میرے دوست!
(میں ہر جاننے والے کو دوست کہتی ہوں اور فارسی میں جو صف بندی ہے یا عربی میں جو تقسیم ہے، وہ نافذ نہیں کرتی) — خاص طور پر وہ، جو مجھے پڑھتے تو ہیں، کیونکہ زیادہ تر تو پڑھتے ہی نہیں بلکہ مروّتاً، جلدی جلدی کسی سوشل میڈیا پر تحریر کا لنک دیکھ کر ایموجی بنا کر جان چھڑاتے ہیں۔
(کئی تو ایسے ہیں کہ کتاب کی اعزازی کاپی لے لیں گے، مگر نہ تو پڑھیں گے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر اس کا تذکرہ کریں گے۔)
ان سب صدمات کو سہنے کے باوجود میں لکھنے سے باز نہیں آتی۔ تاہم، چھپنے کی اشتہا کو قابو میں رکھتی ہوں، اور صرف چیدہ چیدہ تحریر کو چھپوانا چاہتی ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ میرے ملنے والے شاید وہ مسائل، جو میں اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہوں، اُن سے مکمل طور پر ایمپتھائز نہیں کرتے۔ اکثر دوست اور خیر خواہ، محبت بھری شوخی سے مجھے "ڈوم اسکرولر” بھی کہہ دیتے ہیں۔ یعنی ان کے لیے میں ایک ایسی عورت ہوں جو ہر وقت بری خبریں (ویسے خبر تو ہوتی ہی بری ہے) — دنیا کی شکست و ریخت، بگڑتی امیدوں، اور بکھرتی انسانیت کی خبریں ڈھونڈتی ہے۔
شاید وہ سمجھتے ہیں کہ میری فکری پیاس، میری جذباتی شدت، اور میری مزاحمت، کسی "نارمل” کی دشمن ہے۔ اکثر فیمنسٹ عورتوں کو ایسا ہی، بلکہ پاگل سمجھا جاتا ہے۔
اور یہیں پر میں ایک وضاحت کرنا چاہتی ہوں!
میری دوست نوازی دراصل اُس فارسی-عربی مزاج سے پھوٹی ہے، جہاں "دوست” محض ایک سماجی تعارف نہیں، بلکہ ایک روحانی نسبت ہے۔
میں "دوست” کسے کہتی ہوں؟
فارسی میں ایک دوست یار بھی ہو سکتا ہے — وہ جو دل کا ہمراہی بنے۔ رفیق ہو سکتا ہے — جو راہوں میں ساتھ چلے۔
ہمراز — جو راز سنبھالے، ہمدم — جو خاموشیوں کا ساتھی ہو۔
عربی میں دوست صرف صديق نہیں، بلکہ خليل بھی ہو سکتا ہے — وہ جو ابراہیمؑ کی طرح اللہ کا قرب پا جائے۔
ندیم — جو محفل میں ہو، باتوں میں ہو، درد میں ہو۔ یا أنیس — جو اکیلے پن کا مرہم ہو۔
میں تو ایسے سارے دوستوں کو ایک ہی دائرے میں سمیٹ لیتی ہوں — کیونکہ میری نظر میں تعلق، درجہ بندی سے بالا تر ہے۔ اور یہ میری حماقت ہے یا طاقت، اس کا فیصلہ وقت کرتا ہے۔
آج میں نہ تو کسی حالیہ، جاری شدہ یا ممکنہ جنگ یا اس کے جنون پر بات کروں گی،نہ کسی نسل کشی پر، نہ نہتے لوگوں کے قتلِ عام پر نوحہ کُناں ہوں گی،نہ ہی فلسطینی مسلمانوں کے خونِ ناحق سے لا تعلق کسی طاقت ور سفارت خانے جانے والوں کی دیدنی خوشی اور ان کی منافقت پر لعنت بھیجوں گی۔
اور ہاں، یقین جانیے، میں آج اپنے دل کی سب سے دھڑکتی رگ — بنگلہ دیش کے عقوبت خانوں میں پھنسے لاچار پاکستانی بہاریوں کے روندے جانے پر — بھی نہیں لکھ رہی۔
آج میں نے چار ایسی خبریں چُنی ہیں جو مجھے اندر سے ہلا گئیں۔
اور میں چاہتی ہوں کہ آپ بھی صرف پڑھیں نہیں، محسوس کریں۔
1۔ انسانی حقوق کے لیے صرف 2.3 کروڑ روپے؟
بجٹ آتا ہے، جاتا ہے۔ خبریں آتی ہیں، گم ہو جاتی ہیں۔
مگر جو چیز رہ جاتی ہے، وہ ہے ترجیح۔
پاکستان کے 2025-26 کے وفاقی بجٹ میں وزارتِ انسانی حقوق کے لیے صرف 2.3 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
جی ہاں، صرف دو کروڑ اور تیس لاکھ پاکستانی روپے۔
کیا ریاست یہ کہہ رہی ہے کہ انسانی وقار، تحفظ،مساوات، اور انصاف صرف رسمی تقریروں میں اچھے لگتے ہیں؟
کیا یہ بجٹ ہمیں بتا رہا ہے کہ انسانوں کا درد اب فائلوں کے نیچے دبنے کے قابل بھی نہیں رہا؟
کیا آئی ایم ایف کو بتایا نہیں جا سکتا تھا کہ اتنے تھوڑے پیسے نہ رکھیں؟
"میرے پیارے اللہ میاں،
لیڈر کتنے نیک ہیں،
ہم کو دیں وہ صبر کا پھل،
خود وہ کھاتے کیک ہیں!”
(فاروق قیصر عرف انکل سرگم)
2۔ عالمی سطح پر صنفی مساوات میں آخری نمبر: 148 میں سے 148
ورلڈ اکنامک فورم کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان صنفی مساوات میں پوری دنیا میں آخری نمبر پر آ گیا ہے۔
یہ صرف درجہ بندی نہیں، یہ آئینہ ہے۔
ایسا آئینہ جس میں ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔
ہم نے قتل اور ریپ ہونے والی بچیوں اور عورتوں کی بھی کردار کشی کی، اور قبر میں بھی ان کو نہ بخشا۔
تو کیا تعجب کہ ہم 148ویں نمبر پر ہیں؟ حیرت تو تب ہوتی اگر ہم اس نچلے درجے پر نہ ہوتے۔
یہ رپورٹ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے:
"اے قابلِ مذمت پدرسری!
تم نے نصف آبادی کو منظرنامے سے اوجھل کر دیا،
اور اب وہی تمہارا زوال ہے۔”
3۔ اشرافیہ کا خاموش اتفاق، اور سول سوسائٹی کی سہولت کار خاموشی
ہماری سیاسی اشرافیہ، عدالتی بالادستی، معیشت کے جادوگر اور جادوگرنیاں — سب نے ایک خاموش معاہدہ کر رکھا ہے: کہ بس سب چلتا رہے۔
مگر جو دل دُکھاتا ہے وہ یہ نہیں،
بلکہ وہ ہے ہماری سول سوسائٹی کی خاموشی۔
وہ سول سوسائٹی جو ہر سیمینار میں diversity کے نعرے لگاتی ہے،ہر ڈونر میٹنگ میں empowerment کے وعدے کرتی ہے — وہ سب اس ’اتفاقِ اشرافیہ‘ پر خاموش کیوں ہے؟
میں نے بظاہر انسانی حقوق، حقوقِ نسواں، اور غریبوں کے حقوق کا ڈھول بجانے والے اور والیوں کو بھی اس ظالمانہ بجٹ پر یا تو خاموش پایا، یا بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے اس کا دفاع کرتے ہوئے پایا۔
اسی طرح WEF کی درجہ بندی کو تسلیم کرنے پر، اسے مغرب زدہ، کمزور یا مشکوک وطن پرستی سے منسلک کرنے کی کوشش بھی دیکھی۔
چاہے liberals ہوں یا conservatives — سب ہی elites consensus کے حصے دار ہیں۔
نعیم صادق یا اریب اظہر کے قافلے میں بہت کم لوگ ہیں۔
4۔ یونیسف: بچوں کے مستقبل پر نظریاتی سودے بازی؟
یونیسف — "اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال” — کے بورڈ فیصلوں پر امریکی مشن کی حالیہ پریس ریلیز:
یونیسف اب DEI (Diversity, Equity, Inclusion) جیسے "نظریاتی” ایجنڈوں پر زیادہ زور دے رہا ہے،
اور امریکہ کا اعتراض ہے کہ یہ بچوں کی حقیقی ضروریات سے توجہ ہٹا رہا ہے۔
یہ صرف سفارتی زبان نہیں —
یہ بچوں کے مستقبل پر نظریاتی سودے بازی ہے۔
—
اختتامی نوٹ:
اگر یہ خبریں آپ کو پریشان نہیں کرتیں…
تو پھر شاید آپ کا سکون، کسی اور کی تکلیف پر قائم ہے۔
یہ کوئی رسمی بلاگ نہیں،
یہ ایک بے حیثیت آکٹویسٹ کے بے چین دل کی آہ ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ ہم سب رُکیں، غور کریں،
اور بے حسی کے اس نظام میں ایک خلل ڈالیں۔
یہ وقت ہے احساس کو زبان دینے کا۔
خاموشی تو ہم سب کر رہے ہیں — اب کوئی تو بولے!
اگر یہ بلاگ آپ سے بات کر رہا ہے،
تو پلیز اسے آگے بڑھائیں — شاید کسی کا ضمیر جاگ جائے…
یا کہیں یہ تو نہیں،
کہ ہم سب ڈاکٹر فوسطاؤس بن چکے ہیں؟