تقسیم و تفریق اور نفرتیں خوب بھر گئی ہیں جو کہ مختلف شکلوں میں وقت بہ وقت اور جا بجا ظاہر ہو رہی ہیں۔
4. ہتھیاروں کی دوڑ:
اسلحہ ساز کمپنیاں جو کہ لمحہ موجود کو بے انتہا طاقت پکڑ اور دولت حاصل کر چکی ہیں طرح طرح کے تنازعات کو طول دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
امن کی طرف واپس موڑنے کے لیے درکار عملی اقدامات
1۔ بین الاقوامی مکالمے کو فروغ دیا جائے
یہ حقیقت ماضی اور حال دونوں سے ثابت ہے کہ تنازعات کا حل باہمی گفتگو سے ہی ممکن ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر امن کے ذمہ دار اداروں کو غیر جانبدار رہ کر ثالثی کا موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی حل پر سنجیدگی سے کام کا آغاز کیا جائے۔ اس طرح روس اور یوکرین جنگ میں فوری جنگ بندی اور مذاکرات کی راہ بھی ہموار کی جائے۔ بدقسمتی سے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت جتنے بھی عالمی ادارے ہیں امن و سلامتی کے حوالے سے ان کا کوئی موثر کردار نظر نہیں آ رہا۔
2۔ تجارتی فروغ، معاشی تعاون اور عمومی ترقی پر توجہ
معاملہ انفرادی ہو، قومی ہو یا پھر بین الاقوامی لیکن حقیقت یہ ہے کہ غربت اور معاشی عدم مساوات طرح طرح کے تنازعات کو ہوا دیتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو معاشی استحکام دینے کے لیے منصفانہ تجارتی معاہدے کیے جائیں، اس طرح ان کے قرضوں کے بوجھ میں خاطر خواہ کمی کی جائے، اس طرح روزگار کے مواقع بڑے پیمانے پر پیدا کیے جائیں تاکہ نوجوان انتہا پسندی کی طرف مائل نہ ہوں۔
3۔ تعلیم اور رواداری کی ترویج
نوجوان نسل کو تنازعات سے دور رکھنے کے لیے مدارس، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں امن اور انسانی حقوق کی تعلیم لازمی ہونی چاہیے۔ اس طرح مذہبی و ثقافتی رواداری کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔ نفرت، حقارت اور رنگ بہ رنگ تعصبات نے ذہنوں اور جذبات کو بری طرح متاثر کیے ہیں۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
4۔ اسلحے کی تجارت پر پابندی
دنیا بھر میں اسلحے کی تجارت پر کنٹرول ضروری ہے۔ دنیا اسلحے کے ڈھیر میں بدل چکی ہے اوپر بے شمار تنازعات حاوی ہے۔ یہ صورتحال دنیا کے امن اور انسانی مستقبل کے لیے سخت ضرر ناک ہے۔ بہتر تبدیلی کے لیے غیر ضروری ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگائی جائے۔ اس طرح دہشت گرد گروہوں کو اسلحہ فراہم کرنے والوں کے خلاف سخت بھی اقدامات کیے جائیں۔
5۔ بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دینے کے لیے میڈیا کا مثبت کردار ضروری ہے
مغرب ہو یا مشرق ہر جگہ میڈیا کا کردار بہت زیادہ اہم ہے یہ تنازعات کو ہوا بھی دے سکتا ہے اور امن و سلامتی کا پیغام بھی چار دانگ عالم میں پھیلا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا جنگ کی بجائے امن کی خبریں پیش کرے۔ اس طرح نفرت انگیز مواد پر باقاعدہ پابندی لگائی جائے۔
یہ حقیقت تسلیم کریں کہ امن ہی واحد راستہ ہے
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں نے کبھی مسائل حل نہیں کیے، بلکہ مزید تباہی پھیلائی ہے۔ موجودہ دور میں جو بھی طاقت امن کی بات کرے گی، وہی حقیقی فاتح ہوگی۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک پرامن دنیا چھوڑنی ہوگی، اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم آج ہی امن کی راہ پر چلیں۔ ہمیں صمیم قلب سے مان لینا چاہیے کہ جنگ ایک ایسا راستہ ہے جس کا کوئی بہتر انجام نہیں، اور امن ہی وہ واحد آپشن ہے جس کا انجام بہر صورت خیر اور خوشحالی ہی ہے۔ اقوام عالم کو چاہیے کہ امن کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال لیں اور ایک پُرامن دنیا بنانے میں اپنا بہترین کردار ادا کریں۔ ایسا کرنا ہم سب کے لیے بہتر ہے۔