دنیا اس وقت دو خطرناک رہنماؤں کے درمیان ایک تشویشناک ہم آہنگی دیکھ رہی ہے: نریندر مودی اور بینجمن نیتن یاہو۔
یہ اتحاد جمہوری اقدار کا نہیں بلکہ مذہبی انتہاپسندی، ریاستی سرپرستی میں ہونے والے تشدد اور نسلی قوم پرستی کا ہے۔
مودی، جو ہندوتوا کے نظریے اور آر ایس ایس کی فکری تربیت کا نمائندہ ہے، گجرات میں مسلم کش فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، اس نے مذہبی تعصب پر مبنی قوانین کے ذریعے لاکھوں افراد کو شہریت سے محروم کیا اور کشمیر میں ریاستی جبر کو معمول بنا دیا ہے۔
دوسری جانب نیتن یاہو نے "اسرائیلی سلامتی” کے نام پر فلسطینیوں پر کئی دہائیوں سے ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا ہوا ہے۔
اس نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں عام شہریوں، ہسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری کی جاتی ہے، یہ وہ اقدامات ہیں جنہیں دنیا کے کئی آزاد مبصرین جنگی جرائم قرار دے چکے ہیں۔
اب، 13 جون 2025 سے اسرائیل نے ایران پر براہِ راست جارحانہ حملے شروع کر دیے ہیں، جو کسی قانونی یا اخلاقی جواز کے بغیر کیے جا رہے ہیں۔
یہ کارروائیاں پورے مشرقِ وسطیٰ کے استحکام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں، اور اسرائیل کے اس جارحانہ رویے سے صاف ظاہر ہے کہ اس کا مقصد صرف دفاع نہیں بلکہ خطے پر مکمل تسلط اور مسلسل خونریزی ہے۔
یہ سب محض اتفاق نہیں ہے:
دونوں مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
دونوں اختلافِ رائے کو دہشتگردی قرار دیتے ہیں۔
دونوں نے پوری قوموں کو غیر انسانی حیثیت میں پیش کرنا معمول بنا دیا ہے۔
دونوں تقسیم، خوف، اور تشدد کے ذریعے اقتدار کو مضبوط کرتے ہیں۔
گجرات سے غزہ تک اور اب یروشلم سے تہران تک، ایک بھیانک اور مسلسل جاری سلسلہ نظر آ رہا ہے:
مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی منظم مہم، تاریخی سچائی کو مٹا دینے کی کوششیں، اور میڈیا و عالمی بیانیے کو قابو میں رکھ کر جھوٹ کو فروغ دینا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری ان رہنماؤں کو مزید جمہوریت کے محافظ نہ سمجھے۔
یہ جمہوریت کے نہیں، بلکہ نسلی تعصب، مذہبی ظلم، اور عالمی قوانین کی پامالی کے معمار ہیں۔