مذہب کے خلاف مقدمہ: دلیل، تہمت اور سچائی

تعارف:

اس تحریر میں مذہب کے خلاف پھیلائے گئے اس عمومی مقدمے کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے جس میں مذہب کو فریب، تشدد اور تعصب کی جڑ قرار دیا جاتا ہے۔ مضمون میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح انسانی تاریخ، عقلِ سلیم، اور اخلاقی اصول خود اس مقدمے پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ محض مذہب کا دفاع نہیں، بلکہ ان عقلی تضادات اور دوہرے معیارات کو بے نقاب کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے جو مذہب کے خلاف رویّوں میں کارفرما ہیں۔

خدا نے جن چیزوں کو پیدا فرمایا ہے، ان میں خود بخود یہ صلاحیت نہیں رکھی گئی کہ وہ انسان کے لیے مفید بن سکیں، بلکہ اشیاء کے مفید، غیر مفید اور مضر ہونے کا تعین انسان پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ انسان ہی کے اختیار میں ہے کہ وہ خدا کے عطا کردہ زبان جیسے آلہ اظہار کو سچ بولنے کے لیے استعمال کرے یا دوسروں کے استحصال کا ذریعہ بنائے، اپنے ہاتھوں کو مظلوم پر اٹھائے یا ظالم کے ظلم کو روکنے کے لیے بروئے کار لائے۔

اسی طرح، خدا نے کائنات میں بے شمار وسائل پیدا فرمائے اور ان کے استعمال کے لیے انسان کو عقل و شعور سے نوازا۔ ان تمام صلاحیتوں اور سہولتوں کو پیدا فرمانے کے بعد، انسان کو بطور امتحان ایک محدود آزادی دی گئی۔ یہ فیصلہ انسان کے صوابدید پر چھوڑا گیا کہ وہ اس آزادی کو کس زاویے سے دیکھتا ہے۔ انسان اپنی اس وقتی آزادی کو کس طرح استعمال کرتا ہے، اس ضمن میں اس پر کوئی فطری جبر نہیں ہے۔ وہ اسے تعمیر کے لیے استعمال کرے یا تخریب کے لیے، یہ اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے۔

البتہ، انسان کو اس معاملے میں خدا کی طرف سے مکمل اور واضح رہنمائی ضرور دی گئی ہے کہ آزادی کا تعمیری پہلو کیا ہے اور تخریبی پہلو کیا۔ نیز، آزادی کے تعمیری استعمال کے کیا نتائج ہوں گے اور تخریبی استعمال کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ خدا نے انسان کو دوٹوک اور غیر مبہم طریقے سے سمجھا دیا ہے کہ وہ اس کائنات میں اپنے لیے کانٹے بوتا ہے یا پھول—یہ اب اس کے طرزِ عمل پر منحصر ہے۔ اگر وہ کانٹے بوتا ہے تو ان کی نسبت اسی کی طرف کی جائے گی، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

ظَهَرَ الۡفَسَادُ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ بِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِى النَّاسِ لِيُذِيۡقَهُمۡ بَعۡضَ الَّذِىۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ ۞

ترجمہ: "خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید کہ وہ باز آ جائیں۔”(سورہ الروم، آیت 41)

اسی طرح قرآن مجید میں انسانی زندگی کی تعمیر کے حوالے سے بھی یہی اصول بیان ہوا ہے کہ خدا نے اس کی فلاح و بہبود کو بھی انسان کے طرزِ عمل سے مشروط کر دیا ہے:

وَلَوۡ اَنَّ اَهۡلَ الۡقُرٰٓى اٰمَنُوۡا وَاتَّقَوۡا لَـفَتَحۡنَا عَلَيۡهِمۡ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ وَلٰـكِنۡ كَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ ۞

ترجمہ: "اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انہوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے انہیں ان کے اعمال کی سزا میں پکڑ لیا۔”سورہ الاعراف، آیت 96)

تعمیر اور تخریب کے حوالے سے انسان کا عملی رویہ بھی قرآن مجید کی ان تعلیمات کی روشنی میں تشکیل پاتا دکھائی دیتا ہے۔ جیسے دنیا میں عدالتوں اور جیلوں کا نظام قرآن مجید کے اسی نقطۂ نظر کی تائید کرتا ہے۔ عدالتوں اور جیلوں کا یہ نظام اس حقیقت کی روشن دلیل ہے کہ ماحول جس جرم اور گناہ سے آلودہ ہوتا ہے، اس کی ذمہ داری انسان پر عائد ہوتی ہے، اور انسان کو اپنی ذمہ داری کے حوالے سے اس نظام کے سامنے جواب دہ قرار دیا گیا ہے۔ انسان کی اس جواب دہی کی بنیاد یہی عقلی و اخلاقی سائنس ہے کہ اس کا کوئی رویہ فساد کا موجب نہ بنے۔

مگر عدالتوں اور جیلوں کے اس منظم نظام اور ان کے پیچھے ریاستوں کی طاقت کے باوجود، کبھی یہ تجویز پیش نہیں کی گئی کہ انسان اپنے جس عضو یا صلاحیت کے ذریعے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اسے سرے سے ختم کر دیا جائے۔ اور نہ ہی اس فیصلے کی تائید میں یہ دلیل دی گئی کہ چونکہ انسان فلاں صلاحیت یا جسمانی عضو کو جرائم میں استعمال کرتا آیا ہے، اس لیے جرائم کے سدِ باب کے لیے اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ چونکہ زبان کے ذریعے لوگوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے، اس لیے عدالت یہ فیصلہ دے کہ تمام انسانوں کی زبانیں کاٹ دی جائیں، یا کسی پارلیمان نے یہ قرارداد پاس کی ہو کہ چونکہ زبان سے فساد پھیلتا ہے، اس لیے روئے زمین سے اس کا خاتمہ کیا جائے اور سب لوگوں کی زبانیں کاٹ دی جائیں۔

ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ ایسا ہونے کا امکان ہے، کیونکہ انسان شعوری طور پر اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ زبان کے غلط استعمال کی ذمہ داری زبان پر نہیں بلکہ اس کے استعمال کرنے والے انسان پر عائد ہوتی ہے۔

لیکن جب بات مذہب کی آتی ہے تو مذہب بیزاروں کے اس فطری شعور اور ادراک کا نام و نشان تک ان کے رویے میں دکھائی نہیں دیتا۔ مذہب کا نام آتے ہی ان کا یہ شعور کہیں غائب ہو جاتا ہے۔ یہ حضرات مذہب کو ہرگز یہ گنجائش نہیں دیتے کہ اس کے منفی استعمال کو اس کے مرتکب کی طرف منسوب کیا جائے، بلکہ بغیر کسی علمی تحقیق کے، مذہب کو فی نفسہ ان تمام جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جو اس کے ماننے والوں سے سرزد ہوتے ہیں۔ اور مذہبی لوگوں کے انہی رویوں کو بنیاد بنا کر مذہب کے بنیادی تصورات میں "اصلاح” کی مختلف تجاویز بڑے شد و مد سے پیش کی جاتی ہیں۔

مذہب کے وجود کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے، ان کا استحصال کیا جاتا ہے، لہٰذا سوسائٹی سے دھوکہ دہی اور استحصالی رویوں کے خاتمے کے لیے مذہب سے انسانیت کو آزاد کرانا ضروری ہے۔

مذہب کے بارے میں اس مؤقف میں نہ دیانت نظر آتی ہے اور نہ ہی علمی رسائی کا رویہ، بلکہ اس غیر منصفانہ طرزِ فکر پر بجا طور پر تعصب کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور زیادہ صحیح یہ محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ مذہب بیزاری، ان تاریخی رویوں کا تسلسل ہے جن کا ذکر ہمیں قرآن مجید میں پورے شرح و بسط کے ساتھ ملتا ہے۔ قرآن مجید مذہب بیزاری کے ان رویوں کو نفس پرستی، تعصب اور مفاد پرستی وغیرہ کے نتائج قرار دیتا ہے۔ یعنی عصرِ حاضر میں موجود مذہب بیزار رویے کوئی نئے رویے نہیں، بلکہ قرآن مجید میں مذکور مذہب بیزاروں کے انہی تاریخی رویوں کی اندھی تقلید ہے۔

تاریخ میں بھی "اصلاح” کے نام پر جس طرح مذہب بیزاری کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، بعینہٖ وہی رویے ہمیں آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ "مصلحین” کے بھیس میں "مفسدین” نے جو طرزِ عمل اختیار کیا، اس پر خدا کا کلام گواہ ہے۔ جب کبھی ان کے مفسدانہ طرزِ عمل کی نشان دہی کی گئی تو ان کا ردِعمل یہی ہوتا تھا:
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِى الۡاَرۡضِۙ قَالُوۡاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ ۞
ترجمہ:”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو، تو وہ کہتے ہیں: ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔”(سورہ البقرہ، آیت 11)

اللہ تعالیٰ نے ان کے ان رویوں کے بارے میں اپنے نبی کو صاف الفاظ میں بتایا:
اَلَاۤ اِنَّهُمۡ هُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَلٰكِنۡ لَّا يَشۡعُرُوۡنَ ۞
ترجمہ:”خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں، مگر انہیں شعور نہیں”(سورہ البقرہ، آیت 12)

جس طرح آج مذہب کو تمام مسائل کی جڑ قرار دے کر طرح طرح کی تجاویز پیش کی جاتی ہیں—کبھی اسے مکمل ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے، کبھی اس کے بنیادی تصورات میں ترمیم کی کوشش کی جاتی ہے، اور کبھی جزوی اصلاح کی تجاویز دی جاتی ہیں—یہی الزامات اور "اصلاحی” تدابیر ماضی میں بھی مذہب کے خلاف پیش کی جاتی رہی ہیں۔

آج بھی اصلاح کے نام پر جو مفسدانہ خیالات بغیر کسی علمی بنیاد اور مخلص انسانی رویے کے، محض "انسانیت” کے نام پر پیش کیے جا رہے ہیں، ان میں چند نمایاں نکات یہ ہیں:

1۔مذہب کا خاتمہ انسانیت کی بڑی خدمت سمجھا جاتا ہے۔ یہی سوچ "انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے”، "پہلے انسانیت، بعد میں مذہب”، "انسانیت کو سجدہ دو”، اور "لوے مذہب، انسانیت دے” جیسے نعروں کی صورت میں پہلے بھی ظاہر ہوئی اور آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ان نعروں کے پیچھے غالباً یہی تصور کارفرما ہے کہ مذہب اور انسانیت دو باہم متصادم نظریات ہیں۔

2۔کبھی کہا جاتا ہے کہ مذہب مکمل طور پر غلط نہیں، لیکن اس کے "دانت نکالنے” کی ضرورت ہے تاکہ اس میں موجود تشدد کا خاتمہ ممکن ہو۔ یہ سوچ اسلام کے بنیادی تصورات میں ترمیم کے ذریعے فساد کے خاتمے کا ایک مفسدانہ منصوبہ پیش کرتی ہے۔

3۔ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں جزوی اصلاح ضروری ہے۔ مثال کے طور پر عورت کی آزادی، اسلامی حدود و سزائیں، پردہ، اور سود جیسے امور کو اسلام سے نکال دیا جائے تاکہ (العیاذ باللہ) اسلام کے نام پر ہونے والی ناانصافی اور دقیانوسیت کا خاتمہ کیا جا سکے۔

4۔ایک اور تصور یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مذہبی تعلیمات کو محدود کر کے صرف انفرادی زندگی تک محدود کر دیا جائے۔ حالانکہ اس نظریے کے حاملین خود انفرادی سطح پر بھی مذہبی شعائر کا مذاق اُڑانے میں پیش پیش رہتے ہیں، مثلاً داڑھی کا مذاق (العیاذ باللہ)، جو کہ ایک خالص انفرادی مذہبی عمل ہے۔

جن طبقات نے مذکورہ بالا نکات کو مذہب میں اصلاح کے عنوان سے پیش کیا، یہاں ان کے تاریخی نظائر قرآنِ کریم کی روشنی میں پیش کیے جا رہے ہیں:

ان میں سے پہلے نظریے یعنی دین کو ختم کرنے کے تصور پر غور کریں تو یہ وہی طرزِ فکر ہے جس کا ذکر قرآنِ مجید ان الفاظ میں کرتا ہے:
وَقَالَ فِرۡعَوۡنُ ذَرُوۡنِىۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰى وَلۡيَدۡعُ رَبَّهٗ‌ۚ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اَنۡ يُّبَدِّلَ دِيۡنَكُمۡ اَوۡ اَنۡ يُّظۡهِرَ فِى الۡاَرۡضِ الۡفَسَادَ۞
ترجمہ:”اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں، اور وہ اپنے رب کو پکار لے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین بدل ڈالے گا، یا ملک میں فساد برپا کرے گا۔”(سورہ غافر، آیت 26)

یہ بالکل اسی رویے کی نظیر ہے جو آج بعض حلقوں میں پایا جاتا ہے کہ دینِ اسلام کو فساد کا منبع سمجھا جاتا ہے (العیاذ باللہ) اور اسے ختم کرنا انسانیت کی خدمت قرار دیا جاتا ہے۔ عصرِ حاضر میں اسی "خدمت” کا بیڑہ ملحدین نے اٹھا رکھا ہے۔ قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ اس فکر کے امام فرعون جیسے ظالم ہیں، جنہوں نے ہزاروں سال قبل اسی انداز میں دینِ حق کے خلاف آواز بلند کی۔

فرعون کے اس "قومی خیرخواہی” کے دعوے کے پیچھے درحقیقت اس کی سفاکیت اور ظلم کا نظام چھپا تھا، جسے وہ انسانوں کو تقسیم کرنے اور ان کے بیٹوں کو قتل کرنے کے ذریعے ظاہر کرتا رہا۔ کمال کی چالاکی یہ تھی کہ وہ اپنی اس ظالمانہ تقسیم کا ذمہ دار دینِ الٰہی کو ٹھہراتا، حالانکہ دینِ حق تو اسی ظلم کے خاتمے کے لیے آیا تھا۔ قرآنِ مجید فرعون کے اس طرزِ عمل کو یوں بیان کرتا ہے:

اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلَ اَهۡلَهَا شِيَـعًا يَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَةً مِّنۡهُمۡ يُذَبِّحُ اَبۡنَآءَهُمۡ وَيَسۡتَحۡىٖ نِسَآءَهُمۡ‌ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِيۡنَ
ترجمہ:”یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی اختیار کر لی تھی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ کمزور کرتا، ان کے بیٹوں کو قتل کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا۔ بے شک وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا۔”(سورہ القصص، آیت 4)
اسی طرح، فرعون کی اصل نیت اپنی ربوبیت اور مطلق العنان حکومت کو بچانا تھی، جس کا اظہار وہ کھلے عام کیا کرتا تھا:

فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الۡاَعۡلٰى۞ترجمہ:”اور اس نے کہا: میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔”
(سورہ النازعات، آیت 24)
مگر اپنے پورے ظلم و استبداد کو "انسانی خیرخواہی” کی چادر میں لپیٹ کر لوگوں کے سامنے پیش کرتا رہا۔ سورہ غافر کی جس آیت کا اوپر ذکر ہوا، اس کی تفسیر میں صاحبِ مدارک التنزیل لکھتے ہیں:

"الفَسَاد فِی الاَرض” کا مطلب ہے باہمی لڑائی، ایک دوسرے کو برانگیختہ کرنا، جس سے امن برباد ہو جائے، کھیتیاں اور تجارتیں تباہ ہو جائیں، اور لوگ قتل و غارت کا شکار ہو جائیں۔ گویا فرعون لوگوں کو یہ باور کرا رہا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ موسیٰؑ تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کر کے اپنی طرف بلائیں گے، جس کے نتیجے میں ایسا فتنہ اٹھے گا کہ تمہاری دنیا تباہ ہو جائے گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون کو (بزعمِ خود) تمہارے دین و دنیا دونوں کے زوال کا خدشہ ہے۔

قرآنِ مجید کی روشنی میں فرعون کے اس طرزِ عمل پر تبصرہ یہی ہے کہ اس نے اپنے ظلم و جبر اور مطلق اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے دینِ حق کو ختم کرنا چاہا، مگر اپنے اس مکروہ ارادے کو "انسانیت” کی آڑ میں پیش کیا۔

جہاں تک دوسرے طبقے کا تعلق ہے جن کا خیال یہ ہے کہ مذہب کے دانت نکالے جائیں تاکہ اس تشدد کا علاج کیا جا سکے جو مذہب کی آڑ میں کیا جاتا ہے، ان کا نظریہ دراصل اس بات پر منتج ہوتا ہے کہ اصلاح کے نام پر مذہب کے بنیادی تصورات میں ترمیم کی جائے۔ اگرچہ بظاہر مذہب سے "دانت نکالنے” کی تجویز کو یہ حضرات انسانی زندگی کو مذہب کے مضر اثرات سے بچانے کا ایک مثبت اقدام قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت میں ان کا مقصد صرف اپنی ان خواہشات کی تسکین ہے جن کی راہ میں مذہب رکاوٹ بنتا ہے۔

یہ لوگ جب مذہب کے دانت نکالنے کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد دراصل یہ ہوتی ہے کہ جیسے کسی انسان کے دانت نکال دیے جائیں تو وہ کمزور اور بے ضرر ہو جاتا ہے، ویسے ہی مذہب بھی زندگی کے کسی گوشے میں کمزور اور غیر مؤثر صورت میں باقی رہے، لیکن اس میں وہ طاقت ہرگز باقی نہ رہے جو انسان کی من مانی زندگی کے راستے میں حائل ہو۔ چونکہ مذہب کو اس حد تک بے اثر بنانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی بنیادوں میں رد و بدل نہ کیا جائے، اس لیے توحید، رسالت اور آخرت جیسے بنیادی عقائد میں خدائی تعلیمات کے ساتھ انسانی خیالات کو گڈمڈ کیا جاتا ہے۔

قرآن مجید اس رویے کی نہایت صراحت سے نشاندہی کرتا ہے۔ خدا نے انبیاء کے ذریعے توحید کا جو تصور انسانوں کو دیا، وہ یہ ہے کہ خدا اپنی ذات اور صفات میں یکتا ہے۔ اُس نے اپنے بندوں کو سکھایا کہ جیسے میں تمہارا خالق ہوں اور میری تخلیق میں کوئی شریک نہیں، ویسے ہی میں تمہارا واحد الٰہ، رب، مالک اور حاکم ہوں۔ لہٰذا جیسے میری ذات میں کوئی شریک نہیں، ویسے ہی میری صفات اور ان کے تقاضوں میں بھی کوئی شریک نہیں۔ مگر چونکہ اس توحید کے ہوتے ہوئے خواہشات کی پیروی ممکن نہ تھی، اس لیے لوگوں نے اس کے مفہوم کو بگاڑ ڈالا۔

قرآن مجید فرماتا ہے:
وَقَالُوۡا لَوۡ شَآءَ الرَّحۡمٰنُ مَا عَبَدۡنٰهُمۡ‌ؕ مَا لَهُمۡ بِذٰلِكَ مِنۡ عِلۡمٍ‌ اِنۡ هُمۡ اِلَّا يَخۡرُصُوۡنَؕ

ترجمہ: "یہ کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا (کہ ہم ان کی عبادت نہ کریں) تو ہم کبھی ان کو نہ پوجتے۔ یہ اس معاملے کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے، محض اندازے لگا رہے ہیں۔”(الزخرف، آیت 20)
یعنی ان کے نزدیک خدا ایسا ہونا چاہیے جو فوراً غلطی پر پکڑ لے، اور چونکہ وہ اب تک پکڑے نہیں گئے، اس لیے اسے وہ اپنی روش کی توثیق سمجھ بیٹھے۔

اسی طرح سورۂ آل عمران میں یہودیوں کے عقیدۂ توحید کی تحریف کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:
لَقَدۡ سَمِعَ اللّٰهُ قَوۡلَ الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيۡرٌ وَّنَحۡنُ اَغۡنِيَآءُ‌ۘ
ترجمہ:” اللہ نے ان لوگوں کا قول سنا جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔”(آلعمران، آیت 181)
یہ خدا کے بارے میں یہودیوں کا وہ پست عقیدہ تھا جو انہوں نے اپنی خواہشات کے تحت گھڑ لیا۔

اسی طرح آخرت سے متعلق بھی کچھ گروہوں نے من گھڑت نظریات گھڑے:
وَقَالُوۡا لَنۡ يَّدۡخُلَ الۡجَـنَّةَ اِلَّا مَنۡ كَانَ هُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰى‌ؕ تِلۡكَ اَمَانِيُّهُمۡ‌ؕ قُلۡ هَاتُوۡا بُرۡهَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ
ترجمہ: "ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی یا نصرانی نہ ہو۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں۔ ان سے کہو اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔”(البقرہ، آیت 111)

یعنی خدا نے آخرت کی فلاح کو ایمان اور عملِ صالح سے مشروط کیا تھا، مگر انہوں نے قومیت اور نسل کو معیار بنا ڈالا۔

اسی طرح عقیدۂ رسالت کو بھی خواہش پرستوں نے مسخ کیا۔ انبیاء کو انسانوں میں سے منتخب کیا گیا اور ان کی غیر مشروط اطاعت لازم قرار دی گئی، مگر انہوں نے رسالت کو جادوگری یا بشر ہونے کے طعنوں کے ذریعے ناقابلِ قبول بنا دیا۔
لَاهِيَةً قُلُوۡبُهُمۡ‌ؕ وَاَسَرُّوا النَّجۡوَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا ‌ۖ هَلۡ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ‌ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَاَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ ۞

ترجمہ:” دل ان کے (دوسری ہی باتوں میں) منہمک ہیں، اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص تو صرف ایک بشر ہے، کیا تم آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟”
(الأنبیاء، آیت 3)

تیسرا طبقہ وہ ہے جو مذہب میں جزوی تبدیلی کا حامی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ شریعت کے بعض احکام کو ختم کر دینا چاہیے اور ان کی جگہ نئے احکام متعارف کرانے چاہییں۔
وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلۡسِنَـتُكُمُ الۡكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّهٰذَا حَرَامٌ لِّـتَفۡتَرُوۡا عَلَى اللّٰهِ الۡكَذِبَ‌ؕ

ترجمہ: "اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹ گھڑتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح اللہ پر جھوٹ نہ باندھو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے۔” (النحل، آیت 116)

یعنی انہوں نے شریعت میں اپنی خواہشات کے مطابق ترمیم کر کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنایا۔

اس رویے کی مزید وضاحت ہمیں سورۂ انعام کی آیت 159 میں ملتی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ
ترجمہ: "جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہوں میں بٹ گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔”(الأنعام،آیت 159)
سید مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"دین ہمیشہ سے ایک رہا ہے، مگر لوگوں نے اپنی خواہشات، ذہنی قیاسات اور غلو کی بنا پر اس میں ترمیم و تحریف کی، اور اسے اپنے ذاتی مزاج کے مطابق بدل دیا۔”

چوتھا طبقہ وہ ہے جو مذہب کو صرف انفرادی زندگی تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ دین کا تعلق صرف عبادات، اخلاق اور ذاتی معاملات سے ہے، جبکہ اجتماعی امور میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔ حالانکہ دین میں زکوٰۃ کا نظام، حدود کا نفاذ، سود کی ممانعت اور دیگر معاشرتی احکام، اجتماعی زندگی میں مذہب کی موجودگی کو لازم قرار دیتے ہیں۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ يَزۡعُمُوۡنَ اَنَّهُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يَّتَحَاكَمُوۡا اِلَى الطَّاغُوۡتِ وَقَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ يَّكۡفُرُوۡا بِهٖ ؕ وَيُرِيۡدُ الشَّيۡـطٰنُ اَنۡ يُّضِلَّهُمۡ ضَلٰلًاۢ بَعِيۡدًا
ترجمہ: "اے نبیﷺ! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تم پر نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ طاغوت سے کرائیں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان تو انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔”(النساء، آیت 60)
مفسرین کے مطابق طاغوت سے مراد وہ نظام ہے جو خدا کے بجائے کسی اور کے قانون پر فیصلے کرے۔ ایسے نظام کو ماننا گمراہی ہے۔

مذکورہ بالا چاروں طبقات عصرِ حاضر میں بھی مختلف ناموں کے ساتھ موجود ہیں۔

وہ جو مذہب کو سرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ ایتھیئسٹس، کمیونسٹس وغیرہ کی شکل میں موجود ہیں۔

وہ جو دین کے بنیادی تصورات میں تبدیلی چاہتے ہیں، وہ منکرینِ سنت، لبرلز اور بعض قوم پرستوں کی صورت میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔

وہ جو خدا کی شریعت میں جزوی تبدیلی کے روادار ہیں، جیسے فیمینسٹس، نام نہاد انسان دوست، اور انسان پرست، ان کے گروہ آج بھی انہی ناموں سے سرگرم ہیں۔

اور وہ طبقہ جو اجتماعی زندگی سے مذہب کو خارج کرنا چاہتا ہے، وہ "سیکولرزم” کے نام سے آج بھی زندہ ہے۔

ان لوگوں میں اکثریت ایسے حضرات کی ہے جو مذکورہ بالا چاروں طبقات کے بیک وقت حامی ہیں، اور وہ اپنے لیے کبھی کیا نام تجویز کرتے ہیں اور کبھی کیا؛ جیسے آزاد خیال، انسان دوست، یا لوءِ مذہبِ انسانیت کے حامی وغیرہ۔

مذہب کے حوالے سے یہ لوگ اپنے رویّوں کو اسی طرح انسانی خیرخواہی کا نام دیتے ہیں، جس طرح قرآنِ مجید کی روشنی میں بیان کردہ چار طبقات بھی اپنے مذہب بیزاری کو انسانی خیرخواہی ہی کی بنیاد پر قائم رکھتے تھے۔
مذہب بیزاروں کے ان سطحی نعروں سے متاثر ہو کر ہمارے ہاں بھی مذہب بیزاری کی بیماری نے جڑ پکڑ لی ہے۔

اب ہم عملی طور پر مذہب بیزاروں کے رویّوں کو چند پہلوؤں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے مذہب بیزاری میں کتنی سنجیدگی ہے؟

اس حوالے سے ہم سب سے پہلے مذہب بیزاروں کے رویّوں میں ناروا جانبداری کا جائزہ لیتے ہیں۔

یہ جائزہ اس حیثیت سے ہے کہ مذہب کے لیے ان کا پیمانہ الگ ہے اور دیگر نظاموں کے لیے الگ؛ یعنی مذہب کے حوالے سے ان کا رویّہ سراسر ناانصافی پر مبنی ہے۔
ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا مذہب بیزار انسانی زندگی کو مذہب سے آزادی دینے کی جو بات کرتے ہیں، ایسا ہونا ممکن بھی ہے کہ انسان ہو اور مذہب نہ ہو؟
اسی طرح مذہب بیزاروں کے اس نعرے میں کتنی صداقت ہے کہ ان کا یہ رویّہ انسانیت کی ہمدردی پر مبنی ہے؟
کیا مذہب بیزاروں نے کبھی ایسا رویہ اختیار کیا ہے جو واقعی انسانی ہمدردی کا عکاس ہو؟
کیا انہوں نے مذہب کے نام پر ہونے والے دھوکے کے مسئلے پر کوئی سنجیدہ غور کیا ہے؟
کیا اس حوالے سے کوئی علمی، تحقیقی کام کیا ہے؟

ذیل کی سطور میں مذہب بیزاروں کے مذہب کے حوالے سے عملی رویّوں کا جائزہ پیشِ خدمت ہے:

1۔ اس بات میں کوئی شک نہیں، اور یہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہے، کہ مذہب کو لوگوں نے دھوکہ دہی کے لیے استعمال کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔
یہ بھی ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جن چیزوں کو سب سے زیادہ انسان نے انسان کے استحصال کے لیے استعمال کیا، ان کی فہرست میں مذہب کو بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔
مگر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس فہرست میں صرف مذہب نہیں، بلکہ پیسہ، اقتدار، قوم پرستی، کمیونزم اور سیکولرزم وغیرہ بھی شامل ہیں۔
اگر کوئی شخص زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے ہمارے اس مؤقف کو رد کرتا ہے کہ مذہب کے علاوہ بھی کسی نظریے کو انسانیت کے استحصال کے لیے استعمال کیا گیا ہے، تو شاید وہ سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے انسانی استحصال کو جائز سمجھتا ہوگا۔

وہ شاید کمیونزم کے نام پر انسانوں کے قتلِ عام، اور ان سے اظہارِ رائے کی آزادی چھیننے کو کمیونسٹوں کا جائز حق مانتا ہو۔

وہ شاید کسی فرد یا مخصوص گروہ کو یہ حق دینے کا قائل ہو کہ وہ اپنے خود ساختہ فلسفے کو انسانوں پر جبر کے ذریعے نافذ کرے۔ وہ شاید اس بات کو درست سمجھے کہ انسانوں کو معاشی مسئلے کی آڑ میں طبقات میں تقسیم کر کے، اصلاح کے نام پر انہیں مزدور اور سرمایہ دار کی جنگ میں جھونک دیا جائے—یعنی ایک مسئلے کے حل کے لیے انہیں ایک اور زیادہ سنگین مسئلے میں مبتلا کر دیا جائے۔ اور پھر وہ حل بھی ایسا ہو جو عملاً ممکن ہی نہ ہو۔

(بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے کہ اسلام کے علاوہ انسانی مسائل کے حل کے لیے جن نظاموں کو بطور نسخہ متعارف کرایا گیا، ان میں کیا درست ہے اور کیا غلط۔)

ان تمام تر زمینی حقائق کے باوجود محض مذہب کو انسانوں کے استحصال کا ذریعہ قرار دینا ایک غیر منصفانہ اور ناقص تناظر ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ جس شد و مد کے ساتھ مذہب کے ذریعے استحصال پر تنقید کی جاتی ہے، اسی شدت کے ساتھ دیگر نظاموں کے غلط استعمال کو بھی ہدفِ تنقید بنایا جاتا۔ مگر اس باب میں ہمیشہ تعصب سے کام لیا گیا ہے۔

جس بنیاد پر مذہب سے بیزاری کو جواز فراہم کیا جاتا ہے، وہی بنیاد دیگر نظاموں میں بھی موجود ہے، مگر اس کے باوجود ان نظاموں کو نہ صرف قبول کیا جاتا ہے بلکہ ان کی حمایت بھی کی جاتی ہے۔

اگر کسی نظام کے رد کے لیے یہ دلیل کافی نہیں کہ اسے غلط استعمال کیا گیا ہے، تو پھر یہی اصول مذہب پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ یعنی کسی نظام کو صرف اس بنیاد پر رد کرنا کہ لوگ اسے غلط استعمال کرتے ہیں، مناسب نہیں۔ بلکہ کسی بھی نظام کے رد و قبول کے لیے کچھ بنیادی اور معروضی پیمانے ہونے چاہییں۔

یہاں ہمارا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ اگر جس پیمانے پر مذہب کو رد کیا جاتا ہے، اسی کو معیار بنایا جائے، تو پھر دیگر تمام انسانی ساختہ نظاموں کو بھی رد کر دینا چاہیے۔

2۔اس ضمن میں ایک نہایت اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مذہب انسان کا استحصال کرتا ہے، لہٰذا اسے ختم کر دینا چاہیے—ان سے سب سے پہلے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ ان کے نزدیک "مذہب” ہے کیا؟

مذہب کا مفہوم کیا ہے؟

اگر مذہب سے مراد انسانی زندگی کے لیے کچھ اصول و ضوابط، اقدار اور طرزِ عمل کا تعین ہے، تو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دنیا کا کوئی معاشرہ یا نظامِ زندگی ان اصولوں سے خالی نہیں ہوتا۔
سوشلسٹ، کمیونسٹ، لبرل، سیکولر یا کوئی بھی جدید فکر اپنے نظامِ زندگی پیش کرتے ہیں، جو انسان کو طرزِ فکر اور طرزِ حیات عطا کرتے ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ اگر انسان کو مذہب سے آزاد ہونا چاہیے، تو پھر یہ لوگ خود کیوں کر ان متبادل "نظاموں” کے علَم بردار بن جاتے ہیں؟
اگر ہر طرح کے اصول و ضوابط کو مذہب مانا جائے، تو پھر کمیونزم، سوشلسزم، لبرل ازم، سیکولرازم وغیرہ بھی اپنی نوعیت میں "مذاہب” ہی کی شکلیں ہیں۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس مذہب کی مذہب بیزار مخالفت کرتے ہیں، وہ خدائی مذہب ہے—اور جس کے وہ حامی ہیں، وہ انسانی مذاہب ہیں۔
منطقی طور پر سوچا جائے تو استحصال قوانین کی بنیاد پر کیا جاتا ہے—اور قوانین تو خدائی اور انسانی مذاہب، دونوں میں ہوتے ہیں۔
پس اگر مذہب کا انکار دراصل اصولوں کی غلامی سے آزادی کا مطالبہ ہے، تو پھر انسان کو ہر قسم کے ازم اور نظریے سے بھی نجات حاصل کرنی چاہیے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہب سے بیزاری کے بعد بھی یہ لوگ کسی نہ کسی "مذہب” کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ وہ چاہے خود کو مذہبی کہے یا غیر مذہبی، حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی نہ کسی مذہب پر ہوتا ہے—کیونکہ وہ ایک ضرورت مند مخلوق ہے، جو کسی نہ کسی ضابطۂ حیات کا محتاج ہوتا ہے۔

3۔اس سلسلے کا ایک قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ مذہب بیزار لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان مذہب کے نام پر بار بار دھوکہ کھاتا آیا ہے، لہٰذا مذہب کو رد کر دینا چاہیے۔
مگر یہاں اصل سوال یہ ہے کہ اگر انسان مذہب کے نام پر بار بار دھوکہ کھاتا ہے، تو اس کا اصل مفہوم کیا ہے؟ اور اس سے نتیجہ کیا اخذ کیا جانا چاہیے؟
مگر مذہب بیزاروں نے انسانی رویے کے پسِ پشت محرکات کا تجزیہ کیے بغیر فوراً یہ کہنا شروع کر دیا کہ انسانیت کو سکھ کا سانس لینے کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کو سرے سے ختم کر دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے باقاعدہ تحریکیں قائم ہوئیں، اور آج بھی مذہب کو انسانی استحصال کا ذریعہ سمجھنے والے اپنے تئیں ایک "جہادِ عظیم” میں مصروف ہیں کہ مذہب کو دنیا سے مٹا دیا جائے۔
اس کے لیے انہوں نے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں، مثلاً اسلام کی اصطلاحات—جیسے جہاد، پردہ، اور قصاص—کو اس انداز سے پیش کرنا کہ گویا یہ سراسر ظلم اور انسان پر ناروا جبر ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ مذہب کے نام پر دھوکہ دیا گیا ہے اور لوگ اس کا شکار بھی ہوئے ہیں۔
اسی بنا پر بعض دانشور حضرات یہ رائے دیتے ہیں کہ چونکہ مذہب کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ ہوتا ہے، اس لیے مذہب کو درمیان سے ہٹا دینا چاہیے۔
مگر کبھی ان حضرات نے اس نکتہ پر غور نہیں کیا کہ جس چیز کے نام پر انسان دھوکہ کھاتا ہے، وہ دراصل اس کی فطری طلب ہوتی ہے، اس کی جبلّی ضرورت ہوتی ہے۔
مثلاً ایک بکری ہے۔ جب ہم اس کے سامنے خالی دامن رکھتے ہیں، تو وہ یہ محسوس کرتی ہے کہ اس میں گھاس یا خوراک ہے، تو وہ آ جاتی ہے۔ وہ دھوکہ کیوں کھا رہی ہے؟
اس لیے کہ اس کے اندر بھوک کی ایک فطری طلب موجود ہے۔
اب اگر کوئی یہ حل تجویز کرے کہ چونکہ بکری کو بھوک کی بنیاد پر دھوکہ ہوتا ہے، لہٰذا بھوک کو ہی ختم کر دیا جائے—تو کیا یہ معقول حل ہو گا؟ کیا یہ ممکن بھی ہے؟
بالکل اسی طرح مذہب کے نام پر انسان کے دھوکہ کھانے کے رویے کا مشاہدہ سنجیدگی کا متقاضی ہے۔
یہ ضروری تھا کہ اس پر سنجیدہ تحقیق ہوتی، خاص طور پر ان لوگوں کی طرف سے جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر دھوکہ ہوتا ہے، اس لیے اسے ختم کیا جانا چاہیے۔
بجائے اس کے کہ مذہب کے خاتمے کا نعرہ لگایا جائے، ان اسباب کا علمی تجزیہ ہونا چاہیے تھا جو مذہب کے نام پر دھوکہ دہی کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
اگر واقعی انسانی ہمدردی پیشِ نظر ہے، تو اس بات پر تحقیق کی جائے، انسانی فطرت کو سمجھا جائے، مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا جائے—اور اس کے بعد ایک متوازن نتیجہ اخذ کیا جائے، جو انسانوں کے لیے واقعی فائدہ مند ہو۔
جو لوگ مذہب بیزاری کا یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں، وہ بہت طاقتور ہیں؛ میڈیا ان کے پاس ہے، اور دنیا کی بڑی ریاستوں کی پشت پناہی بھی انہیں حاصل ہے۔
اگر واقعی وہ انسانیت کی خیر خواہی میں مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور اس مسئلے پر سنجیدہ اور غیر جانب دار تحقیق کریں۔
کیا آج تک کسی نے واقعی اس مسئلے پر غور کیا ہے؟
کیا کبھی کسی سنجیدہ تحقیقی ٹیم نے مذہب بیزاری کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کا تجزیہ کیا ہے؟
کیا مذہب، عمرانیات، نفسیات، اور فلسفے کے ماہرین کو اکٹھا کر کے اس پر تحقیق کی گئی ہے کہ آخر مذہب کے نام پر جو دھوکے دیے گئے، ان کے اصل اسباب کیا تھے؟
اور اس پورے فکری بحران کا متوازن، حقیقت پسندانہ حل کیا ہو سکتا ہے؟
سچ یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب بیزاری بذاتِ خود ایک خیر خواہانہ رویہ نہیں بلکہ تعصب، تنگ نظری، نفس پرستی اور مادہ پرستی پر مبنی ایک ردِ عمل ہے۔
بعض لوگوں نے مذہب کو سمجھے بغیر، محض ذاتی تلخیوں یا سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر اسے چھوڑ دیا۔
کچھ نے اسے فیشن یا بغاوت کے رجحان کے طور پر اپنا لیا، بغیر اس کے کہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ اس طرزِ فکر کا انجام انسانیت کو کہاں لے جائے گا۔
اور جو لوگ واقعی اخلاص کے ساتھ مذہب سے مایوس ہو کر اسے چھوڑ بیٹھے ہیں، اور اس رجحان کو انسانیت کی فلاح کا راستہ سمجھتے ہیں—ہم ان سے مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے پر ایک بار کھلے دل، خالی ذہن، اور سچے ارادے سے غور کریں۔
کیونکہ اگر مسئلہ صرف غلط فہمی کا ہے، تو اسے علم و بصیرت سے رفع کیا جا سکتا ہے۔
اور اگر مسئلہ مذہب کے تاریخی غلط استعمال کا ہے، تو اس کا حل مذہب کو ترک کرنا نہیں، بلکہ اس کی اصل روح کو سمجھ کر، خالص ماخذ سے اسے اپنانا ہے۔

ہم ان حضرات سے مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ مذہب بیزاری سے متعلق ہماری ان گزارشات پر بغیر کسی تعصب کے، کھلے دل سے غور کریں—اور پھر خود فیصلہ کریں کہ آیا مذہب کے خلاف ان کا رویہ واقعی انسان کی خیر خواہی پر مبنی ہے، یا اس کے پیچھے کچھ اور عوامل کارفرما ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے