پیکر جود و سخا خلیفہ سوم حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

داماد رسول اور بارگاہِ الٰہی کے مقبول حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ایسا فرد جس کی ذات میں اللہ تعالی نے ٹنوں کے حساب سے شرم و حیا، جود و سخا، احساس و ہمدردی، شرف و عزت اور ایمان و اطمینان جمع کیا تھا اور جس کو اللہ تعالی نے علم و حلم، طاقت و اقتدار اور مال و دولت سے بھی فاراوانی کے ساتھ سرفراز کیا تھا اور جس نے اخلاق کی بلندی، طبیعت کی نفاست اور مخلوق خدا کے لئے خیر خواہی کا جذبہ بھی بے انتہاک ہہ پایا تھا ایسے ہی لوگوں کے بارے میں میرا احساس ہے کہ یہ دراصل انسانیت کا حسن، زمین کا نمک اور تاریخ کا فخر قرار پاتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں میں سے ایک صحابی رسول، خلیفہ رسول، داماد رسول اور محبوب رسول حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہیں۔

آئیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چند امتیازی اوصاف پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں!

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ کے چند تعلیم یافتہ افراد میں سے ایک تھے، آپ کو کاتب وحی کا اعزاز بھی حاصل ہے، آپ صحابہ کرام کی "ایلیٹ کلاس” یعنی عشرہ مبشرہ کے ممبر بھی تھے، آپ کو تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صاحب زادیوں سے یک بعد دیگرے نکاح کی سعادت بھی حاصل ہے، آپ مکہ کے چند صاحب ثروت افراد میں شامل تھے، آپ جسمانی طور پر نہایت خوبصورت، وجہیہ اور متوازن قد و قامت کے مالک تھے، آپ حد سے زیادہ نرم و ملائم طبیعت والے بھی تھے، آپ خواتین سے بڑھ کر شرم و حیا کرتے تھے، آپ نے بے شمار غلام زر کثیر صرف کر کے آزاد کرائیں تھے۔

حدیث کی کتابوں میں ایک دلچسپ واقعہ درج ہے کہ "ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر پر دعوت کی، حضرت عثمان غنی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے خود خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ساتھ لے آئیں۔ تاجدارِ کائنات آگے آگے جا رہے تھے اور عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے پیچھے آرہے تھے اسی اثناء میں عثمان غنی کچھ گننا شروع ہوگئے تاجدارِ کائنات نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مسکرایا اور پوچھا عثمان کیا گن رہے ہو؟ عثمان غنی نے نہایت محبت سے جواب دیا حضور آپ کے قدم مبارک گن رہا ہوں جتنے قدم آپ نے میرے گھر تک اٹھائیں ہیں اتنے ہی غلام آزاد کراؤں گا اور پھر ایسا ہی ہوا آپ نے قدموں کے برابر غلام اگلے ہی دن آزاد کرائیں۔

رہائش، لباس پوشاک، کھانے پینے اور طرزِ کلام سے متعلق آپ اعلیٰ ترین ذوق کا حامل انسان تھے لیکن حیرت انگیز طور پر ان ساری چیزوں نے آپ کو اللہ، اللہ کی عبادت، فکر آخرت اور اپنی ذمہ داریوں سے پل بھر کے لیے بھی غفلت میں کبھی مبتلا نہیں کیا۔ آپ ہمیشہ فکر آخرت میں ڈوب کر رہا کرتے تھے۔ آپ جب بھی کسی قبرستان سے گزرتے تھے تو اتنے روتے کہ داڑھی مبارک تر ہوتی تھی، لوگ پوچھتے تھے اتنے خوف زدہ ہونے کی وجہ آخر کیا ہے؟ جواب دیتے تھے "قبر آخرت کے مراحل میں سب سے پہلا مرحلہ ہے جو یہاں سرخرو ہوا وہ آگے بھی کامیاب ہوگا اور جو یہاں ناکام رہا وہ آئندہ مراحل میں بھی نامراد ہی رہے گا بس یہ احساس مجھے بے چین رکھتا ہے”۔ آپ شب بیدار عابد، صائم الدھر روزے دار، فکر آخرت سے دائمی طور پر سرشار اور ہر دم مخلوق خدا کے ہمدرد و مددگار تھے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک کامیاب اور آسودہ حال تاجر تھا۔ آپ کا کاروبار کئی علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ نہایت سلیم الفطرت انسان واقع ہوا تھا جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعے انہیں دعوت حق پہنچی تو قبول حق میں ذرہ بھر تردد نہیں کیا اور حلقہ بگوش اسلام ہوئے گویا ان کے دل اور روح اسلام کے منتظر تھے۔ قبل از اسلام کی زندگی میں بھی وہ کبھی زنا، شراب اور ایذا رسانی کے قریب بھی نہیں پھٹکے تھے۔ اسلام لانے کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر آپ کے عزیزوں نے بے حد سختی کی اور انہیں بدترین اذیت سے دو چار کیا لیکن آپ نے کمال استقامت سے حالات کا مقابلہ کیا اور کسی بھی پہلو سے بدظن نہ ہوئے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی عطاؤں اور عمومی فلاح و بہبود سے متعلق اقدامات سے مسلمانوں کے احوال میں زبردست آسودگی، اطمینان اور خوشحالی آئی۔ آپ نے ضرورت کے ہر موقع پر اپنی دولت اور وسائل سے مسلمانوں کی بےدریغ مدد کی۔ آپ نے بے شمار غلام آزاد کیے، آپ نے کنویں خریدیں اور کھدوائیں، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جدو جہد کرنے والوں کو ہر طرح کے مال و اسباب فراہم کیے، غزوہ تبوک کا موقع مسلمانوں کے لیے بے حد مشکل تھا، تنگی تھی، گرمی تھی اور لوگ سخت حالات سے دو چار تھے۔ تاجدارِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی تعاون کے لیے اعلان فرمایا تو تمام صحابہ کرام نے مقدور بھر اسباب جمع کئے یہی وہ موقع تھا کہ جس میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھر کا سارا سامان حاضر کیا تھا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آدھا ساز و سامان لایا تھا جبکہ غزوہِ تبوک کے موقع پر آپ نے ایک ہزار اونٹ بمعہ ساز و سامان، ستر گھوڑے، اجناس اور ہتھیار تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی اور سخا پہ بے حد مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا "آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا”۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی نرمی اور شرافت نفسی سے ہمیشہ ناگوار حالات کو خوشگوار احوال میں بدلنے کی کوشش کی، آپ نے ذاتی طور پر نہایت تکلیف دہ حالات برداشت کر کے امت کے اجتماعی مفاد کو ہر آن عزیز رکھا یہاں تک کہ مٹھی بھر باغیوں نے آپ کے گھر کا چالیس روز تک محاصرہ برقرار رکھا، کھانے پینے کے اشیاء کو بند کیا، بے بنیاد پروپیگنڈا روا رکھا، غیر حقیقی الزامات لگائیں، آپ کی اتھارٹی کو چیلنج کیا، کئی کبار صحابہ کرام (بلخصوص حضرت علی کرم اللہ وجہہ) نے حالات قابو میں رکھنے کے خاطر سختی سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن آپ نے سختی سے مکمل اجتناب کیا اور نرمی سے حالات معمول پر لانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں لیکن افسوس کہ باغیوں نے فساد کا چونکہ پکا ارادہ کیا تھا اس لیے انہوں نے ہر مخلصانہ کوشش کو ناکام بنا کر حالات کو ٹھیک نہ ہونے دیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئی مرتبہ گھر کی چھت سے انہیں مخاطب کیا اور دل سوز انداز میں نصیحت کرتا رہا لیکن طاقت کے استعمال سے آخری لمحات تک اجتناب برتا یہاں تک کہ آپ کو 82 سال کی عمر میں، اپنے گھر میں، زوجہ حضرت نائلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سمیت روزے کی حالت میں، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے بے دردی سے شہید کیا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات و صفات کا جائزہ ہم خاص طور پر دو پہلوؤں سے لیتے ہیں۔ ایک دولت مند تاجر کے طور پر اور دوم ایک بڑے رقبے (44 لاکھ مربع کلومیٹر) کے حکمران کے طور پر۔ دولت مند تاجر ہونے کے طور پر انہوں نے ہمیشہ اپنی دولت کو گردش میں رکھا، انہوں نے دولت جمع نہیں کیا انہوں نے اپنی دولت تجارت کے مختلف دائروں میں لگایا، چلایا اور جو نفع کمایا اسے مخلوق خدا کے فلاح و بہبود پر کھلے دل سے خرچ کیا۔ سیرت کی کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ جب بھی کسی صحت مند اور عقلمند جوان کو فارغ دیکھتے تو اسے فوراً بلاتے، اس کے احوال معلوم کرتے اور پوچھتے کہ کام کیوں نہیں کر رہے؟ اگر وہ کام کی ضرورت رکھتا اور آمادہ بھی ہوتا تو اس کو فوراً کسی نہ کسی کام پر لگاتا۔

آپ کا کردار بطورِ "جامع القرآن” رہتی دنیا تک امت مسلمہ کے سینوں میں محفوظ رہے گا۔ آپ سے پہلے قرآن کریم متفرق شکل میں موجود تھا، مربوط صورت میں نہیں۔ آپ نے زبردست محنت اور اہتمام سے قرآن کریم کو واحد معیاری کتابی نسخے کی صورت میں جمع اور رائج کیا آج دنیا بھر میں قرآن کریم کا یہی نسخہ رائج اور جاری ہے۔ قرآن کریم کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے لیکن اس انتظام میں شائد انسانوں کا بھی کردار شامل تھا جو کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کمال محنت، استقامت اور سعادت سے ادا کیا۔

دولت کے بارے میں انسانی رویے عموماً دو طرح کی شکلیں اختیار کر لیتے ہیں۔ ایک عیاشی کا رویہ اور دوم ذمہ داری کا رویہ۔ کچھ دولت مند عیاشی میں ایسے پڑتے ہیں کہ انہیں اور کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ وہ دولت کماتے ہیں اور اسے عیاشی میں اڑاتے ہیں اس احساس کے بغیر کہ اس دولت میں محروموں کا بھی کوئی حق بنتا ہے جبکہ بعض لوگ ذمہ داری کا رویہ اپناتے ہیں اور جب بھی وہ اپنے گرد و پیش میں پھیلی غربت، بے بسی، بیماری اور لاچارگی کے لپیٹ میں آئے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ ہماری دولت میں ان کا بھی حصہ ہے جو دولت نہیں رکھتے اور یوں اپنی دولت کو عمومی فلاح و بہبود پر فراخ دلی سے خرچ کرتے ہیں۔ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسری قسم کے لوگوں میں سے ایک تھے۔ وہ غربت کے مارے اور مسائل حیات سے دبے لوگوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت آمادہ و تیار نظر آتے۔ انہوں نے بے شمار لوگوں کی مدد کر کے انہیں باوقار اور خوشحال زندگی گزارنے کے لائق بنایا۔ سیرت کی کتابوں میں کثرت سے ایسے واقعات مذکور ہیں جو ان کی فراخدلی، رحم دلی اور احساس ذمہ داری کی عکاسی کر رہے ہیں۔

بطورِ حکمران حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رویہ انسان دوست، امن دوست، فلاح عامہ کا حامل اور ترقی پسندانہ تھا۔ آپ نے ایسا ماحول بنانے کی طرف خاص توجہ دی کہ جس کا نتیجہ عمومی خوشحالی، ترقی اور امن و سکون کی صورت میں نکلے۔ آپ کی پالیسی بیرونی فتوحات اور اندرونی استحکام کی آمیزش سے بنی تھی۔ آپ نے اس ڈھانچے کو مزید وسعت دی جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چھوڑا تھا۔ فلاحی ریاست کے جو نقش و نگار حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابتدائی طور پر ترتیب دیئے تھے حضرت عثمان غنی نے انہیں نقوش پر چل کر مزید ترقی دی۔ زراعت اور تجارت کے شعبوں نے آپ کے دور میں خوب ترقی کی اور لوگ عمومی طور پر خوشحالی اور آسودگی سے زندگی بسر کر رہے تھے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوچ و اپروچ، فکر و نظر، سیرت و کردار، جذبات و احساسات اور خدمات و ترجیحات کو اگر ایک "کیس سٹڈی” کے طور پر لے کر اس سے رہنمائی لینے کا اہتمام ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ مسلم معاشرے نہ صرف حقیقی اسلامی معاشروں میں بدل جائیں گے بلکہ بہترین فلاحی معاشروں کی روپ میں دنیا کے سامنے نمایاں ہوں جائیں گے۔ آج ہر طرف سے افراط و تفریط نے بری طرح سماج کا احاطہ کیا ہوا ہے، کہیں پہ عیاشیاں ہیں تو کہیں پہ محرومیاں، کہیں پہ شدت پسندی ہے تو کہیں پہ طاقت کا بے رحمانہ استعمال، کہیں پہ بدنظمی ہے تو کہیں پہ بے حسی ان ساری علتوں مل کر معاشرے کی شکل ٹھیک ٹھاک بگاڑ دی ہے۔ معاشرے کو دوبارا سنوارنے اور فلاح و بہبود کے ٹریک پر ڈالنے کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار، انتظام اور وژن میں بہترین رہنمائی پائی جاتی ہے۔ لمحہ موجود کو اسے توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

وہ بارگاہ الٰہی کے مقبول
درگاہ نبوت کے محبوب
خلافت راشدہ کے ستون
وحی الیوحی کے مرقوم۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے