قدرتی توازن اور موجودہ عالمی حالات نیز بڑے پیمانے پر جارحیت کا ارتکاب اور امید کی کرن

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی نے طاقت کے زعم میں انسانی اقدار، سلامتی، عدل اور انصاف یا بالفاظ دیگر توازنِ فطرت کو چیلنج کیا، تو قدرت نے پھر اس کے تانے بانے الٹ دیے۔ آج بھی عالمی سطح پر جارحیت، استحصال اور ناانصافی کے مظاہر جا بجا دیکھنے کو مل رہے ہیں، لیکن فلسفۂ توازن یہی کہتا ہے کہ ہر عمل کا ایک مضبوط ردعمل ہوتا ہے۔ چاہے فلسطین کے مظلوم عوام کے ستم رسیدہ حالات ہوں، یوکرین میں تباہیوں کا دراز ہوتا سلسلہ ہو، یا پھر عالمی معیشت کی شیرازہ بندی اور غیر مستحکم صورتحال کے رنگ بہ رنگ نتائج، قدرت کا قانونِ عدل ہر جگہ کار فرما نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں طرح طرح کے مظالم ڈھانے کے باوجود اسرائیل کو ایک لمحے کا سکون بھی میسر نہیں آیا اور عوام میں اپنے تحفظ کے حوالے سے بے چینی روز بروز بڑھ رہی ہے، اس طرح روس بھی یوکرین کے گرداب میں ایسا پھنس گیا ہے کہ اب چاہتے ہوئے بھی نکلنے کا کوئی راستہ اسے دکھائی نہیں دے رہا جبکہ آمریکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ چین سے بے انتہا خوف اور خطرہ محسوس کر رہا ہے۔

افغانستان میں رہنے کے بعد نکلنے کے لیے مجبور ہوا اور ملک کو ان لوگوں کے حوالے کرنا پڑا جنہیں ختم کرنے کے لیے حملہ آور ہوا تھا۔ اس طرح یورپ اپنے دفاع کے لیے کئی برس سے لرزہ براندام ہے، بیک وقت روس اور امریکہ سے اسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مختلف عالمی طاقتوں کا مسلسل پریشانیوں سے گزرنا اس حقیقت کا اظہار ہے کہ قدرت دنیا کو ہرگز چند طاقتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ رہی اور اس کی حفاظت کے لیے اپنے طور پر ضروری اسباب پیدا کر رہی ہے۔ شمالی کوریا بڑے بڑوں کی پگڑی اچھال رہا ہے، ایران نے بے رحم عالمی پابندیوں کے باوجود اپنا جوہری پروگرام جاری رکھا ہوا ہے۔ کشمیر عشروں سے مقبوضہ ہے لیکن ہندوستان کے لیے اسے ہضم کرنا ممکن نہیں، غزہ کی پٹی کو اسرائیل نے راکھ کا ڈھیر بنا دیا لیکن اس کے باوجود وہاں زندگی کی رمق اور مزاحمت کی چنگاریاں نہ صرف موجود ہیں بلکہ مسلسل سلگ رہی ہیں۔

1. جارحیت کا تاریخی پس منظر اور قدرت کا قانون

انسانی تاریخ میں جارحیت کا کوئی بھی دور مستقل ثابت نہیں ہوا۔ ہٹلر کی فاشزم ہو یا برطانیہ کی استعماریت، وقت نے ثابت کیا کہ ظلم کی بنیاد پر کھڑی ہر طاقت کو زوال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آج بھی فلسطین میں اسرائیلی جارحیت، یوکرین میں روس کی بربریت، یا کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی، یہ سب اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔ لیکن قدرت کا اصول واضح ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ

"وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ” (النحل: 126)

"اور اگر تم سزا دو تو اسی طرح جیسے تمہیں سزا دی گئی ہو، اور اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لیے زیادہ بہتر ہے۔”

ایک طرف یہ آیت ظلم کے خلاف ردعمل کی اجازت دیتی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ دوسری طرف صبر کو افضل قرار دیتی ہے، گویا یہ باور کرا رہی ہے کہ اگر صبر کے ذریعے قدرت کے قانون توازن کو اپیل کریں تو یہ عمل زیادہ دیرپا نتائج کا حامل ثابت ہوگا۔

