غلامی قبول نہیں، آخری سانس تک لڑنے کا حوصلہ!

یہ دنیا صرف جیتنے والوں کی نہیں، ہمت کرنے والوں کی ہے۔
یہ تاریخ صرف کامیاب حکمرانوں کی نہیں، بلکہ ڈٹ کر لڑنے والوں کی ہے۔
یہ زمین اُن قوموں کو یاد رکھتی ہے جو کمزور ہوتے ہوئے بھی جھکی نہیں، لڑیں، گریں، مگر کبھی غیرت کا سودا نہیں کیا۔

جب یہ کہا جائے کہ "بات ہار یا جیت کی نہیں، اصل بات ہمت، حوصلے اور غیرت کی ہے” تو یہ صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط ایک سچائی ہے۔
دنیا کی تاریخ ان گواہیوں سے بھری ہوئی ہے جہاں شہ رگ کٹ گئی، مگر سر نہیں جھکا۔

کربلا: عظیم ترین مثال

اگر غیرت، قربانی، اور حق پر ڈٹ جانے کی سب سے عظیم مثال تلاش کرنی ہو، تو کربلا کا میدان ہمیں آواز دیتا ہے۔
حضرت امام حسینؑ نے ظالم کے سامنے جھکنے کے بجائے اپنے خاندان اور ساتھیوں سمیت قربانی دینا قبول کیا۔
صرف 72 جانثار تھے، سامنے ہزاروں کی فوج۔
پانی بند کیا گیا، بچوں کی پیاس سے سسکیاں آئیں، لیکن امام حسین رضہ کا سر جھکا نہیں۔
یہ کوئی جنگی معرکہ نہیں تھا، یہ حق اور باطل کی لکیر کھینچنے والا لمحہ تھا جو رہتی دنیا تک انسانیت کو سبق دیتا رہے گا:

"ظلم کے سامنے سر جھکانا حسین کے ماننے والوں کا شیوہ نہیں۔”

سپارٹا کے 300 سپاہی: غیرت کی علامت

یونان کی تاریخ میں بھی عدد کی بے معنویت کو چیلنج کرتی ایک شان دار مثال ملتی ہے سپارٹا کے تین سو سپاہی، جنہوں نے فارسی بادشاہ خشایارشا کی لاکھوں فوج کے سامنے اپنے وطن کے دفاع کے لیے جان دے دی۔
بادشاہ لیونیڈس اور اس کے ساتھی جانتے تھے کہ وہ بچیں گے نہیں، مگر انہوں نے دشمن کو یہ پیغام دیا کہ ہم بزدل نہیں بلکہ بہادری سے لڑ کر مرنے والوں میں سے ہیں۔

ٹیپو سلطان: شیرِ میسور

برصغیر کی سرزمین پر ٹیپو سلطان ایک ناقابل فراموش مثال ہے۔
جب انگریزوں نے میسور پر حملہ کیا، تو ٹیپو سلطان نے موت کو گلے لگایا مگر غلامی قبول نہ کی۔
اس کے تاریخی الفاظ آج بھی غیرت مندوں کا نعرہ ہیں:
"شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے!”

ویتنام: مزاحمت کا استعارہ

چھوٹا سا ملک ویتنام، دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کے سامنے ڈٹ گیا۔
نہ وسائل، نہ جدید ٹیکنالوجی، مگر عزم، جذبہ اور آزادی کی تڑپ ایسی تھی کہ امریکہ جیسی سپر پاور بھی تھک کر پیچھے ہٹ گئی۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ
"فتح وہی حاصل کرتا ہے جو لڑتا ہے، چاہے حالات کچھ بھی ہوں۔”

فلسطین کے بچے: غیرت کی زندہ مثال

آج اگر کوئی غیرت اور مزاحمت کی جیتی جاگتی مثال دیکھنی ہو، تو غزہ کے بچے دیکھو۔
جن کے ہاتھوں میں کھلونے نہیں، مگر دلوں میں اقصیٰ کی آزادی کا خواب ہے۔
بمباری، فاقے، یتیمی مگر پھر بھی غلامی قبول نہیں۔
ان کی آنکھوں میں جمی ہوئی روشنی بتاتی ہے کہ دشمن طاقتور ضرور ہے، مگر ہم ہارے نہیں۔

ترکی: جدید دور کی مزاحمت

اور اب جدید دور کی ایک عظیم مثال ترکی کی عوام ہے۔
جب 2016 میں فوج نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی، تو صدر اردوان کی ایک کال پر لاکھوں ترک عوام سڑکوں پر نکل آئے۔
ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، گولیاں کھائیں، مگر جمہوریت، آزادی اور اپنے تشخص کی حفاظت کی۔
وہ رات صرف ترکی کی نہیں، بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے پیغام بن گئی کہ جب قوم جاگتی ہے، تو کوئی سازش، کوئی طاقت اسے غلام نہیں بنا سکتی۔

آج ہمیں صرف تاریخ کے صفحات نہیں دیکھنے چاہئیں، بلکہ ان سے جذبہ اور سمت حاصل کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں کو زنجیریں نہیں، غیرت کی چابیاں دینی ہیں۔ ہمیں بتانا ہوگا کہ ہمارا راستہ عزت کا ہے، چاہے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو کیونکہ قومیں صرف معیشت یا سیاست سے نہیں بنتیں وہ بنتی ہیں نظریے، غیرت، قربانی، اور ہمت سے۔

ہمیں بطور قوم فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنے سکولوں، میڈیا، عدالتوں اور بیوروکریسی میں غلامی نہیں بلکہ غیرت پر مبنی اصولوں کو اپنائیں گے۔
یہ محض کسی سیاسی جماعت کا فرض نہیں کہ وہ جمہوریت کی حفاظت کرے یہ ہر شہری، ہر استاد، ہر صحافی، ہر جج اور ہر افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ملک کی جمہوری روح کو زندہ رکھے۔

یاد رکھیں، جمہوریت صرف ایک نظام حکومت نہیں، بلکہ ضمیر کا تقاضا ہے۔
یہ صرف ووٹ دینے کا عمل نہیں، بلکہ حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد ہے۔
اس کے لیے کسی سیاسی پارٹی کا رکن ہونا ضروری نہیں
ضروری ہے کہ ضمیر زندہ ہو، جو یہ جانتا ہو کہ
آزاد میڈیا، غیر جانبدار عدلیہ، ایماندار بیوروکریسی، اور باشعور عوام ایک آزاد قوم کی پہچان ہوتے ہیں۔

اگر ہم واقعی عزت سے جینا چاہتے ہیں،
تو ہمیں صرف آزادی کا جشن نہیں منانا،
بلکہ آزادی کی حفاظت کا بیڑا بھی اٹھانا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے