یہ جملہ بظاہر مختصر مگر اپنی معنویت میں ایک پوری کائنات سموئے ہوئے ہے۔ یہ وہ پکار ہے جو انسان کو خود کے اندر جھانکنے کی دعوت دیتی ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کبھی واقعی خود کو پہچان پاتا ہے؟ یا جو کچھ وہ اپنے بارے میں سمجھتا ہے، وہ محض ایک مصنوعی شناخت ہوتی ہے، جو معاشرہ، مذہب، اور ارد گرد کے حالات اس پر تھوپتے ہیں؟ انسانی وجود کے اس پیچیدہ سوال کا کوئی سیدھا جواب نہیں، مگر فلسفے کی روشنی میں ہم اس پر تنقیدی نظر ضرور ڈال سکتے ہیں۔
قدیم یونانی فلسفی سقراط نے سب سے پہلے اس جملے کو ایک فکری محرک کے طور پر پیش کیا: "اپنے آپ کو پہچانو”۔ لیکن یہی سقراط ایک اور مقام پر یہ اعتراف کرتا ہے کہ "میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا”۔ یہ فقرہ انسانی شعور کی محدودیت اور خود شناسی کے پیچیدہ سفر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انسان جسے "میں” کہتا ہے، وہ درحقیقت ایک ایسا تصور ہے جو لمحہ بہ لمحہ بدلتا ہے، حالات سے بنتا اور ٹوٹتا ہے۔ فلسفی فریڈرک نطشے اس خیال کو مزید وسعت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کو اپنی ذات کی تشکیل خود کرنی ہے، اور اسے وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ دینا ہوگا جو اس پر تھوپا گیا ہو۔ نطشے کے مطابق، ہم جو کچھ اپنے بارے میں جانتے ہیں، وہ اکثر ہمارے آس پاس کے لوگوں کے نظریات اور خواہشات کا عکس ہوتا ہے، نہ کہ ہماری اصل حقیقت۔
انسان کا یہ سفرِ خود شناسی اکثر مذہبی اصولوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے۔ ہر مذہب انسان کو ایک خاص شناخت دیتا ہے — بندۂ خدا، نیکوکار، گناہگار، شریعت کا پابند — اور اسی دائرے میں اس کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام شناختوں میں انسان کی انفرادی خودی کی کوئی جگہ باقی رہ جاتی ہے؟ فلسفی ژاں پال سارتر مذہب اور معاشرتی اصولوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کی اصل شناخت وہ ہے جو وہ خود اپنے انتخاب اور ارادے سے بناتا ہے۔ ان کے مطابق، "انسان وہی ہے جو وہ خود کو بناتا ہے”، نہ کہ وہ جو مذہب یا معاشرہ اسے بننے پر مجبور کرتا ہے۔
معاشرہ بھی انسانی شناخت کو طے کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک انسان کو بچپن سے ہی بتایا جاتا ہے کہ اسے کیسا ہونا چاہیے — اچھا بیٹا، اطاعت گزار شہری، نیک انسان — گویا معاشرہ ایک سانچہ تیار کرتا ہے اور ہر فرد کو اس میں فٹ ہونے پر مجبور کرتا ہے۔ فرانس کے جدید فلسفی میشل فوکو اس حوالے سے کہتے ہیں کہ طاقت معاشرتی اصولوں کی بنیاد ہوتی ہے، اور جو شخص اس "نارمل” سے ہٹتا ہے، اسے پاگل، گناہگار، یا مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو انسانی خودی اکثر دبائی جاتی ہے، چھپائی جاتی ہے، یا بالکل مٹا دی جاتی ہے۔
اگر ہم مزید گہرائی میں جائیں تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا "میں” جسے ہم اپنی اصل سمجھتے ہیں، وہ کوئی حقیقی وجود رکھتا بھی ہے یا نہیں؟ ماہرینِ نفسیات اور فلسفیوں کے نزدیک "False Self” یعنی جعلی خودی ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے جو انسان اپنے ارد گرد کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپناتا ہے۔ یہ وہ شخصیت ہوتی ہے جو والدین کی خوشی، استاد کی تعریف، مذہب کی قبولیت، اور معاشرے کے معیار پر پورا اترنے کی خاطر اپنائی جاتی ہے۔ جب کہ "True Self” وہ پوشیدہ ذات ہے جو خاموشی، تنہائی، اور خود سے مکالمے میں آہستہ آہستہ آشکار ہوتی ہے — اگر ہو بھی سکے۔
اس سارے تجزیے سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ "خود کو پہچانو” ایک نعرہ ضرور ہے، مگر اس پر عمل کرنا ایک غیر معمولی جدوجہد ہے۔ یہ وہ سفر ہے جس میں انسان کو معاشرے، مذہب، خاندان، اور ریاست کی لگائی ہوئی تمام تہوں کو چیرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی اصل ذات تک پہنچ سکے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بہت کم لوگ یہ ہمت کر پاتے ہیں، کیونکہ یہ راستہ تنہائی، سوالات، اور بغاوت سے بھرا ہوتا ہے۔
شاید حقیقی خود شناسی وہ لمحہ ہے جب انسان یہ مان لیتا ہے کہ وہ خود کو مکمل طور پر کبھی نہیں جان سکتا۔ اور یہی اعتراف شعور کی پہلی سیڑھی ہے۔ جب انسان ہر سچائی، ہر اصول، ہر نظریے پر سوال اٹھانے لگے، تبھی وہ اپنی اصل کے قریب پہنچتا ہے۔ یہ ایک مسلسل سفر ہے — جس کی منزل شاید کبھی نہیں آتی، مگر جس کی راہ میں ہی زندگی کا اصل مفہوم چھپا ہوتا ہے۔