2. موجودہ عالمی تناظر: کیا ہم توازن کی طرف بڑھ رہے ہیں؟

فلسطین کی مقاومت: گزشتہ سات دہائیوں میں اسرائیل کے بے انتہا ظلم و ستم کے باوجود فلسطینی عوام کا صبر اور ان کی جدوجہد نے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو سیاسی اور اخلاقی طور پر تنہا کر دیا ہے۔ BDS (Boycott, Divestment, Sanctions) تحریک جیسے اقدامات طاقت کے توازن کو تبدیل کر رہے ہیں۔ آمریکہ کو چھوڑ کر باقی دنیا میں اس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ اب ایران کے ساتھ کھلی جنگ کا آغاز کر کے اسرائیل نے اپنے لیے ایک خطرناک انجام کا انتخاب کر دیا ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں فلسطینیوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے کہ جنہیں دیکھ کر پوری دنیا نے اسرائیل کو اپنے لیے ایک بہت بڑے خطرے کے طور پر دیکھا۔

روس یوکرین جنگ: روس اور یوکرین کی جنگ نے عالمی طاقتوں کو ایک نئے سرد جنگ کے دور میں دھکیل دیا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ جدید دور میں طاقت اور حشمت کے باوجود جنگوں کا کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ تمام فریق متاثر ہوتے ہیں، ان کا دفاع کمزور اور معیشتیں تباہ ہوتی ہیں جبکہ عوام مسلسل قربان۔

معاشی اتار چڑھاؤ: امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ، ناقابلِ برداشت مہنگائی، اور چار دانگ عالم میں معیشت کے بحران نے ثابت کیا ہے کہ استحصالی پالیسیاں دنیا میں طویل مدتی توازن کو خراب کر رہی ہیں۔ کیا یہ تباہی نہیں کہ دنیا میں بیک وقت امارت اور غربت بڑھ رہی ہیں، آسودگی اور بے چینی میں یکساں رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے، دنیا میں حفاظت کے غرض سے اسباب اور اقدامات کی نہ ختم ہونے والی دوڑ لگی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ دیکھے اور ان دیکھے خطرات بھی سروں پر منڈلا رہے ہیں۔

3. مستقبل کے امکانات: بہتری کیسے؟

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا، إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا” (الم نشرح: 5-6)
"بے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے، یقیناً دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔”

یہ آیات ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ موجودہ بحرانوں کے بعد ضرور کوئی روشنی اور خیر ہوگی۔ اس تسلسل میں چند امکانات یہ ہیں مثلاً عوامی بیداری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور معلومات تک رسائی نے عوام کو طاقت، اعتماد اور آگہی دی ہے جبکہ مظلوم قومیں اب زیادہ منظم اور موثر ہوئی ہیں، اس طرح اخلاقی اصولوں کو عمومی عروج ملا یعنی آمریکہ اور یورپ میں نئی نسل کا رجحان استعماری پالیسیوں کے خلاف ہے۔ اس طرح برق رفتار سائنسی ترقی ہوئی اور توانائی کے متبادل ذرائع (جیسے شمسی توانائی) نے تیل کے لیے لڑی جانے والی جنگوں کا خاتمہ ممکن بنایا۔ جدید تعلیم و تربیت اور صلاحیتوں کے فروغ نے بڑے پیمانے پر افراد اور اقوام کی افادیت اور اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے، اب ترقی یافتہ ممالک کو بڑے پیمانے پر چھوٹے ممالک سے ہنرمند افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طلب و رسد کا سلسلہ قدرتی توازن برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔

قدرت کا توازن ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ہر جارحیت، ہر ناانصافی اور ہر حق تلفی کا ایک نہ ایک دن خاتمہ ہوتا ہے۔ ہمیں صبر، تدبر، محنت، محبت اور اتحاد و اتفاق سے سرشار ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والا کل ان شاءاللہ ضرور بہتر ہوگا، کیونکہ یہی فطرت کا اٹل قانون ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے

"وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ” (ابراہیم: 42)

"اور یہ ہرگز مت سمجھو کہ اللہ ظالموں کے کاموں سے بے خبر ہے، وہ تو انہیں صرف ایک دن تک مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔”

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صبر اور استقامت کی توفیق دے اور دنیا کو ظلم و ستم اور جارحیت سے پاک کرنے والوں میں شامل کرے۔ آمین!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے