قسطوں کی عمر قید میں آزاد لوگ

پاکستان میں چیزیں نوے فیصد لوگوں کی اپنی ملکیت ہیں۔
گاڑیاں، مکان، پلاٹ، زمینیں سب کچھ اپنا ہے۔ چاہے نیا ہے یا پرانا، لیکن دل مطمئن ہے کہ بھائی! یہ میرا ہے۔پاکستان میں گھر چھوٹا ہے یا بڑا، ہوتا اپنا ہے۔

لندن میں دیکھو، یا امریکہ جھانکو بڑی بڑی گاڑیاں، ڈربے جیسے گھر، شیشے جیسے آفس، سب کچھ قسطوں پر، سب کچھ بینکوں کے نام پر۔اپنے نام پر کچھ بھی نہیں، اپنی صرف پھوں پھاں۔صبح اٹھتے ہیں، کام پر جُت جاتے ہیں، ہمارے رہٹ پر بندھے کھوتے کی طرح۔

شام کو ہمارے ہل میں جوتنے والے داند کی طرح تھکے ہوئے واپس آتے ہیں اور آ کر بستر پر یوں گرتے ہیں جیسے جسموں سے روح پرواز کر چکی ہو۔

اور جب پاکستان آتے ہیں، تو پہلا جملہ ہوتا ہے:
"Oh my God! Everything is dusty!”
ارے بھائی! دھول ہے، مٹی ہے، پاکستان ہے، یہاں زمین سے پیداوار نکلتی ہے، قسط نہیں۔یہ جو لندن، پیرس، نیویارک میں رہنے والے ویزا یافتہ غلام نما مزدور ہیں، ان کی زندگی صرف دو حصوں میں بٹی ہوتی ہے:

1. کام
2. اگلے کام کی تیاری

نہ وقت اپنا، نہ نیند اپنی، نہ سانس اپنی، نہ گاڑی اپنی، نہ گھر اپنا۔گاڑی کی چمک دیکھ کر لگتا ہے "Rolls Royce”، لیکن پیچھے تین سال کا قسط نامہ اور ہر مہینے کا دل دہلا دینے والا بینک الرٹ۔
گھر کی کھڑکیوں سے باہر کا منظر کسی فلم کا لگتا ہے، لیکن اندر فریج میں صرف "Buy 1 Get 1 Free” آلو۔

ان کا ہفتہ بھی کام کا، اتوار بھی کام کا۔چھٹی کا مطلب: کپڑے دھونا، صفائی کرنا، اور اگلے ہفتے کے لنچ باکس کی تیاری۔نہ چائے کی پیالی کے ساتھ گپ شپ، نہ چاچاجی کی سالگرہ کا کیک۔
کوئی چاچاجی ہیں بھی نہیں، سب اکیلے۔

ادھر پاکستان میں بندہ چاہے 660cc گاڑی رکھتا ہو، لیکن گاڑی اپنی ہوتی ہے۔چاہے گھر کے دروازے پر چٹخنی بھی نہ ہو، لیکن دروازہ اپنا ہوتا ہے۔نہ کوئی قسط، نہ کوئی کال کہ "Dear Sir, your payment is overdue”۔

پاکستان میں ہر کوئی صبح اٹھتا ہے اور اگر چاہے، دیر تک سوتا بھی رہے۔نہ کوئی باس، نہ کوئی 9 بجے کی punching machine۔جاگتا ہے، تو مرغی کی بانگ پر۔
چائے پیتا ہے، پراٹھا کھاتا ہے، اور پھر پڑوس میں بیٹھ کر یہی بات کرتا ہے کہ:
"یار وہ لندن والے کہتے ہیں کہ سب کچھ dusty ہے!”

ادھر دوپہر کو گلی میں کرسی ڈال کر دھوپ سینکنا ایک نعمت ہے۔شام کو دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپیں مارنا، قہقہے لگانا اور رج کے ٹُکر کھانا اور آخر میں بل کی ادائیگی پر لڑائی کرنا یہ سب زندگی ہے۔
رشتہ داروں سے ملاقات، بچوں کی شادیوں میں ہلا گلا، عید بقرعید پر ملنا ملانا، ہنسنا کھیلنا یہ سب کچھ یورپ والوں کے نصیب میں نہیں۔

پاکستان میں کھانا کھاتے ہوئے یہ نہیں دیکھنا پڑتا کہ بل کتنا آئے گا۔
ادھر freedom of speech ہے، اُدھر freedom of rent increase۔
ادھر دل سے جینا ہے، اُدھر دل کو ہی قسط پر دے دیا ہے۔ادھر قہوہ ہے، اُدھر کیپچینو کی دو گھونٹ میں چھ سو روپے۔ادھر بندہ دوستوں سے ملتا ہے، اُدھر صرف WiFi کے ذریعے زندہ ہے۔
تو اگلی بار جب کوئی پردیسی لندن سے اُترے اورکہے:
"Oh my God, everything is dusty!”
تو اسے آہستگی سے سمجھانا:
"بھائی! مٹی میں خوشبو ہوتی ہے، قسط میں نہیں!”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے