اسرائیل-ایران تصادم: عالمی تباہی کی جنگ کا آغاز

13 جون 2025 کو شروع ہونے والا اسرائیل-ایران تنازع اپنی حقیقی نوعیت ظاہر کرنا شروع کر چکا ہے۔ یہ کوئی مختصر فوجی کارروائی نہیں جس کا کوئی واضح فوجی ہدف ہو، بلکہ یہ ایک طویل عرصے تک چلنے والی ایک جنگ کا ابتدائی مرحلہ ہے جس کا کوئی واضح حل یا ایگزِٹ نظر نہیں آتا ہے۔ اب یہ "جنگِ استنزاف” (war of attrition) کی صورت اختیار کرنے جا رہی ہے (یعنی ایسی جنگ جو دونوں طرف کو تھکا دے اور ختم نہ ہو)۔

اسرائیل کے بڑے پیمانے کے فضائی حملے – جس کا کوڈ نام "آپریشن رائزنگ لائن” رکھا گیا – میں ایک ہی رات میں 200 سے زائد جنگی طیاروں نے ایران کے سو سے زیادہ جوہری اور فوجی مقامات پر بمباری کی، نصف درجن ایرانی نیوکلیئر سائنسدان، فوج کے ٹاپ جنرلز اور کمانڈرز، ہلاک کیے، اہم جوہری اور میزائل تنصیبات پر حملے کیے۔ اگرچہ یہ کارروائی پیمانے اور ہم آہنگی کے لحاظ سے متاثر کن ہے، لیکن جنگی حکمت عملی (war strategy) کے اعتبار سے یہ کھوکھلی نظر آتی ہے۔

اسرائیلی قیادت کے پاس اپنے بنیادی مقصد – ایران کے جوہری پروگرام کو مستقل طور پر ختم کرنے – کا کوئی واضح راستہ نہیں ہے۔ یہ پروگرام، جو پورے ایران میں منتشر ہے، یہ محفوظ اور سائنسی طور پر خود کفیل ہے۔ یہ چند راتوں کی بمباری سے ختم نہیں ہوگا۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اسرائیل نے اس تصادم میں اس بات کا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا کہ وہ کب اور کیسے اس جنگ سے ایگزٹ کرے گا، اور کیا ایگزٹ کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے!

امریکی سرپرستی: بے لگام جارحیت کی راہ ہموار

کئی طریقوں سے اسرائیل کا یہ حملہ – جس میں نہ تو بین الاقوامی اتفاق رائے تھا اور نہ ہی طویل مدتی حکمت عملی – امریکہ کی سالہا سال کی غیر مشروط حمایت کی وجہ سے اسے اس کی ہمت ہوئی ہے۔ واشنگٹن کا بار بار "اسرائیل کے خود دفاع کے مطلق حق” کا حوالہ دینا، جس میں تمام سیاسی تناظر اور اخلاقی سکروٹنی کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اس نے تل ابیب کو ہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہونے کا اختیار دے دیا ہے جس کا انسانیت سوز مظاہرہ غزہ میں ہوا۔

ایران سے اس تازہ تصادم میں بھی امریکہ نے بغیر کسی سنگین نتائج کے بارے میں سوال اٹھائے، وزیر اعظم نیتن یاہو کی جارحیت کے پیچھے مضبوطی سے کھڑے ہو کر سیاسی تحفظ فراہم کیا ہے۔ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ محض اسرائیلی مس کیلکیولیشن نہیں ہے، بلکہ ایک طویل عرصے سے جاری امریکی پالیسی کا فطری نتیجہ ہے جس نے تصادم کی سٹریٹیجی کو بڑھاوا دیا، سفارت کاری کو کمزور کیا، اور سیاسی تنازعات کے فوجی حل کو جائز قرار دیا۔ امریکہ خود اس حکمت عملی کا داعی ہے۔

جوہری خطرے کا افسانہ: ایک مغربی بیانیہ

اس جنگ کا بنیادی جواز – ایران کے جوہری عزائم سے پیدا ہونے والا موجودہ خطرہ – خود غیر مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہے۔ ایرانی جوہری خطرہ طویل عرصے سے ایک مغربی کا گھڑا ہو بیانیہ رہا ہے، جسے بنیادی طور پر ایران کے خلاف پابندیوں، تنہائی اور خفیہ حملوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے تاکہ اسرائیل کی خطے میں فوجی طاقت کو مکمل طور پر نافذ کیا جا سکے اور اس کے خلاف کسی بھی ممکنہ خطرے کو ابتدا ہی سے کچل دیا جائے۔

سنہ 2015 میں ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان مشترکہ جامع منصوبہ عمل (JCPOA) پر دستخط کے بعد سے، اور یہاں تک کہ ٹرمپ کے یکطرفہ انخلاء کے بعد بھی، ایران نے معاہدے کی بنیادی شرائط پر زیادہ تر عمل کیا ہے حالانکہ اس پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ سے عائد ہو گئی تھیں۔ تہران کے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے کوئی معتبر بین الاقوامی شواہد موجود نہیں ہیں۔ حیرت انگیز طور پر موجودہ اسرائیلی حملے کے بعد بھی ایران نے اپنے جوہری نظریے کو ہتھیار سازی کی طرف موڑنے سے گریز کیا ہے۔ بلکہ اس کا رسٹرینٹ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کا جوہری موقف سیاسی، توانائی اور طبی نوعیت کا ہے – جارحانہ نہیں۔

ایران کا رد عمل: گہرائی اور یکجہتی

اگرچہ اسرائیل کے اہداف ناقابل حصول نظر آتے ہیں، ایران کا رد عمل اپنی گہرائی اور قومی یکجہتی میں واضح ہے۔ غیر مستحکم ہونے کے بجائے، ایرانی عوام – جو پابندیوں اور بیرونی دباؤ سے پہلے ہی تھک چکے تھے – قومی دفاع کے لیے متحد ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت کے بہت سے اندرونی نقادوں اور بیرون ملک مقیم قوم پرست ایرانیوں نے بیرونی جارحیت کے سامنے اپنی شکایات کو عارضی طور پر پس پشت ڈال دیا ہے۔ جو کبھی اندرونی تقسیم نظر آتی تھی وہ اب اجتماعی مزاحمت میں بدل چکی ہے، جو دہائیوں کی مشکلات اور مزاحمت سے پروان چڑھی انقلابی روح کو دوبارہ زندہ کر رہی ہے۔ ایران، اپنے وسیع جغرافیہ، سیلف ریلائینٹ بنیادی ڈھانچے اور ولولے سے بھرپور آبادی کے ساتھ، کسی بھی قسم کے نقصان کو برداشت کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ اور یہ خود ایک طاقت ہے۔

اسرائیل کی کمزوریاں

اس کے برعکس، اسرائیل اگرچہ فوجی ساز و سامان کے لحاظ سے بہت طاقتور ہے، مگر اس جنگ میں ایک کمزور پوزیشن سے داخل ہوا ہے۔ اس کا سماجی ڈھانچہ کمزور ہے، اور اس کے شہریوں کے حوصلے اور قوت برداشت اسرائیل کی مکمل سیکیورٹی اور فوری فوجی فتوحات کے وہمے (illusion) پر قائم ہے۔ اسرائیل ایک قومی یہودی ریاست ہے جو صہیونی نظریات پر کھڑی ہے جس کے قیام میں کالونیلزم اس کے بنیادی حربہ ہے۔ اس میں اگر ایک بھی دراڑ پڑی تو پوری دیوار ڈھ جائے گی۔

اسرائیلی آبادی میں دوہری شہریت رکھنے والوں کا ایک بڑا حصہ شامل ہے – جن میں سے بہت سے ایک جنگ زدہ ملک میں غیر معینہ مدت تک نہیں رہیں گے۔ اگر یہ تنازع جاری رہا، تو اسرائیل کو اپنے کولونیل اعتماد کے خاموشی سے کٹ جانے کا سامنا ہو سکتا ہے، جب شہری برداشت کرنے کے بجائے ملک چھوڑنے کا انتخاب کریں گے۔ اسرائیل سے اب ایک تعداد ہجرت کرچکی ہے اور کافی سارے لوگ تیاریاں پکڑ رہے ہیں۔ اسرائیل نے ایک ایسی جنگ شروع کی ہے جسے وہ فیصلہ کن طور پر نہیں جیت سکتا، اور جسے جاری رکھنے کی اس میں ہمت بھی نہیں ہوگی۔

مغربی پالیسیوں کا نتیجہ

جیسے جیسے جنگ پھیلتی جائے گی، تاریخ اسے محض اسرائیلی زیادتی کی ناکامی کے طور پر نہیں، بلکہ ایک مغربی پالیسیوں کی پیداوار کے طور پر یاد رکھے گی – ایسی پالیسیاں جس نے سفارت کاری کے بجائے جنگ کو ترجیح دی، ثبوتوں کے بجائے افسانوں کو اہمیت دی، اور ایک اعلان نہ کرنے والی نیوکلیئر طاقت (اسرائیل) کی حمایت کرتے ہوئے دوسرے (ایران) کے سول نیوکلیئر پروگرام کو مجرمانہ قرار دیا۔ اسرائیل نے پہلا حملہ کیا، لیکن یہ امریکہ کی دہائیوں کی بلا شرط سرپرستی کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ جنگ ابھی نئی ہے، لیکن یہ اپنے آغاز کی منطق سے زیادہ دیر تک چلنے کا امکان رکھتی ہے۔

امریکی مداخلت: دو ممکنہ راستے

اس بڑھتے ہوئے تنازع کے پیش نظر، کسی نہ کسی شکل میں امریکی مداخلت ناگزیر نظر آتی ہے۔ ایک ممکنہ راستہ – جو زیادہ محتاط اور ممکنہ طور پر مستحکم کرنے والا ہو سکتا ہے – وہ ہے کہ واشنگٹن یورپ کو اکٹھا کرے اور یہاں تک کہ روس کو بھی فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے میں شامل کرے، جس کا مقصد تمام فریقوں کو ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر مذاکرات کی میز پر واپس لانا ہو۔

تاہم، اس راستے میں ایک اہم سیاسی رعایت درکار ہوگی: یہ خاموشی سے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کے تحت یورینیم کی افزودگی کے ایران کے حق کو تسلیم کرے گا – ایک ایسا حق جس کی خلاف امریکہ اور اسرائیلی پالیسی حلقوں نے طویل عرصے سے مخالفت کی ہے، چاہے اس کی قانونی بنیاد کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔

دوسرا راستہ کہیں زیادہ خطرناک ہے: اسرائیل کے ساتھ براہ راست امریکی ملٹری ملوث ہو جائے، جس کا مقصد ایران کے سٹریٹجک بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا اور ممکنہ طور پر حکومت کے خاتمے کی کوشش کرنا ہو۔ تاہم، یہ منظر نامہ غیر یقینی صورتحال سے بھرا ہوا ہے اور امریکی “ملٹری ایکسرسائزز” (military exercises) اور “کانفلکٹ سیمیولیشنز” (conflict simulations) کے دو دہائیوں کے تجربے کی روشنی میں سامنے آیا ہے، جو مسلسل یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر بمباری کرنا عملی طور پر ممکن ہے، لیکن کوئی پائیدار سیاسی نتیجہ حاصل کرنا – چاہے وہ نیوکلیئر عدم پھیلاؤ ہو یا حکومت کا خاتمہ – ایک بڑے پیمانے پر، طویل مدتی اور زیادہ جانی نقصان والی جنگ کی ضرورت ہوگی۔

یہ نتائج نہ صرف امریکی محکمۂِ دفاع پینٹاگون کی جنگی مشقوں نے اخذ کیے ہیں بلکہ حقیقی دنیا کی پالیسی کو بھی رہنمائی فراہم کی ہے: یہاں تک کہ سخت گیروں جیسے 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ اور 2024 میں جو بائیڈن نے کھلی جنگ کے بجائے معاشی پابندیوں اور خفیہ تخریب کاری کو ترجیح دی۔ اس وقت امریکہ ایک میسینک ٹرمپ کی رہنمائی میں اور مکمل طور پر صہیونیوں سے گھرا ہوا ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ اس جنگ میں شریک ہو جائے۔

خطرناک نتائج

اگر تنازع طول پکڑتا ہے، تو نتائج صرف ایران اور اسرائیل کے لیے ہی نہیں، بلکہ پورے خطے اور عالمی معیشت کے لیے بھی خطرناک ہوں گے۔ تیل کے بازار غیر مستحکم ہو جائیں گے، عالمی سپلائی چینز ٹوٹ سکتی ہیں، اور وسیع تر جغرافیائی سیاسی مقابلے تصادم میں بدل سکتے ہیں۔ ایک طویل جنگ کسی کے بھی فائدے میں نہیں ہوگی، اور اگرچہ واشنگٹن کے پاس اب بھی تعمیری طور پر عمل کرنے کی گنجائش ہے، لیکن یہ موقع تیزی سے گزر رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے